مصروف انسان

April 04, 2021

یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے ۔لوگ سوال کرتے ہیں کہ خدا نے یہ آزمائش شروع کرنے سے قبل انسان سے تو پوچھا ہی نہیں کہ وہ اس کا حصہ بننا چاہتا ہے یا نہیں ۔ اس کا جواب قرآن میں لکھا ہے: ہم نے امانت پیش کی، آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھا لی ۔ بے شک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔ الاحزاب 72۔ انسان کی جو فطرت ہے کہ تجسس کی تسکین اور بہادر کہلانے کے لیے یہ آکسیجن نیچے زمین پہ چھوڑ کر اٹھائیس ہزار فٹ اونچے پہاڑ پہ چڑھ جاتا ہے تو عقل جیسی چمکتی چیز دیکھ کر صبر کی تاب وہ کہاں لا سکتا تھا۔ باقی تاریخ ہے۔

پہاڑ کیسے کلام کر سکتے ہیں ؟ دنیا کی ہر زندہ اور مردہ شے 92عناصر سے مل کر بنی ہے ۔ انسان کا 99.9 فیصد جسم ہائیڈروجن، کاربن، نائٹروجن، آکسیجن، کیلشیم اور فاسفورس سے بنا ہے ۔ انہی عناصر سے ستارے بنے ہیں ۔جس طرح انسان کے جسم کی ہائیڈروجن زندہ ہے، اسی طرح سورج کے اندر کی ہائیڈروجن بھی زند ہ ہے لیکن ہمارے اور اس کے درمیان ایک حجاب حائل ہے ۔ اس کائنات کی ہر شے ، ہر عنصر زندہ ہے۔

انسان انتہائی Ambitiousہے ۔ حدیث کے مطابق آپ اسے اگر ایک یا دو سونے کی وادیاں دے دیں تو وہ مزید وادیوں کی خواہش کرے گا۔بادشاہ دوسرے بادشاہ کی سلطنت کو اسی نظر سے دیکھتاہے، جیسے ایک بھوکا مزدور روٹی کو دیکھتاہے ۔ معمر قذافی ، شریف خاندان، بھٹو خاندان، آصف علی زرداری ، اسفند یار ولی خان، مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان آپ کسی سیاستدان کو دیکھ لیں ، وہ ہمیشہ باقی رہنے والا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ایک پاگل پن سب پہ طاری ہے۔ دوسری طرف وقت ہے کہ مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہا ہے ۔سب بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔تکالیف ہیں کہ ہر شخص کی زندگی میں اس کی اولاد، شریکِ حیات، رشتے دار ، کاروبار اور سیاست میں نقصان کی صورت میں اترتی چلی آرہی ہیں ۔ہر انسان بھرپور محنت کر رہا ہے ، بجز خدا کو یاد کرنے کے۔

انسان کا ایک بہت بڑا عذر یہ ہے کہ اسے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے شدید مشقت کرنا پڑتی ہے ۔ انسان اگر اپنی عقل سے اپنا رزق کما رہا ہے تو سترہ کروڑ سال تک کروڑوں ڈائناسارز کا پیٹ کون بھرتا رہا۔ سو فٹ لمبی نیلی وہیل آج بھی روزانہ چار کروڑ جھینگے کھا جاتی ہے ۔ قرآن میں لکھا ہے کہ زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو اور ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں مقیم ہوگا اور کہاں سونپا جائے گا۔ اس سیارے پر آج 87لاکھ قسم کی مخلوقات زندہ ہیں ۔ ان کا رزق زمین سے اگ رہا ہے ۔ زمین پہ ایک خاص قسم کی مٹی اور پانی ڈال کر اس میں ایسے جاندار یعنی پودے پیدا کیے گئے، جو فرار نہ ہو سکیں ۔ ان پودوں کو جلد اگنے کی صلاحیت دی گئی ۔ آپ یہ کہیں کہ میں بہت بڑا سائنسدان ہوں تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ زمین سے کچھ اگے گا تو تم کھائو گے۔ اللہ یہ کہتاہے کہ جو میری یاد سے منہ موڑتاہے ، میں دنیا وی کاموں کی کثرت اس پہ مسلط کر دیتاہوں ۔ وہ فرصت پاتا ہی نہیںاورسکون سے محروم ہی رہتاہے ۔ دراصل اللہ نے چونکہ خود پر حجاب طاری کر لیا اس لیے تمام مخلوقات کو ایسا لگتاہے ، جیسا کہ ہم اپنی شدید محنت سے کما رہے ہیں ؛حالانکہ اس محنت کی توفیق خدا ہی نے دی۔والدین کے دل میں اولاد کے لیے رحم نازل کیا۔ ایک چیز آپ کے مقدر میں نہ لکھی ہو تو آپ اپنی تمام تر دولت کے باوجود اسے کھا نہیں سکتے۔ کئی امیر والدین اولاد کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کھالو، وہ منہ بند کر کے بیٹھی ہوتی ہے۔

بہت سے لوگ بے روزگار تو ہیں لیکن ان میں کام کرنے کی خواہش بھی نہیں ۔ ایک مرگی کا مریض مرحوم ماہرِ نفسیات پروفیسر ملک حسین مبشر کے پاس آیا۔ پوچھا : کام کیا کرتے ہو ۔ کہنے لگا: صحت نصیب ہو تو کام کروں ۔ پروفیسر صاحب نے کہا: دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں ، جنہیں روز مرگی کا دورہ پڑتاہے اور وہ پھر بھی کام کرتے ہیں ۔دوا سے مرگی کے دورے رک گئے لیکن آج تک اسے کام کرتے نہیں دیکھا گیا۔ فاقوں کے شکار ایک لڑکے کو ڈرائیور اور ٹائپنگ کی نوکری پیش کی۔ کہنے لگا : یہ میری پسند کا کام نہیں۔بہتر نوکری کی تلاش میں وہ پیسے اکٹھے کر کے جنگ زدہ لیبیا کی طرف نکل گیا۔

زندگی میں جو مسائل ہمیں درپیش ہوتے ہیں، چاہے وہ صحت کے حوالے سے ہوں، روزگار کے حوالے سے، بیوی بچّوں کی طرف سے،

ایسی ہر صورتِ حال میں بھرپور جدوجہد کرنا آپ ہی کا کام ہے۔ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں ، جو چاروں ہاتھ پائوں سے محروم ہیں لیکن دنیا میں ایک مقام رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھی موجودہیں، جو معمولی مسائل پر ہی ہمت ہار جاتے ہیں۔

انسان بے شک یہ سمجھتا رہے کہ اپنی غیر معمولی مشقت سے وہ ارب پتی بنا ہے ، یہ خدا کی طرف سے زندگی کے نشیب و فراز ہیں ۔ عربوں پر جب دولت کا فتنہ آنا تھا تو ان کی زمینوں سے تیل نکل آیا۔ باقی تاریخ ہے ۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں ، جو کھرب پتی تھے اور آخر کسمپرسی میں مرے۔ زندگی کے یہ نشیب و فرا ز ، روزگار کی یہ جدوجہد ہرگز یہ معنی نہیں رکھتی کہ انسان خدا کی یاد سے مکمل طور پر منہ موڑ لے ۔وہ تو یہ کہتاہے کہ نہ کرومجھے یاد۔ میں تمہیں دنیا میں اتنا مصروف کر دوں گا کہ کام کبھی ختم ہی نہیں ہوں گے اور سکون سے تم محروم ہی رہو گے۔