ناتواں ترقی اور قرضوں کے انبار ابھرتی ہوئی معیشتوں کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ

March 22, 2021

لندن: جوناتھن وہیٹلے

رواںبرس ابھرتی ہوئی معیشتوں کیلئےمالی اعانت کے بڑھتے ہوئے اخراجات، قرضوں کے انبار میں تیزی سے اضافہ اور ڈانواں ڈول نمو ایک زہریلا امتزاج بننے کا خطرہ ہے، جیسا کہ وہ وبائی مرض کورونا وائرس کے معاشی اثرات سے نکلنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔

او ای سی ڈی نے اس ہفتے عالمی معیشت کے بارے میں بہتری کی پیش گوئی کی ہے، تاہم اس بہتری سے زیادہ تر فائدہ ترقی یافتہ دنیا کوہوگا۔اس نے متنبہ کیا ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کاآئندہ سال کے آخر تک وبائی مرض سے قبل کی اپنی ترقی کی شرح سے 3 سے 4 فیصد نیچے رہنے کا امکان ہے۔

اس پیشن گوئی نے اس امید کو دھچکا پہنچایا ہے کہ مالیاتی طور پر کمزور اقوام ان عوامی اخراجات میں بڑے پیمانے پر توسیع سے باہر نکلنے کے قابل ہوجائیں گی جو انہوں نے گزشتہ برس کورونا وائرس کے حوالے سے نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشتوں اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو پہنچنے والے نقصان کی شدت کو کم کرنے کیلئے اقدامات کیے تھے۔

آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے ذریعے دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ وبائی مرض کے دوران وہ جتنا خرچ کرسکتے ہیں کریں اور قرضکی فکر بعد کے لئے رکھیں۔

بین الاقوامی مالیات کے ادارے کے مطابق گزشتہ سال کے آخر میں برازیل کا عوامی قرض ملکی مجموعی پیداوار کا 102 فیصد رہا، بھارت 89 فیصد اور جنوبی افریقہ 82 فیصد پرپہنچ گیا ہے۔

دریں اثناء،کردیا،سرکاری محصولات کی درجہ بندی کرنے والی ایجنسی فیچ کے مطابق امریکی و دیگر امیر ممالک کی جانب سے ان کے وباء کے ردعمل کے نتیجے میں کھربوں ڈالر عالمی مالیاتی منڈیوں میں داخل کیے گئے جس نے رواںبرس اعلیٰ درجے کی معیشتوں کیلئے عوامی قرض کی خدمات ملکی آمدنی کا اوسط 3.3 فیصد تک قرض لینے کے اخراجات کو کم کردیا، جو قرض میں بڑے اضافے اور محصولات کی آمدنی میںزبردست کمی کے باوجود 2019 میں3.1 سے معمولی سا اوپر ہے۔

تاہم اب ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سود کی شرحیں کافی زیادہ ہیں۔اس سال سود کی ادائیگی پر وہ آمدنی کا اوسطاََ 10.4 فیصد خرچ کریں گی جو 2019 میں 8فیصد سے زائد ہے۔

فچ کے مطابق نتیجے کے طور پر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں حکومتیں آئندہ سال شرح سود کی ادائیگی پر جتنی رقم خرچ کریں گی وہ ترقی یافتہ معیشتوں کے اخراجات تقریباََ ہر گروپ کیلئے 860 ارب ڈالر کے مساوی ہوں گے، اگرچہ ترقی یافتہ معیشتوں نے ابھرتی ہوئی معیشتوں سے تقریباََ تین گنا زیادہ قرض لیا ہے۔

فچ میں خودمختار درجہ بندی کے عالمی سربراہ جیمز میک کار نے کہا کہ ہم جو سارے بحث و مباحثے سنتے ہیں وہ یہ ہے کہ حکومتوں کو سود لینے اور خرچ کرنے کے لئے کم شرح سود سے فائدہ اٹھانا چاہئے، لیکن اگر آپ کے پاس نہیں ہے تو عوامی کھاتوں پر بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سب سے زیادہ غیرمستحکم وہ ممالک ہیں جن کے قرض پر سود کی اوسط شرح ان کی شرح نمو سے زیادہ ہے۔

سٹی میں ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معاشیات کے سربراہ ڈیوڈ لبین نے کہا کہ جنوبی افریقہ میں طویل المدتی حقیقی سود کی شرح 4 فیصد کے قریب ہے، جب معیشت کی ترقی کی ممکنہ شرح 1.5 فیصد کے قریب ہو تو یہ مضحکہ خیز حد تک زیادہ ہے۔لوگوں کو جن قرضوں کی فکر کرنی چاہئے وہ ممالک جن کے پاس قابل اعتماد نمو کا نمونہ نہیں ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس (آئی آئی ایف) کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ برازیل اور میکسیکو نے ایسے ہی مسائل کا سامنا کیا، جبکہ انڈونیشیا، ترکی اور بھارت زیادہ خطرے میں نہیں ہیں۔

اگرچہ گزشتہ سال بھارت کی قرض کی خدمات کے اخراجات نے ملکی آمدنی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ کھالیا، تاہم سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کی معیشت اتنی تیزی سے ترقی کرے گی کہ وہ روپے کو مستحکم رکھنے کے لئے کافی ہوگی بلکہ یہاں تک کہ ڈالر کے مقابلے میں بھی اس کی قدر میں اضافہ ہوگا۔آئی آئی ایف کے مطابق یہ طویل المدت پختگی پر بانڈ فروخت کرتا ہے، جس سے ری فنانسگ کے خطرے کو کم کیا جاتا ہے، اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے پاس ان کے ملکی قرض کا 2 فیصد سے بھی کم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی منڈیوں کو غیرمستحکم غیرملکی سرمائے کے اچانک اخراج سے خطرہ نہیں ہے۔

ڈیوڈ لبین نے کہا کہ بھارت کے پاس جوہے وہ نمو کی ساکھ ہے، ایک ایسی اپیل جس میں انڈونیشیا، ہنگری اور پولینڈ جیسے دیگر ممالک کے ساتھ اشتراک کیا گیا ہو۔اگر آپ کے پاس نمو کی ساکھ کا فقدان ہے، جیسا کہ برازیل، جنوبی افریقہ اور میکسیکو میں اس کی کمی پائی جاتی ہے تو پھر مارکیٹ آپ کو شک کا فائدہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ جو ان ممالک کو کم سے کم سرمائے سےان کے مالی اخراجات پرقابو رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔

مثال کے طور پر سینٹرل بینک کے مطابق برازیل اپنی ملکی مارکیٹ میں مختصر مدت پر پختگی بانڈز کی فروخت کررہا ہے،نئی حکومت کے قرضوں کی اوسط پختگی 2020 میں دو سال رہ گئی، جو 2019 میں پانچ سال سے زائد نیچے ہے۔مختصرالمدت بانڈز جاری کرنے میں کم خرچ ہوتے ہیں لیکن انہیں جلد از جلد ادا کرنا ہوتا ہےجو بحران میں ایک سخت مطالبہ ہے۔

بیشتر معاشی ماہرین مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے پیمانے کی وجہ سے جنوبی افریقہ کے قرض کے مسئلے کو حل کرنا سب سے مشکل قرار دیتے ہیں۔

ایک تحقیقاتی کمپنی انٹیلیکڈیکس کے پیٹر اٹارڈ مونٹالٹو نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی افریقہ کی حکومت کا مؤقف سیاسی طور پر غیر مستحکم اور مؤثر نہیں ہے، جنوبی افریقہ کو دو سال کے اندر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہی پڑے گا۔

سینٹرل بینک کے مطابق پری ٹوریا قرض کی پختگی طویل المدت ہے،جو اوسطاََ 13 برس سے زائد ہے، اور اس کی ملکی سرمائے کی منڈیاں دیگر بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی نسبت عمیق ہیں۔

تاہم اس کے بانڈز کی خریداری کے لئے غیرملکی سرمایہ کاروں کی آمادگی دباؤ کا شکا ر ہورہی ہے۔آئی آئی ایف کے مطابق ان کے پاس گزشتہ سال کے آخر میں اس کی مقامی کرنسی کا تقریباََ 30 فیصد قرضان کے پاس تھا، جو کہ 2017 اور 2019 کے درمیانی عرصے میں تقریباََ 40 فیصد تھا، سے کم ہے۔

ابھرتی ہوئی مارکیٹ کےقرض کے بحران کی کلاسیکل شکل کے خلاف ابھرتی ہوئی معیشتوں کی اپنی اپنی کرنسی میں قرض فروخت کرنے کی صلاحیت کو کم کرنے میںمدد ملتی ہے،جس میں ڈالر کی کمی غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں رکاوٹ ہے۔

ڈیوڈ لبن نے خبردار کیا کہ لیکن ان مقامی قرض کی منڈیوں کی لچک کو جانچنا ابھی باقی ہے، لہٰذا وہ بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کے خلاف زیادہ تحفظ ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹ میں ہمارے پاس ملکی قرضوں کے بحران کا کوئی تجربہ نہیں ہے، بیرونی مالی اعانت کے مسائل کا محرک بننے والی چیزوں کی نوعیت ملکی مالی اعانت کے مسائل کو متحرک کرنے کے عوامل کے طور پر بھی کردار ادا کرسکتی ہیں۔