ملک میں کلب اور شہروں کی کرکٹ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے

March 02, 2021

پروفیسر اعجاز احمد فاروقی

(سابق رکن پی سی بی گورننگ باڈی)

پاکستان سپر لیگ کے میچوں کے دوران پی سی بی نے مجھے نیشنل اسٹیڈیم مدعو کیا تو اسٹیڈیم میں ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کو دیکھ کر خوشی ہوئی لیکن افسوس ہوا کہ تماشائی کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اسی دوران چیئرمین باکس میں چیف ایگزیکٹیو وسیم خان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے امید دلائی کہ جلد تماشائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

چند دن بعد نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سنٹر (این سی اوسی) نےپاکستان سپر لیگ 6 میں شامل کراچی لیگ کے آئند ہ میچوں کے لیے پچاس فیصد تماشائیوں کو اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت دے دی اور کہا کہ ٹورنامنٹ میں شامل لاہور لیگ کے میچز سے متعلق فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔

یہ اچھی پیش رفت ہے۔اسی دوران پی سی بی ایک اور اچھا فیصلہ کیا اور رواں سیزن میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر پی سی بی ٹیسٹ کرکٹر آف دی ائیر 2020، محمد رضوان اور فواد عالم کو پی سی بی سینٹرل کنٹریکٹ کیفہرست برائے 21-2020 میں ترقی دے دی ۔ 28 سالہ محمد رضوان کو سینٹرل کنٹریکٹ کی بی کٹیگری سے ترقی دے کر اب اے کٹیگری کا حصہ بنا یا گیا ہے۔ اس کٹیگری میں وکٹ کیپر بیٹسمین کے علاوہ کپتان قومی کرکٹ ٹیم بابراعظم، اظہر علی اور شاہین شاہ آفریدی شامل ہیں۔محمد رضوان رواں سیزن ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین ہیں۔

وہ 7 ٹیسٹ میچوں میں 52.90کی اوسط سے 529 رنز بناچکے ہیں ۔ٹی ٹونٹی کرکٹ کی اس فہرست میں ان کا نمبر تیسرا ہے۔ ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں وہ 65 کی اوسط سے 325 رنز بناچکے ہیں۔ زمبابوے کے خلاف تین ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں انہوں نے 25 رنز بنائے ۔اس دوران محمد رضوان نے ٹیسٹ کرکٹ میں وکٹوں کے پیچھے 16 ، ٹی ٹونٹی کرکٹ میں 8 اور ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں 3 شکار کیے ۔فواد عالم نے حال ہی میں نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں دو سنچریاں اسکور کیں۔ انہوں نے 6 ٹیسٹ میچوں کی 11 اننگز میں 2 سنچریاں بنائی ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کو کریڈٹ دینا پڑے گا کہ اس نے کورونا کی عالمی وباء کے باوجود ملک میں پورے سال کرکٹ کی سرگرمیوں کو جاری رکھا ، ایسے وقت میں جبکہ بھارت،انگلینڈ اور آسٹریلیا میں کرکٹ نہیں ہورہی تھی پاکستان نے سیزن کو کامیابی سے کرایا۔30 ستمبر سے 23 فروری تک جاری رہنے والے اس سیزنمیں شعبہ ہائی پرفارمنس اور دیگر شعبہ جات کی معاونت سے 9 ٹورنامنٹس کے220 میچز کرائے جومعمولی بات نہیں، پی سی بی نے روزگار کے مواقع بڑھانے میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ سیزن بھر کرکٹ کھیلنے والے ان کرکٹرز نے2.5 ملین سے لے کر 3.8ملین روپے تک معاوضہ کمایا۔

یہ رقم کھلاڑیوں نے ڈیلی الاؤنس، میچ فیس اور کنٹریکٹ کی مد میں کمائی ۔حالانکہ ڈپارٹمنٹ کی ٹیموں کو بند کرنا اچھا فیصلہ نہیں تھا لیکن موجودہ حالات میں کھلاڑیوں کو بڑا معاوضہ ملنا اچھی کوشش ہے اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔پاکستان میں کرکٹ کے ذریعے ہماری سیاحت اور ہوٹل انڈسٹری سمیت کئی اور شعبوں کو فائدہ ہوا ہے۔وسیم خان نے مجھے بتایا کہ کرکٹ کے ذریعےکھیلوں کے سامان، کپڑوں، ہوٹل اور ٹریول انڈسٹری کے کاروبار کو بھی تقویت ملی ہے۔

صرف ہوٹل انڈسٹری میں پی سی بی نےپانچ ماہ طویل جاری رہنے والے ڈومیسٹک سیزن 21-2020 کے دوران اپنے کھلاڑیوں اور میچ آفیشلز کے لیے سات مہنگے ہوٹلوں کے 23316 بیڈز پر مشتمل کمرے استعمال کیے۔ عام کرکٹرز کا فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام بھی کھلاڑیوں کے لئے اچھی خبر ہے۔

احسان مانی اور ان کی انتظامی ٹیم کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں کلب اور سٹی کرکٹ کو جلد بحال کیا جائے کیوں کہ یہی کرکٹ پاکستان سے ٹیلنٹ کو اوپر لانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔