برطانیہ کی یونیورسٹی آف واروک اور کوونٹری اینڈ واروکشائر این ایچ ایس ٹرسٹ کے ماہرین نے ایک نیا ٹیسٹ تیار کیا ہے جو ایسی خواتین کی شناخت کر سکتا ہے جنہیں اسقاطِ حمل (miscarriage) کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اس دریافت سے ہزاروں خواتین کو ماں بننے کی راہ میں درپیش مشکلات سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
تحقیق کا نیا رُخ: اب توجہ صرف بچے پر نہیں، بلکہ ماں کے جسم پر بھی،اب تک اسقاطِ حمل کے اسباب میں زیادہ تر توجہ بچے (ایمبریو) کی صحت پر دی جاتی رہی ہے، مگر نئی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بعض خواتین میں رحم کی دیوار (womb lining) خود حمل سے پہلے ہی ایسی کیفیت اختیار کر لیتی ہے جو حمل کے لیے موزوں نہیں ہوتی۔
1,300 سے زائد خواتین پر تحقیق:تحقیقات میں 1,500 سے زائد نمونوں (biopsies) کا تجزیہ کیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ ایک قدرتی حیاتیاتی عمل، جسے ’ڈیسیجویل ردِعمل‘ (decidual reaction) کہا جاتا ہے، بعض خواتین میں مکمل طور پر فعال نہیں ہوتا۔ یہ وہ عمل ہے جو رحم کو حمل کے لیے تیار کرتا ہے۔ جب یہ عمل کمزور ہو، تو حمل قائم تو ہو جاتا ہے، مگر اس کے ختم ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
یہ مسئلہ محض اتفاق نہیں، بلکہ مستقل ہوتا ہے:ماہرین کا کہنا ہے کہ رحم کی یہ خرابی بعض خواتین میں ہر ماہانہ چکر (menstrual cycle) میں بار بار دہرائی جاتی ہے یعنی یہ مسئلہ مستقل نوعیت کا ہوتا ہے، نہ کہ اتفاقیہ۔
نیا ٹیسٹ، اُمید کی ایک نئی کرن: ماہرین نے اس تحقیق کی بنیاد پر ایک نیا تشخیصی ٹیسٹ تیار کیا ہے جو رحم کی صحت کا تجزیہ کرتا ہے۔ یہ ٹیسٹ پہلے ہی کوونٹری، انگلینڈ میں ہزار سے زائد خواتین پر آزمایا جا چکا ہے۔
ماہرین کی رائے: ڈاکٹر جویان موٹر، تحقیق کی مرکزی مصنفہ:۔یہ ٹیسٹ اُن اسقاطِ حمل کو روکنے میں مدد دے سکتا ہے جو روکے جا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر جیوتسنا ووہرا، ٹامی چیریٹی کی تحقیقاتی ڈائریکٹر: بار بار اسقاطِ حمل سے گزرنے والی خواتین کو اکثر کوئی جواب نہیں ملتا۔ یہ ٹیسٹ صرف جواب ہی نہیں، بلکہ علاج کا راستہ بھی مہیا کرتا ہے۔