مریم نواز شریف: نئی توانا قیادت

April 21, 2021

کسی بھی ملک کی ترقی میں اور سیاسی استحکام کیلئے پانچ اسٹیک ہولڈرز اسٹیبلشمنٹ، حکومت، عدلیہ، سیاسی اسکول اور رائے عامہ بہت ہی اہم ہوتے ہیں۔ اِنہی اسٹیک ہولڈرز کے کلیدی کردار کی وجہ سے ریاستیں یا تو ترقی کے سب سے اونچے زینے پر براجمان ہو جاتی ہیں یا پھر تنزلی کے نچلے ترین پائیدان پر جا گرتی ہیں۔ وطن عزیز کے دو اسٹیک ہولڈرز نے ایک پیج پر اکٹھے ہوکر خوب فائدہ اُٹھایا جس کے باعث سیاسی اسکول بطور خاص حزب اختلاف مکمل طور پر دیوار کے ساتھ لگ چکا ہے۔ نئے ڈاکٹرائن کے مطابق انصاف کا مطلب صرف اور صرف حزبِ اختلاف کو مختلف مقدمات میں ملوث کرکے جیلوں میں بند کرنا اور عدالتوں کے چکر لگوانا ہے، جس طرح سے عدالتوں سے نیب کے مقدمات سے حزب اختلاف کے رہنمائوں کی ضمانتیں ہورہی ہیں، اس سے انصاف اور بلاامتیاز احتساب کا نعرہ کھوکھلا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

ہر سو پی ڈی ایم ٹوٹ گئی، پی ڈی ایم ٹوٹ گئی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں، نام نہاد کامیابی کا ابلاغ پسندیدہ اور لاڈلے میڈیا ہائوسز کے ذریعے دن رات کیا جا رہا ہے، کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹنے کی بڑی ذمہ داری ن لیگ اور مولانا کے گٹھ جوڑ پر عائد ہوتی ہے، پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرتی رہی ہیں، اے این پی کی پی ڈی ایم اتحاد سے باضابطہ علیحدگی کے بعد بلاول ہائوس کی جانب سے بھی خدا حافظ تو نہیں البتہ لڑائی اپنی اپنی کا نعرہ لگا کر علیحدگی کا بگل بجانا رہ گیا ہے، کچھ نادان پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کا الزام مریم نواز کے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کو قرار دے رہے ہیں، ان کو پتہ ہی نہیں کہ مریم نواز کا طرز سیاست سولو فلائٹ لینا نہیں ہے بلکہ مریم نواز شریف کی شکل میں نئی توانا، زیرک اور کرائوڈ پلر قیادت منظر عام پر آچکی ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ تو حکومت کو ہی جاتا ہے جس نے بے بنیاد کیسوں میں مریم نواز شریف کو ملوث کیا اور انکی مکمل سیاسی تربیت کردی۔ یہ وہی حلقے ہیں جنہوں نے ایک بار کہا کہ ایک طاقتور شخصیت کو بار بار منتخب کریں گے، ہوا کیا؟ سب جانتے ہیں کہ عوامی غیظ و غضب کے ڈر سے اس طاقتور شخصیت کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔

مسلم لیگ سے شین لیگ اور پھر میم لیگ نکالنے کیلئے گزشتہ تین برسوں میں جس طرح سے طاقت اور حربے استعمال کئے گئے وہ بالکل ہی بودے نکلے، اس مقصد کیلئے روا رکھی گئی کوششیں ماورائے عقل ثابت ہوئی ہیں، مسلم لیگ سے شین اور میم تو نہیں برآمد ہوئے البتہ انصاف کے بطن سے دوسری بار جہانگیر ترین گروپ بپھر کر سامنے آگیا ہے، اکبر ایس بابر سے تو حکومت ابھی تک نمٹ نہ پائی تھی کہ جس نے فارن فنڈنگ کیس کی تلوار تحریک انصاف کی گردن پر تان رکھی ہے، جلد یا بدیر اس کیس میں انصافی شفافیت کا دھڑن تختہ ہو ہی جائیگا ہے۔ وہ تو شکر منائیں سپریم کورٹ کا کہ جس نے بلدیاتی ادارےبحال کردیے ہیں ورنہ اگر عدالت دوبارہ انتخاب کا کہہ دیتی اور واقعی چند ماہ بعد بلدیاتی انتخابات کروانے کی نوبت آجاتی تو انصافیوں نے تبدیلی کے نعروں کا جنازہ اپنے دورِ اقتدار میں دیکھ لینا تھا، ڈسکہ کے انتخاب میں دوبارہ شکست کے بعد حکومتی حلقوں میں غزل کا ریکارڈ ’’آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی‘‘ اونچے سروں میں بجنا شروع ہو گیا ہے، آخر میں ایک مست انصافی کا خواب پیش خدمت ہے، پڑھیے اور سر دھنیے۔ عوام کیلئے ایک کورونا پیکج اتنی خوشخبریاں لایا ہے کہ بیان کرنا ناممکن ہے، عوام اتنے نہال ہیں کہ ہر ماہ بجلی، گیس سمیت تمام یوٹیلٹی بلز کا بھتہ بالرضا ادا کررہے ہیں، عوام عمران خان کا فرمان دل و جان سے مان چکے ہیں کہ واقعی ابھی پاکستان کا حال وینیز ویلا جیسا نہیں ہوا ہے، پاکستان میں خاندانی نظام تو پہلے سے اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کو بھی واپس بلارہے ہیں کہ یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی تمام وعدے پورے کردیے، مغربی طاقتیں اب پاکستانی طرز حکومت اور طرز سیاست کو اپنے نصاب میں شامل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں اور مغربی سیاستدان رشک سے پاکستانی چنتخب جمہوریت کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ہیں، عوام بہت خوش ہیں کہ ملک کے دو سربراہان کے طیاروں پر 33کروڑ رپے لگیں گے، وہ تو بالکل بھول گئے ہیں اسی حکومت نے 33لاکھ کی بھینسیں بیچنے کا ڈرامہ بڑی دھوم دھام سے اسٹیج کیا تھا۔