پاکستان سے کاٹن کی ایکسپورٹ پر مکمل پابندی عائد کی جائے

April 21, 2021

پاکستان میں اس وقت معاشی گروتھ تنزلی کا شکار ہے،۔ اس وقت ٹیکسٹائل سیکٹر ہی واحد سیکٹر ہے جس میں اربوں ڈالر برآمدات سے حاصل کئے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ سیکٹر بھی گزشتہ کئی سالوں سے سست روی کا شکار ہے اور کئی مسائل درپیش رہے ہیں۔ پوٹینشل ہونے کے باوجود وہ نتائج حاصل نہ کر سکے جس کے لئے اسے مراعات ملتی رہیں۔ اس شعبہ سے وابستہ مختلف سیکٹرز کے بارے میں جاننے کے لئے ہم نے رابطہ کیا پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے زونل چیئرمین اور سربراہ لاہور چیمبر کی کمیٹی برائے ٹیکسٹائل اینڈ اپیرل ادیب اقبال شیخ سے، انکی اس حوالے سے گفتگو یہ رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایس ایم ایز کو پروموٹ کر رہے ہیں اور ہمارے ممبران کی ایکسپورٹ 5.5بلین ڈالر سالانہ ہے۔اس میں وون گارمنٹس، اور دوسری پروڈکٹس ہیں۔ ہماری انڈسٹری کو کافی زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ ہم کاٹن پروڈیوسنگ مُلک ہیں، کاٹن سے یارن اور پھر کپڑا بنتا ہے اور کپڑے سے گارمنٹس بنتی ہیں۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ پہلے ہم کاٹن، یارن اور فیبرک ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ گارمنٹس کی ویلیو ایڈیشن میں کم سے کم تین ہزار افراد کام کرتے ہیں اور اُسی فیبرک کو گارمنٹس بنانے کہ لئے ہمیں سولہ ہزار افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اگر ہم صرف فیبرک سے گارمنٹس بنائیں تو ہم سولہ ہزار لوگوں کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح دوسرے مافیاز ہیں اس طرح ایک ٹیکسٹائل مافیا بھی ہوتا ہے جواعلیٰ سطح پر اپنا اثرو رسوخ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا ہے۔ ابھی انڈیا سے کاٹن امپورٹ کی بات گردش کر رہی ہے۔ دُنیا میں جدید فیبرک جیسے فائبر اور مین میڈ فیبرک آگیا ہے جبکہ پاکستان میں فیبرک کی بہت محدود ورائٹی دستیاب ہے۔ ہمیں 21 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کا ہدف دیا گیا ہے اس وقت نٹ وئیر ڈال کہ 10 ارب تک ایکسپورٹ ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کیسے اتنا بڑا ٹارگٹ مکمل ہو گا جبکہ گزشتہ کئی ماہ سے ایکسپورٹ اُس طرح سے نہیں ہو رہی۔ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ایکسپورٹ بڑھ رہی ہیں ایسا نہیں ہے۔ تھوڑا سا بڑھا ہے جو کہ اتنا زیادہ نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے۔

ادیب شیخ نے کہا کہ ہما را یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان سے کاٹن کی ایکسپورٹ کو بند کیا جائے۔ ہمارے مقابلے میں جو ممالک ہیں اُن کو کاٹن ایکسپورٹ نہ کی جائے۔چھوٹے ملک کمبوڈیا، ویتنام کی ایکسپورٹ ہم سے زیادہ ہو گئی ہے جس کی وجہ وہاں کی حکومتوں کی بہتر پالیسیز ہیں۔ فیبرک ایکسپورٹ کا کوٹہ مقرر کیا جائے، راء میٹیریل ایکسپورٹ کو بند کیا جائے تاکہ قلت اور مافیاز سے ہم بچ سکیں۔حکومتی پالیسیوں میں ابھی تک کوئی شفافیت نہیں ہے۔ پاکستان کی بقاء ٹیکسٹائل سے ہے اور ڈالر نیچے آگیا ہے وہ الگ نقصان ہے اور سپننگ ملز نے اپنا اتحاد کیا اور فیبرک بہت مہنگا ہو گیا۔

اگر کاٹن کی قیمت 10 فیصد بڑھی ہے تو انھوں نے کپڑا 25 فیصد بڑھا کر ہمیں دیاہے۔ فیبرک ایکسپورٹ کیا جائے تو کوٹہ رکھا جائے لیکن کاٹن اور یارن کی ایکسپورٹ کی اجازت نہ دی جائے۔اس کے علاوہ فیبرک درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ ڈی ٹی آر ای سکیم کے تحت ایکسپورٹر برآمد کر سکتا ہے، ورلڈ بنک کے مطابق اس ڈی ٹی آر ای سیکم سے بنگلہ دیش 90 فیصد فائدہ لے رہا اور پاکستان 10 فیصد بھی نہیں لے رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو پاکستان میں بہت مشکل بنایا گیا ہے کہ سمال اور میڈیم انڈسٹری اس مشکل پروسیجر کو مکمل نہیں کر سکتی بڑے یونٹ بھی اسے کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔

جو کپڑا چائنہ سے 1.50ڈالر کا امپورٹ کیا جاتا ہے وہی پاکستان میں 10ڈالر کا ملتا ہے۔انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ اب کرونا کی وجہ سے 50 فیصد لوگوں کو نکال دیا تھا۔ لیکن اب سٹاف کو دوبارہ واپس لایا جا رہا ہے۔ لیکن کرونا کی اس تیسری لہر نے ہمیں دوبارہ پریشان کر دیا ہے اور سوچ بچار پر مجبور ہیں کہ کاروبار کیسے چلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا کے علاوہ اب ڈینگی وائرس والے بھی آرہے ہیں۔ ہمیں تنگ کرتے ہیں. انہوں نے کہا کہ ہم عالمی منڈیوں سے کاروبار کرتے ہیں اور جب کوئی فیکٹری سیل ہوتی تو اسکا اثر بہت برا پڑتا ہے۔

ادیب شیخ نے کہا کہ ہمیں بجلی اور گیس مہنگی دی جا رہی ہے۔ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر بجلی گیس کے نئے سستے ٹیرف پر گفتگو کی جائے اور بجٹ میں اُسے لاگو کرایا جائے۔ پاکستان میں بجلی اور گیس دُنیا کہ مقابلے میں تو ایک طرف اس خطہ کے دیگر ممالک کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت ہم سے اس شعبہ میں بہت آگے جا چُکا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا منشور تھا کہ ایس ایم ایز سیکٹرز کو مراعات دی جائیں گی اور انہیں اپنے پاوں پر کھڑا کیا جائے گا۔ یہ وہ شعبہ ہے جس میں تھوڑی سی سرمایہ کاری اور مراعات سے لاکھوں افراد کو روزگا دیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ آنے والا ہے لہذا ایکسپورٹر کو 17 فیصد جی ایس ٹی ہے اُسے ختم کیا جائے اور گورنمنٹ سیلری پیکج کو دوبارہ شروع کرے جو کرونا کے دوران شروع کی گئی تھی۔ چھوٹے سیکٹر کو اس پیکج میں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا یہ تمام مراعات بڑے گروپس لے گئے اور اس سے ہمارے شعبہ کے چھوٹے سرمایہ کاروں کا ہمیشہ استحصال ہوتا رہا اور ہم اس سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری سے محروم رہے۔

انہوں نےایک اورشکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی ادارے کو بند کر دیا جائے یہ عملی طور پر کچھ نہیں کرتا۔ ہماری تجارتی مصنوعات کا دُنیا میں کوئی پُرسان حال نہیں۔ ہر فیکٹری کا مالک اپنی مدد آپ کے تحت ہی دوسرے ممالک تک اپنی مصنوعات متعارف کرواتا ہے اور بیچتا ہے۔ آپ خود ہی بتائیے کہ پھر اس شعبے کا مقصد کیا ہے۔

پاکستان میں ایکسپورٹرز کو ون ونڈو سروس دی جائے۔ اس شعبہ سے وابستہ اداروں کو ٹریننگ کے ذریعے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت دی جائے تاکہ ہماری ایکسپورٹس میں اضافہ ہو سکے۔