حفاظتی ٹیکے بچوں کا بنیادی حق ہے

April 18, 2021

بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی

عکّاسی: اسرائیل انصاری

عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے ہر سال دُنیا بَھر میں اپریل کا آخری ہفتہ (23سے 30اپریل) ’’امیونائزیشن ویک‘‘ کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ اِمسال کا تھیم"Vaccines bring us closer" ہے۔ ورلڈ امیونائزیشن ویک منانے کا مقصد عوام النّاس میں ان کی افادیت و اہمیت بَھرپور انداز سے اُجاگر کرنے کے ساتھ معاشرے میں رائج غلط تصوّرات کی بیخ کنی بھی ہے۔ سو، اس حوالے سے ہم نے معروف ماہرِ امراضِ اطفال، پروفیسر ڈاکٹر سیّد اسد علی سے بات چیت کی، تاکہ حفاظتی ٹیکوں کے فوائد اور ان سے متعلق دیگر معلومات عام کی جا سکیں۔

پروفیسر ڈاکٹر سیّد اسد نے آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی سے2001ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی،اس کے بعد2006ء میں امریکن بورڈ آف پیڈیاٹرکس(جنرل پیڈیاٹرکس) اور2009ء میں امریکن بورڈ آف پیڈیاٹرکس( انفیکشس ڈیزیزز )کی اسناد لیں۔ جب کہ 2009ء میں پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا۔

اس وقت آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی کے ریسرچ میڈیکل کالج سے بطور ایسوسی ایٹ ڈین اور ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ سے بحیثیت پروفیسرمنسلک ہیں۔2017ء میں انہیں پاکستان کے ٹاپ ٹین ہیلتھ سائنٹسٹس میں شامل کیا گیا۔نیز،ان کے 100سے زائد تحقیقی مقالہ جات بھی شایع ہو چُکے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سیّد اسد علی سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

س: حفاظتی ٹیکے کیا ہیں، یہ مختلف امراض کے خلاف کیسے جنگ کرتے ہیں؟

ج:دُنیا بَھر میں انسانی جانیں بچانےمیں اینٹی بائیوٹکس اور ویکسینز نے اہم کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر بچّوں میں شرحِ اموات میں کمی کے ضمن میں ویکسینز کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔دراصل حفاظتی ٹیکے مختلف امراض کے خلاف ڈھال کا کام کرتے ہیں کہ ویکسی نیشن کے نتیجے میں نہ صرف بچّےجان لیوا بیماریوں اور عُمر بَھر کی معذوریوں سے بچ سکتے ہیں، بلکہ ان کی زندگیوں کو پُرسکون اور اطمینان بخش بھی بنایا جا سکتا ہے۔ رہی بات یہ کہ حفاظتی ٹیکے کیا ہیں، تو جس بیماری سے بچاؤمقصود ہو، اُسی کے کم زور یا مُردہ جراثیم سے ویکسین تیار کی جاتی ہے، تاکہ مرض کے حملہ آور ہونے کی صُورت میں جسم پہلے ہی سے دفاع کے لیے ٹرینڈ ہو چُکا ہو۔

س:امیونائزیشن مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے، ان پر کچھ روشنی ڈالیں، نیز سب سے عام طریقۂ کار کون سا ہے؟

ج:امیونائزیشن کے طریقوں میں اورل(مُنہ کے ذریعے دی جانے والی ڈوزز)اور انجیکشنز شامل ہیں۔ زیادہ تر ویکسینز انجیکشن کی صُورت دستیاب ہیں اور یہی سب سے عام طریقۂ کار ہے۔

س:عام افراد کے سمجھنے کے لیے ان کے شیڈول کے حوالے سے بھی بتائیں؟

ج:ای پی آئی کے تحت حفاظتی ٹیکوں کا جو شیڈول ترتیب دیا گیا ہے، اُس میں پیدایش کے فوری بعد تپِ دق سے بچائو کے لیے بی سی جی کی ویکسین لگائی جاتی ہے اور ساتھ ہی پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ چھٹے، دسویں اور چودھویں ہفتے میں اوپی وی (Oral Polio Vaccine)، نیوموکوکل (Pneumococcal)، روٹا وائرس اور پینٹا ویلنٹ (Pentavalent) کی ویکسین دی جاتی ہے۔

نو ماہ کی عُمر میں خسرے کا پہلا اور 15ماہ میں دوسرا انجیکشن لگایا جاتا ہے۔دو برس کی عُمر میں ٹائی فائیڈ سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جاتی ہے۔سرکاری سطح پر یہ ویکسینز مفت لگائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ بچّوں کو کئی اضافی ویکسینز بھی دی جاتی ہیں، جو صرف نجی اسپتالوں ہی میں دستیاب ہیں۔ تاہم، بچّے کے لیے ای پی آئی شیڈول میں شامل ویکسینز ہی ناگزیر ہیں۔

س:گزشتہ برس کورونا وائرس کی وجہ سے دُنیا بَھر میں عمومی ویکسی نیشنزکا عمل خاصا متاثر ہوا، تو اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج:جی بالکل،کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں بھی ویکسی نیشن کا عمل خاصا متاثر ہوا ہے،جس کی مختلف وجوہ ہیں۔جیسے لاک ڈاؤن کے دوران کبھی والدین اپنے بچّوں کو ویکسین لگوانے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلے، تو کبھی اسپتال میں متعلقہ عملہ موجود نہیں تھا۔

عالمی سطح پرہر مُلک کے لیے بچّوں میں ویکسی نیشن کی شرح95فی صد مقرر کی گئی ہے، مگر افسوس کہ پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے یہاں ویسے ہی امیونائزیشن کی شرح کم ہوگئی تھی، تو اب کورونا وائرس کی وجہ سے یہ شرح50سے 60فی صد تک محدودرہ گئی ہے، جب کہ دُور دراز کے علاقوں کی صُورتِ حال اس سے بھی ابتر ہے،لہٰذا ہمیں مل بیٹھ کر فوری طور پر کچھ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ۔

س:یونیسیف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں لاک ڈاؤن کے باعث معمول کے حفاظتی ٹیکوں کی مہمات میں تعطّل کے نتیجے میں لاکھوں بچّوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، تو اس ضمن میں پاکستان میںکیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

ج:کورونا وائرس کی وجہ سے حفاظتی ٹیکوں کی مہمات میں تعطّل آیا ہے۔تاہم، اب جب کہ ہیلتھ کئیر ورکرز کورونا وائرس کی ویکسی نیشن کے بعد امیون ہوچُکے، تو گھر گھر ویکسین لگانے کا عمل بھی جاری ہے اور اسپتالوں اور حفاظتی ٹیکہ جات کے مراکز میں عملہ بھی موجود ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ جو بچّے رہ گئے ہیں،کسی بھی طرح ان کی بھی ویکسی نیشن ہوجائے۔

س:حفاظتی ٹیکوں سے ہر سال لاکھوں بچّوں کی جانیں بچائی جاتی ہیں اور امیونائزیشن کو دُنیا بھر میں صحت کا ایک کام یاب پروگرام قرار دیا گیا ہے، اس کے باوجود آج بھی تقریباً دو کروڑ بچّے ویکسی نیشن سے محروم ہیں، تو ان کے لیے کوئی حکمتِ عملی تیار کی جارہی ہے؟

ج:حفاظتی ٹیکہ جات ہی کے ذریعے ہم بچّوں میں شرحِ اموات پر قابو پاسکتے ہیں اور اسی کے پیشِ نظر عالمی ادارۂ صحت کی جانب سےدُنیا بَھر میں حفاظتی ٹیکے لگوانے کے دو طریقے وضع کیے گئے ہیں۔ ایک روٹین امیونائزیشن (یعنی سینٹر میں جاکر لگوانا) اور دوسرا طریقہ بذریعہ مہم (گھر آکر ویکسی نیشن کرنا) ہے۔

حفاظتی ٹیکہ جات کی مہم اس لیے بھی زیادہ مفید ہے کہ جن بچّوں کی کسی بھی وجہ سے ویکسی نیشن نہیں ہو پاتی، اُنہیں گھر بیٹھے یہ سہولت مل جاتی ہے۔ اورسب سے بڑھ کر کسی بھی وَبا پر جلد قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔

جیسے 2019ء میں جب سندھ میں ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ وَبا پھوٹی، توویکسی نیشن مہم ہی کے ذریعے بڑھتے کیسز میں کمی لائی گئی،لہٰذا ترجیحی بنیادوں پر ہمیں اُن تمام عوارض کی ویکسی نیشن کے لیے،جو بچّوں میں موت کا باعث بنتے ہیں، باقاعدہ طور پر ایک مربوط مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔

نیز، ہر دو سال بعد خسرے کی وَبا پھوٹتی ہے، تو اس حوالے سے بھی مؤثر حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی کہ اِمسال یہ وَبا پُھوٹنے کے امکانات خاصے بُلند ہیں، خاص طور پر اندرونِ سندھ سے تو کیسز رپورٹ بھی ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

س: "Vaccines bring us closer" سالِ رواں کے عالمی ویک کا تھیم ہے، تو اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟

ج:اصل میں ویکسینز امیر، غریب کا (یعنی طبقاتی) فرق مٹا دیتی ہیں۔وہ اس طرح کہ اگر کوئی وَبا شدّت سےپھوٹ پڑے، تو ظاہر سی بات ہے کہ پس ماندہ ہی نہیں، ترقّی یافتہ مُمالک بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے اور ایسی صُورت میں امیر، غریب مُمالک کی تفریق کیے بغیر مساوی طور پر ہر مُلک کے باشندوں کو ویکسین لگائی جائے گی۔ کورونا وائرس ویکسین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ایک منظّم نظام کے تحت دُنیا بَھر میں ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے۔

س:کون سے ایسے امراض ہیں ،جن کا ویکسی نیشن کے ذریعے خاتمہ یا شرح میں بہت حد تک کمی ممکن ہے؟

ج:مجموعی طور پر دُنیا بَھر میں جتنی بھی بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگائے جارہے ہیں، اُن کا شرحِ تناسب بتدریج کم ہورہا ہے۔س کی واضح مثال چیچک، طاعون کا خاتمہ ہے، جب کہ دُنیا بَھر سے، علاوہ دو مُمالک کے، جن میں افغانستان اور پاکستان شامل ہیں، پولیو کا بھی قلع قلمع ہوچُکا ہے۔ ہمارے یہاں پولیو کے خاتمے کی راہ میں کئی عوامل رکاوٹ بن رہے ہیں، تو حکومت کو اس ضمن میں بھی مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

س:عموماً حفاظتی ٹیکوں کے ضمنی اثرات معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں،کیا کسی کیس میں اثرات شدید بھی ہوسکتے ہیں؟اور یہ شدّت کس طرح کی ہوسکتی ہے؟

ج:ہر دوا کے کچھ نہ کچھ سائیڈ ایفیکٹس تو ہوتے ہی ہیں، لیکن اگر حفاظتی ٹیکوں کے ضمنی اثرات کی بات کریں، تو وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔اب تک ان ٹیکوں کی کام یابی کا تناسب 99.99 فی صد ہے۔ہاں، ایک سو ملین کیسز میں سے کوئی ایک کیس شدید مضر اثرات کا بھی رپورٹ ہوسکتا ہے۔

س:کورونا ویکسین کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں، خصوصاً چین کی تیارکردہ ویکسینز سے متعلق، کیا ابھی ان کے ضمنی اثرات سے متعلق کوئی حتمی بات کہی جاسکتی ہے؟

ج:ہمارے مُلک میں کورونا وائرس کی ویکسینز مرحلہ وار آرہی ہیں،جو خاصی مؤثر ہیں۔یہ ویکسین ضرور لگوائیں، تاکہ وائرس کے اٹیک کی صُورت میں پیچیدگیوں سے محفوظ رہا جاسکے۔ رہی بات ان کے سائیڈ ایفیکٹس کی تو ہمارے یہاں ایک منظّم نظام کے تحت ویکسین کے مضراثرات کی مانٹیرنگ کی جارہی ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ بھی پیش کی جاتی ہے اور الحمدللہ اب تک کا ڈیٹا حوصلہ افزا ہے۔

س:حکومت کا ویکسی نیشن پروگرام کس حد تک مؤثر ہے، کیا ہم اپنے اہداف حاصل کر پا رہے ہیں؟

ج:اگرچہ کورونا وائرس سے پہلے ہم بہتری کی طرف جارہے تھے، مگر اب صُورتِ حال مایوس کُن ہے کہ ہم نے جس قدر کام کرنا تھا، وہ نہیں کیا ۔ رہی بات اہداف کی تو ابھی ہماری منزل بہت دُور ہے۔ اس ضمن میںحکومت اور والدین کو مل جل کر کوشش کرنی ہوںگی ،تاکہ ہم اپنے اہداف حاصل کرسکیں۔

س:حفاظتی ٹیکے اگر بچّوں کو مقررہ عُمر میں نہ لگ سکیں یا پھر ان کا کورس ادھورا رہ جائے، تو ایسی صورتِ حال میں والدین کو کیا کرنا چاہیے؟

ج:فوری طور پراپنے معالج سے رابطہ کریں ، تاکہ جو کیچ اپ ویکسین ہیں،یعنی جو لگ نہیں سکیں،وہ شیڈول میں ردّوبدل کرکے لگوائی جاسکیں۔

س:پولیو کے حفاظتی قطروں سے متعلق اب بھی بہت منفی پروپیگنڈا ہورہا ہے،حقائق کیا ہیں؟

ج:اگرچہ ماضی کی نسبت خاصی بہتری آئی ، مگرپھر بھی پولیو کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔ پولیو کے حفاظتی قطروں سے متعلق شروع ہی سے منفی پروپیگنڈا کیاجارہا ہے، جس کا حقیقت سے دَور پرے کا بھی تعلق نہیں،لہٰذا کسی کی باتوں میں آکر خدارا! اپنے بچّوں کو اپنے ہاتھوں معذور نہ کریں۔ یہ قطرے قطعاً مضر نہیں۔

س:ہمارے یہاں حکومت سے منظور شدہ جس ویکسی نیشن پروگرام پر عمل درآمد ہورہا ہے، کیا عالمی پیمانہ بھی یہی ہے یا اس میں کچھ مزید امراض، خصوصا کورونا وائرس کی ویکسی نیشن کا اضافہ ناگزیر ہے؟

ج:حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام انتہائی مفید ہے،جس سے بیماریوں اور شرحِ اموات کے تناسب کو یقینی طور پر کم کیا جاسکتا ہے۔تاہم،اس شیڈول میں مزید ویکسنز کا اضافہ بھی ضروری ہے۔رہی بات کورونا وائرس ویکسین کی تو یہ فی الحال بچّوں کو نہیں لگائی جارہی ہے کہ ان میں اس وائرس سے متاثر ہونے کی شرح کم ہے۔

س:ویکسی نیشنز کے لیے آپ کیا تجویز کریںگے، سرکاری اسپتال بہتر ہیں یا نجی طور پر لگوانا مؤثر رہتا ہے؟

ج:مَیں تو یہی کہوں گا کہ سرکاری اسپتال ہی کو ترجیح دی جائے،کیوں کہ جو سہولتیں ہمیں سرکاری طور پر دستیاب ہیں، ان سے ضرور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔گرچہ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں دستیاب ویکسینز میں کچھ خاص فرق نہیں ،بلکہ سرکاری اسپتالوں میں دستیاب ویکسینز کی تو کولڈ چین کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ نجی اسپتالوں کی ویکسین مؤثر نہیں۔ البتہ جو اضافی ویکسینز، ای پی آئی شیڈول میں شامل نہیں ہیں،اگر ممکن ہو،جیب اجازت دے، تو اپنے بچّے کی یہ اضافی ویکسی نیشنز بھی ضرور کروائیں۔

س:عالمی یوم کی مناسبت سےکوئی پیغام دینا چاہیںگے؟

ج:حفاظتی ٹیکے آپ کے بچّوں کا حق ہیں، انہیں اس سے محروم نہ رکھیں۔ والدین میں بچّوں کی ویکسی نیشن سے متعلق شعور اُجاگر کرنے کے ساتھ ہمیں بچّوں میں غذائی قلّت کے مسئلے پربھی توجّہ دینا ہوگی،کیوں کہ اگر غذائی قلّت کا شکار بچّہ خسرے میں مبتلا ہوجائے، تو عام بچّے کی نسبت اس میں ہلاکت کے امکانات 5گنا بڑھ جاتے ہیں اور یہ مسئلہ چھوٹے پس ماندہ شہروں کا نہیں، بڑے شہروں کا بھی ہے۔ جیسے کراچی میں غذائی قلّت کی شرح40فی صد ہے۔ مَیں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ والدین اپنے معصوم بچّوں کو ان جان لیوا بیماریوں سے بچانے کے لیے ذمّے داری کا مظاہرہ کریں،تاکہ وہ اپنے بچّوں کو ایک محفوظ مستقبل دے سکیں۔