خراج سے محروم۔ عورت کی خدمات

April 21, 2021

مرد کو اس کے مضبوط جسمانی و اعصابی نظام، بھرپور معاشی و معاشرتی کردار اور ساخت کی وجہ سے عورت سے برتر سمجھا جاتا تھا۔ کائنات کی ابتداء سے ہی مرد اپنی جسمانی صلاحیتوں اور طاقتِ بازو کی وجہ سے عورت پر فوقیت کا حامل تھا۔ مرد محنت مشقت اور خدمات کے ذریعے معاوضہ پا کر معاش کا ذمہ دار ٹھہرا، یہی اس کی فضیلت بن گئی جبکہ عورت امورِ خانہ داری سمیت دیگر اہم امور کی انجام دہی رضاکارانہ کسی مادی لالچ کے بغیر سرانجام دیتی آئی۔ ہیوی مشینری کا استعمال، کھیتی باڑی کی مشقت، بھاری سامان کی نقل و حرکت، جنگیں لڑنا، جہاز اڑانا، گاڑی چلانا اور پُرخطر کاموں کو سرانجام دینا صرف مرد سے منسوب سمجھا جاتا تھا۔ آج ٹیکنالوجی، مشینری اور عقل کے استعمال نے طاقت کی اہمیت کو منہا کر دیا ہے، آج وہی مشکل ترین افعال عورت بھی انجام دے رہی ہے جن کی انجام دہی کے بارے میں عورت سے توقع کرنا حماقت سمجھا جاتا تھا۔ فی زمانہ عورت کو اس کی صلاحیتوں خدمات اور اہمیت کے حوالے سے کسی حد تک تسلیم توکیا جانے لگا ہے پھر بھی۔ ہنوز دہلی دور است۔

عورت ہر دور اور معاشرے میں اپنی حقیقی حیثیت کے مطابق مقام پانے میں ناکام رہی ہے۔ مرد کی نسبت عورت کو اس کے مقام، جذبۂ قربانی اور خدمات کے مطابق تسلیم نہیں کیا جا سکا۔ زیادہ تر خواتین امورِ خانہ داری یا بچوں کی افزائش میں مصروف ہو کر کسی معاشی یا معاشرتی سرگرمی میں شاملِ نہیں ہو پاتیں شاید اسی وجہ سے ان کی قدر و منزلت ان کی کنٹری بیوشن کے مطابق نہیں ہو پاتی۔ ترقی یافتہ ممالک تک میں عورت کو اس کے کردار کے مطابق نہ تو مقام ملا ہے نہ توجہ نہ احترام۔ عورت بنیادی طور پر انتہائی جذباتی ہوتی ہے یہی جذبات کا غلبہ عورت کو حقیقی مقام و مرتبہ اوراس کے ٹارگٹ سے دور لے جاتا ہے۔ ہر معاملے میں جذباتیت اس کی سوچ اور کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

صرف مختلف شعبوں میں نمایاں اور نامور ہونے والی خواتین خود کو منوا نے میں کامیاب ہو پاتی ہیں ورنہ مکان کو گھر بنانے ، خاندان کی تشکیل ، اولاد کی تربیت ،اس کی منزل اور اُڑان کا تعین کرنے والی ،کامیاب مردوں کی پشتیبان عورت گوشۂ گمنامی میں رہ کر خراج پانے سے محروم رہ جاتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان پڑھ، روایتی تعلیم و تربیت سے عاری جدید علوم و فنون سے نا واقف عورت بھی بہترین منیجر ، معاملہ شناس ،بجٹ ساز، دو راندیش، اپنی اولاد کے بہترین مستقبل کی بہترین منصوبہ سازاور بہترین نسل کی تعمیر کے گُر سے واقف ہوتی ہے۔ نپولین نے کہا تھا ’’مجھے بہترین مائیں دے دو ، میں تمہیں بہترین معاشرہ دوں گا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ انتہائی حساس اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ جب بھی بحیثیت مجموعی عورت کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو عورت کو بیوی کے رویے ،برتائو اور فہم کے تناظر میںدیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ لیکن عمومی تاثر سے ہٹ کر دیکھا جائے تو عورت انتہائی حساس وفادار ایثار پسند اور جفاکش واقع ہوئی ہے۔کسی گھر کو جنت بنانے ، مرد کی انتہائی مشکل اور نا مساعد حالات میں ہمت بندھانے ،افرادِ خانہ کی ضروریات کا خیال رکھنے ،مرد کی کمائی کے بہترین مصارف کا تعین کرنے ، اس کی کمائی کو پس انداز کرنے،بچوں کو جنم دینے جیسے انتہائی تکلیف دہ مراحل کا سامنا کرنے اور پھر نوزائیدہ بچوں کی پرورش کرنے جیسے مشکل ترین افعال ذہنی طور پر متوازن عورت ہی نبھاسکتی ہے۔

میر ی ماں جی زیتون بیگم بھی ایسی ہی تھیں ۔ جب میرے والد رفیع بٹ 1948میںصرف 39سال کی عمر میں فضائی حادثے کا شکار ہوئے اُس وقت میری عمر محض دو ماہ تھی۔ ہم دو بہن بھائی تھے۔ میری والدہ نے جو اُس وقت جوان تھیں خاندان بھر کے اصرار کے باوجود صرف ہماری وجہ سے دوسری شادی کرنے سے انکار کر دیا ۔ مجھے یاد ہے کہ وہ عجیب عدم تحفظ کا شکار تھیں مجھے گھر سے باہر جا کر کھیلنے کی اجازت نہ تھی۔ میں سکول جاتا تو والدہ یا خالہ کلاس کے باہر چھٹی تک موجود رہتیں ۔ میری والدہ ،جو مجھے ایک پل کے لیے خود سے دور نہیں کرنا چاہتی تھیں،نے میری بہتر تربیت کی غرض سے مجھے لارنس کالج گھوڑا گلی کے بورڈنگ سکول میں داخل کروانے کا سخت فیصلہ لیا۔ انہوں نے مجھے یتیمی کے احساس سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیشہ یہ باور کروایا کہ میرے والد بہت بڑے بزنس مین ہیں جو کاروبار کے سلسلے میں امریکہ میں مقیم ہیں۔ 11سال کی عمر میں مجھ پر یہ راز آشکار ہوا کہ میرے والد تو بہت سال پہلے شہید ہو چکے ہیں۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا وہ مجھے رفیع بٹ کی شخصیت، خدمات، کامیابیوں، تعلقات ان کے قوم کے لیے احساسات اور ان کا طرزِ عمل بتا کر غیر محسوس طریقے سے میری ذہنی آبیاری کرتی رہیں۔ انہوں نے کبھی مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ رفیع بٹ بہت پیسے والے آدمی تھے وہ ہمیشہ کہتیں رفیع بٹ بہت بڑے،حساس دل اور عزت دار آدمی تھے، قائدِ اعظم اور بڑے بڑے سیاستدان، افسران، بزنس مین شاعر لکھاری اور صحافی اُن کے حلقۂ احباب میں شامل تھے، وہ خود کہتیں کہ سات سالہ شادی شدہ زندگی میں،میں نے رفیع بٹ سے بہت کچھ سیکھا۔ میں جو اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح سوچ نہ رکھتا تھا ان کی باتوں کو سنی ان سنی کر دیتا لیکن آج سوچتا ہوں کہ میری ماں نے میرے ذہن میں بڑائی کا ایک معیار راسخ نہ کیا ہوتا تو شاید آج میں بھی کہیں عامیانہ سی سوچ کے ساتھ عام سی زندگی گزار رہاہوتا ۔میری ماں جس نے میرے والد کے ہوتے ہوئے یا بعد میں کوئی حیران کن معاشی سماجی یا سیاسی کارنامہ سرانجام نہیں دیا اس حوالے سے قابلِ فخر ضرور تھیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے معیارات کو انتہائی بلند کرنے اس کی سوچ کو وسعت آشنا کرنے اور اس کے ٹارگٹس کو انتہائی بلند کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔یہ ماں کی تربیت ہی تھی جس نے مجھے میرے والد اور قائدِ اعظم کے عشق میں مبتلا ،اور مجھ میںوطن پرستی کو اجاگر کیا، مجھے پاکستانیت اور انسانیت سے بھر دیا ۔آج میں جب سوچتا ہوں تو مجھے اپنی کامیابیوںکے پیچھے بہت سے خیر خواہوں کی دعائوں کے ساتھ ماں کھڑی مسکراتی نظر آتی ہیں وہ ماں جو ہائوس وائف ہونے کے باوجود ایک غیر معمولی عورت تھیں۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)