یمن میں خانہ جنگی

March 17, 2021

یمن کی اچانک بگڑتی صورت حال کے حوالے سے بعض عرب مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جاری بیانات اور ساتھ ہی سعودی ولی عہد پر تنقید کے بعد یمن میں حوثی باغیوں اور شیعہ ملیشیا نے جنوبی یمن کے علاقوں پر شدید حملے شروع کر دیئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں تیزی سے بگڑتی صورت حال نہ صرف ایک بڑا انسانی سانحہ ثابت ہو سکتی ہے بلکہ پورے خطّے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

حوثی باغیوں اور شیعہ ملیشیا نے یمن کے دارالخلافہ صنعاء سےستّر میل کے قریب واقع ماریب سٹی پر حال ہی میں بیلسٹک میزائل، راکٹوں اور بم دھماکوں سے حملہ کر کے شہر کے مضافات میں واقع ڈیڑھ سو کے قریب یمنی بے گھر باشندوں کے کیمپوں میں ہزاروں افراد کو ہلاک اور زخمی کر دیا۔ کیمپوں میں محصور یمنی باشندوں کا کہنا ہے کہ ہم کیمپوں کے تباہ ہونے کے بعد کہاں جائیں۔ واضح رہے کہ اب تک بیس لاکھ سے زائد یمنی بے گھر، ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور کروڑوں ڈالر کی املاک تباہ ہو چکی ہے۔

2011ء میں عرب ملکوں میں اُٹھنے والی پُرشور اور پُرزور احتجاجی تحریک جو مطلق العنان عرب حکمرانوں کے خلاف تھی اس میں یمن بھی شامل تھا جہاں تین عشروں سے زائد عرصے سے یمن پر قابض صدر عبداللہ صالح کے خلاف بھی تحریک کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے صدرعبداللہ صالح کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور اپنے نائب عبداللہ منصور ہادی کو اقتدار منتقل کرنا پڑا، مگر منصور ہادی کی حکومت کو طویل عرصے کی کمزور، بدعنوان حکمرانی کے تمام بڑے مسائل جیسے غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور ناانصافی سمیت شمال میں موجود زیدی شیعہ مسلک کے حوثی باغیوں اور ملیشیا کے شدید حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

شمال کے زیدی شیعہ مسلک کے حوثی باغیوں اور دیگر علیحدگی پسند عناصر نے قبل ازیں جو لڑائی عبداللہ صالح کے دور میں شروع کی تھی وہ صدر عبداللہ منصور ہادی کے دور میں بھی جاری رکھی بلکہ اس میں مزید شدت آگئی۔ اگر یمن کی جاری صورت حال کو سمجھا جائے تو کچھ ماضی پر بھی نظر ڈالنی ہوگی۔

ہوا یوں کہ 1918ء میں جب سعودی عرب اور یمن کے بیشتر علاقے سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیے گئے تھے تب شمالی یمن کے زیدی شیعہ مسلک کے مذہبی رہنمائوں نے شمالی یمن کو آزاد کرانے کی جدوجہد شروع کر دی تھی وہ جنوب کی سنّی اکثریت سے الگ اپنا وطن چاہتے تھے۔ اس خطّے میں عرب قبائل اور ترک فوجوں کے مابین بڑی جھڑپیں ہوتی رہیں تھیں۔ ان حالات میں دَرپردہ برطانوی حکومت ترکوں کے خلاف عرب قبائل کو مدد فراہم کرتی رہی تھی۔

سعودی عرب میں 1932ء سے سعودی خاندان کی حکمرانی قائم ہے۔ یمن چونکہ قدیم ترین عرب ملک ہے اس کے روابط خطّے کے تمام قبائل سے قائم رہے۔ جنگیں بھی ہوئیں دوستی اور تعاون بھی جاری رہا، البتہ شمالی یمن کے قبائل اور سعودی عرب کے جنوبی خطّے کے قبائل کے آپس میں زیادہ تر تعلقات کشیدہ رہے،اس میں مذہبی مسلک کا بڑا دخل رہا۔

جب شمالی یمن کے قبائل اور حوثی باغیوں کی سرگرمیاں زور پکڑنے لگی تھیں تب سعودی عرب نے 2007ء میں سعودی یمن سرحد پر جو گیارہ سو میل طویل ہے باڑھ لگانے اور دیوار تعمیر کرنے کے لئے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کی۔ اس پر نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک اشاعت میں لکھا تھا کہ سعودی عرب اتنی بڑی رقم صرف کر کے اپنی جنوبی سرحد کو محفوظ بنا کر مملکت کو القاعدہ، حوثی باغیوں، منشیات اور اسلحہ کے اسمگلروں سمیت انسانی اسمگلنگ کے بڑے ذرائع کو روکنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب کی سرحد پر باڑھ تعمیر کرنے کی مہم پر یمن نے احتجاج کیا تھا مگر سعودیہ نے اس کو مسترد کر دیا۔

تمام تر تنازع تب زور پکڑ گیا جب ایران نے شمالی یمن کے حوثی باغیوں کی بڑے پیمانے پر مدد شروع کر دی۔ ایک طرح سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار یمن میں لڑی جا رہی ہے مگر اب حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی بمباری کے جواب میں براہ راست سعودی عرب پر راکٹوں سے حملے شروع کر دیئے ہیں۔ اس کی وجہ سے خطّے میں کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ سمیت بعض مغربی طاقتوں کو تشویش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی مزید بڑھتی رہی تو پورا خطّہ بہ شمول شمالی افریقی ممالک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اور یہ صورت حال فی الفور امریکہ کے مفاد میں نہیں نظر آتی کیونکہ امریکہ کی زیادہ توجہ بحرالکاہل اور بحرِہند کے خطّوں پر مرکوز ہے اور جنوبی بحیرئہ چین میں امریکی اور چینی افواج کا بڑا اجتماع موجود ہے۔

اس خطّے کو سب سے نازک خطّہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایک طرف مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کی مسلک کی کشیدگی دُوسری طرف شمالی افریقہ سمیت بعض دیگر افریقی ممالک میں انتہاپسندی، دہشت گردی، سول وار اور شدید بدنظمی کی وجہ سے صورت حال بہت بگڑ سکتی ہے۔

یمن کی حکومت کا ایران پر الزام ہے کہ اس نے یمن کے بعض رہنمائوں، اعلیٰ عہدیداروں اور دیگر شخصیات کے ماہانہ وظیفہ باندھ رکھے ہیں اور یہ تمام شخصیات یمن کی حکومت کے خلاف باغیوں کو سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ دُوسرے لفظوں میں یمن کی حکومت کا استدلال ہے کہ ایران نے یمن کی حکومت مخالف قوتوں اور شخصیات کی حمایت کر کے یمن میں عدم استحکام پیدا کر رکھا ہے اور خطّے میں مسلک کی کشیدگی کوہوا دے رہا ہے جبکہ ایرانی حکومت اس طرح کے تمام الزامات سے انکار کرتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے سعودی عرب کو تشویش ہے جبکہ تشویش اسرائیل کو بھی ہے جس کا برملا اظہار بلکہ بار بار اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کرتے رہے ہیں۔

افسوسناک اور تشویشناک صورت حال یہ ہے کہ مسلم دُنیا جو پہلے ہی بڑے عصری مسائل، علاقائی معاملات اور سیاسی عدم استحکام سے نبرد آزما ہے وہاں فقہی اور مسلکی مسائل بھی تیزی سے سر اُٹھا رہے ہیں۔

یہ محض ایک اتفاق نہیں بلکہ ایک اہم ترین واقعہ اور خبر ہے جس پرغور کرنے کی ضرورت ہے،جو مشرق وسطیٰ اور اس کے گرد و نواح کے حالات سے جڑی ہے ، خبر پوپ فرانسس کے حالیہ دورئہ عراق کی ہے۔ پوپ فرانسس نے معروف شیعہ رہنما آیت اللہ السیستانی سے ملاقات کی اس کے علاوہ پوپ فرانسس نے تاریخی شہروں اربیل اور موصل کا بھی مختصر دورہ کیا۔

پوپ نے شیعہ عالم اور روحانی پیشوا سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین امن دوستی اور پُرامن بقائے باہمی کے اہم موضوعات پر گفتگو کی۔ یہ دو اہم روحانی رہنمائوں کا ایک دُوسرے کے مذاہب کو ماننے والوں کے لئے خیرسگالی کا دورہ تھا۔ اگر پوپ فرانسس کے اس دورہ کی ٹائمنگ پر غور کیا جائے تو صورت حال سمجھ میں آ جاتی ہے۔

دُنیا بھر میں پوپ فرانسس کے دورہ کو بڑی اہمیت کا حامل واقعہ تصوّر کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ پوپ فرانسس نے عراق میں وہاں کے سب سے بڑے شیعہ مسلک کے رہنما السیستانی ہی سے کیوں ملاقات کی۔ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے عراق، شام، لبنان اور پھریمن میں شیعہ مسلک سے وابستہ باشندے جو کہیں اکثریت میں اور کہیں اقلیت میں ہیں مسائل سے دوچار رہے ہیں اور اب بعض دھڑے جنگ و جدل پر اُتر آئے ہیں ایسے میں جو کشیدگی ایران اور سعودی عرب کے مابین بڑھتی جارہی ہے، وہ کوئی بہت بڑے سانحہ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

یہاں یہ اَمر بھی قابل غور ہے کہ پچاس سے زائد ممالک کی اسلامی تنظیم ان حساس معاملات میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ دُوسری ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ پوری اسلامی دُنیا میں کوئی ایسا قدآور رہنما نظر نہیں آتا جو مسلم دُنیا کے مسائل پر دو ٹوک رائے دے سکے اور تنازعات کو حل کرا سکے، جبکہ عیسائی مذہب کے سب سے بڑے فرقہ کیتھولک مسلک کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے 2013ء میں ارجنٹینا سے آ کر ویٹی کن میں اپنا اہم ترین منصب سنبھالا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے خطاب میں عیسائیوں کو مسلمانوں سے مل جل کر رہنے، تعصبات سے دُور رہنے، تنازعات کو پُرامن طور پر حل کرنے کی اپیل کی تھی۔ واضح رہے کہ امریکہ سمیت یورپ اور جہاں جہاں کیتھولک عیسائی موجود ہیں وہ پوپ کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور پوری دُنیا میں ان کی بات غور سے سُنی جاتی ہے۔

ہرچند کہ مسلم ممالک میں امکانی قوت بہت زیادہ ہے۔ اسلام دُنیا کا دُوسرا سب سے بڑا مذہب ہے اگر مسلم اُمّہ مسلک، رنگ، نسل اور زبان کے معاملات پر لچکدار رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے معاملات کو طے کر سکے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ یہ بات اب طے ہے کہ کوئی ملک طاقت کے ذریعہ کسی دُوسرے ملک پر قابض نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے عرب اور عجم کے قدامت پسند مفروضات پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یوں بھی رنگ، نسل، زبان کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی واضح ہدایات موجود ہیں۔

اس تمام تناظر میں اس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تہران اور ریاض کی پراکسی وار میں لگ بھگ تمام مسلم ممالک پریشان ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا بڑا حصہ انارکی، خانہ جنگی اور مذہبی انتہاپسندی کی آگ میں جھلس رہا ہے جبکہ زمین مسلمانوں کی، لڑائی بھی مسلمانوں کے بیچ، ہلاکتیں اور تباہیاں بھی مسلمانوں کی مگر مسلمانوں کے درمیان ایسے بھی عناصر موجود ہیں جو اپنی انتہاپسندی یا جو بھی وجہ رہی ایک دُوسرے کو مسلک کی بنیاد پر کافر قرار دے دیتےہیں۔

افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ یہ غیرمنطقی سلسلہ بتدریج دراز ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ فلاں فلاں وجہ سے کافر، فلاں فلاں وجہ سے کافر، مگر یہ عناصر اور ان کے ہم نوا یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم اپنی کج روی یا موہوم تصوّرات اور اَدھورے نظریات کی وجہ سے کسی بھی مسلمان پر کفر کا فتویٰ چسپاں تو کر دیتے ہیں مگر غیرمسلموں کی نظر میں تو وہ بھی مسلمان ہے۔ غیرمسلموں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کون شیعہ، کون وہابی، کون دیوبندی، کون سلفی اور کون بریلوی یا اہل حدیث، ان کی نظر میں سب ہی مسلمان ہیں۔ اس پر تمام مسلمانوں کو ٹھنڈے ذہن سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب کے لئے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جس علاقے میں تیل کے کنوئیں ہیں اس کے اطراف کی آبادیوں میں شیعہ مسلک سے وابستہ افراد کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے اور فطری طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ ہوں گی۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں سعودی عرب نے مسلم ممالک کی مشترکہ فوج بنانے کا معاہدہ کیا اس اتحاد میں ایک درجن کے قریب افریقی مسلم ممالک شامل ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ لگ بھگ سارے ہی ممالک نسلی، مذہبی، قبائلی اور سیاسی تنازعات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔

مغربی سفارت کاروں کے مابین جس معاملے پر تشویش پائی جا رہی ہے وہ براعظم افریقہ بالخصوص شمالی افریقی اور وسطی افریقی ممالک میں پائی جانے والی بدامنی، پُرتشدد واقعات، مذہبی اور گروہی انتہاپسندی ہے۔ ان تعصبات اور انتہاپسندی کی وجہ سے افریقی ممالک کے معاشرے شدید بے چینی اور اَبتری کا شکار ہیں۔ بیش تر افریقی ممالک کے بے روزگار نوجوان مختلف انتہاپسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ حال ہی میں نائیجیریا میں دہشت گرد تنظیم نے اسکول کی تین سو طالبات کو اغوا کر لیا۔ دہشت گردوں نے حکومت سے سودے بازی کے بعد ان طالبات کو رہا کیا جو ایک انتہائی تشویشناک واقعہ ہے۔ اس سے قبل سوڈان، ایتھوپیا، موزمبیق، کانگو اور سیرا لیون میں اغوا برائے تاوان، بم دھماکوں اور پُرتشدد واقعات کا یہ سلسلہ سامنے آتا رہا ہے۔

بوکو حرام، الشباب، الاعقصا گروپ، العشتار گروپ، حرکۃ الشباب، جماعت نصرت الاسلام اور القاعدہ گروپ سمیت داعش بھی اپنی تنظیم افریقی ممالک میں وسیع کر رہی ہے۔ یہ تمام مذہبی انتہا پسند تنظیموں اور ان کی معاون تنظیمیں اور دھڑے شمالی، مغربی ، مشرقی اور وسطی افریقی ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ بوکو حرام اور الشباب زیادہ طاقتور اور منظم دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ کی ریاستیں بالخصوص یمن جو افریقی ساحلوں کے قریب تر واقع ہے اور جبکہ وہاں خانہ جنگی اور بدامنی کی صورت حال تشویشناک ہے پورے خطّے کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے لیے جو اقدام اُٹھائے ہیں ان میں سعودی عرب کو یمن میں مداخلت اور بمباری روکنے، یمن میں امن قائم کرنے کے لئے متحارب دھڑوں کو مذاکرات کرنے، متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے اور ایران کو جوہری معاہدہ کے لئے مذاکرات کرنے پر زور دیا ہے۔

اسرائیل کی پالیسی سے امریکہ اور بیش تر یورپی ممالک بھی ناراض ہیں، مگر امریکی صدر جوبائیڈن کی پالیسیوں کو جو بیان کی گئی ہیں مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اپنی پالیسی پر عمل درآمد کے لئے کسی بھی حد سے گزرنے کے لئے تیار ہے۔ اس کے باوجود امریکی صدر جوبائیڈن مشرق وسطیٰ میں فی الفور جنگ نہیں چاہتے ہیں ان کی فوری ترجیحات میں دوسرے خطّے فی الحال اہم ہیں مگر مشرق وسطیٰ کے حالات بگڑ کر عالمی امن کے لئے خطرہ ثابت ہوں تو پھر امریکہ ضرور پوری طرح مداخلت کر سکتا ہے۔

تل ابیب یونیورسٹی کے موشے دایان تحقیقی مرکز کے محقق کہتے ہیں یمن کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ اس خطّے میں بہت سے قبائل آباد ہیں جو کبھی بھی مرکزی حکومت کے تابع نہیں رہے اور جنگ و جدل کے سلسلے چلتے رہے ہیں۔ شمالی یمن میں موجود زیدی شیعہ مسلک کے باشندے جو حوثی کہلاتے ہیں اپنے مسلک میں ایرانی شیعہ مسلک کے لوگوں سے بھی مختلف ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ بارہ امام کو مانتے ہیں۔

یمن میں ساری گڑبڑ اور سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کا ذمہ دار سابق صدر عبداللہ صالح ہے جوتین عشروں سے زائد عرصے تک آمرانہ اور جابرانہ طورپر حکومت پر قابض رہا۔ جب عوام نے شدید احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تب وہ اقتدار سے الگ ہوا مگر اپنے حمایتیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد بھی کرتا رہا ہے۔ سابق صدر عبداللہ صالح پر بدعنوانی، اقربا پروری، ناانصافی اور ناقص حکمرانی، سمیت مخالفین کو مارنے جیل میں ڈالنے کے بھی سنگین الزامات ہیں۔

سعودی عرب کا مؤقف یہ ہے کہ یمن میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کرنا، باغیوں سے مقبوضہ علاقے خالی کرانا، باغیوں سے ہتھیار ڈلوانا ہے، تا کہ یمن میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔ مگر مبصرین کہتے ہیں فائربندی بہت مشکل اور جنگ طویل بھی ہو سکتی ہے۔ 2015ء کے بعد سے سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادی یمن پر بمباری کر رہے ہیں۔

نتیجہ تاحال لاحاصل ہے۔ یمن جیسے غریب ملک کی صورت حال انتہائی مخدوش ہو چکی ہے۔ مبصرین کاکہنا ہے کہ سعودی عرب کی یمن میں مداخلت کا بنیادی مقصد حوثی باغیوں کا قلع قمع کرنا اور باب المندوب کی آبی گزرگاہ کو محفوظ بنانا ہے کیونکہ سعودی عرب کے تیل کا ستّر فیصد حصہ اس آبی گزرگاہ سے برآمد کیا جاتا ہے، مگر فی الحال یمن کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔

لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی