توہین رسالتؐ کیسے روکی جائے؟

April 22, 2021

والٹیئر فرانس کا مشہور فلسفی اور ادیب تھا جس کی تحریروں نے انقلابِ فرانس کی بنیادیں کھڑی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُس نے فرانس کے لوگوں کو طاقتور حکمرانوں اور کیتھولک چرچ کے بارے میں سوالات اٹھانے کی جرأت دی اور اسی لئے کئی بار جیل بھی گیا۔ والٹیئر نے 1736میں مسلمانوں کے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے بارے میں ایک ڈرامہ لکھا جس میں کچھ گستاخانہ جملے شامل تھے۔ چرچ کے حامیوں کا خیال تھا کہ والٹیئر نے حضرت محمدﷺ پر تنقید کے ذریعے دراصل فرانس کی مسیحی آبادی کو چرچ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران والٹیئر نے ایک اور فرنچ ادیب ہنری ڈی بولیولیرز کی حضرت محمدﷺ کے بارے میں کتاب پڑھی تو اس کے خیالات بدل گئے اور پھر اُس نے اپنی تحریروں میں رسول کریمؐ کی مذہبی رواداری کا کھل کر اعتراف کیا۔

پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں والٹیئر کے خیالات سے جرمنی کا مشہور شاعر اور ادیب گوئٹے بہت متاثر ہوا۔ گوئٹے نے کھل کر پیغمبر اسلامؐ کی عظمت کا اعتراف کیا اور اس اعتراف نے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کو گوئٹے کا پرستار بنا دیا۔

والٹیئر اور گوئٹے کی اسلام دوستی پر بہت تنقید کی گئی اور اُنہیں غلط ثابت کرنے کیلئے فرانس اور جرمنی میں بہت گستاخانہ مواد لکھا گیا لیکن اس گستاخانہ مواد کے باوجود دنیا میں اسلام کی روشنی پھیلتی رہی۔ متحدہ ہندوستان میں بھی کچھ ہندو انتہا پسندوں نے نبی کریمؐ کے خلاف کتابیں لکھیں جن سے پیدا ہونے والی بےچینی نے تحریک پاکستان کو آگے بڑھایا۔

1927میں لاہور کے ایک ہندو پبلشر راج پال نے نبی کریمؐ کے بارے میں ایک گستاخانہ کتاب شائع کی۔ مسلمانوں کے احتجاج پر راج پال کے خلاف مقدمہ قائم ہوا اور لاہور کے ایک سٹی مجسٹریٹ نے اُسے چھ ماہ قید کی سزا بھی دی لیکن ہائیکورٹ کے جج کنور دلیپ سنگھ نے راج پال کو رہا کر دیا۔ اس رہائی پر مسلمان سراپا احتجاج بن گئے اور پھر ایک دن غازی علم دین نامی نوجوان نے راج پال کو قتل کر دیا۔

علامہ اقبالؒ نے غازی علم دین کو سزا سے بچانے کے لئے بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو وکیل بنایا لیکن غازی علم دین کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ 1929میں غازی علم دین کو پھانسی ہوئی اور 1930میں علامہ اقبالؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے الٰہ آباد اجلاس میں وہ تقریر کی جس میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کا باقاعدہ تصور پیش کیا گیا۔

1931میں ریاست جموں و کشمیر میں توہینِ اسلام کے کچھ واقعات پیش آئے جس کے ردِعمل میں مسلمانوں نے احتجاج کیا اور پھر 13جولائی 1931کو سرینگر میں 21 مسلمان شہید کر دیے گئے۔ ان مسلمانوں کی شہادت پر 14اگست 1931 کو باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں علامہ اقبالؒ کی صدارت میں جلسہ ہوا اور یہیں شاعر مشرق نے پہلی دفعہ کشمیری مسلمانوں کے لئے آزادی کا مطالبہ بھی کیا۔

کوئی مانے یا نہ مانے، تحریک پاکستان اور تحریک آزادیٔ کشمیر کے محرکات میں عشقِ رسولؐ اور اسلام سے محبت بہت اہم ہیں۔ نہ تو غازی علم دین مولوی تھے، نہ قائداعظم مولوی تھے اور نہ ہی علامہ اقبال مولوی تھے لیکن ان سب میں عشق رسولؐ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہ عشق رسولؐ ہر پاکستانی مسلمان کی کیمسٹری میں شامل ہو چکا ہے۔

کوئی نماز پڑھے نہ پڑھے، روزہ رکھے یا نہ رکھے لیکن توہینِ رسالتؐ کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔ عشقِ رسولؐ دراصل مسلمانوں کے ایمان کی آکسیجن ہے۔ ہمارے کلمے میں بھی محمدؐ، قرآن میں بھی محمدؐ اور نماز میں بھی محمدؐ موجود ہیں۔ ہم درود شریف کو اپنی بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کا ایمان عشقِ رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

دنیا میں کہیں بھی نبی کریمﷺ کے بارے میں گستاخی ہوتی ہے تو پاکستان کے مسلمان اسے اپنے ایمان پر حملہ سمجھتے ہیں۔ کچھ سال پہلے مجھے امریکا کے شہر لاس ویگاس میں ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جہاں ایک امریکی اسکالر رابرٹ سپنسر نے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کی اور آپؐ سے کچھ غلط باتیں منسوب کیں۔ میں کوئی عالمِ دین نہیں، ایک عام سا صحافی ہوں۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق رابرٹ سپنسر کو بھرپور جواب دیا اور اسے جھوٹا ثابت کیا۔ کانفرنس ختم ہوئی تو شرکاء کی بڑی اکثریت نے مجھ سے اسلام کے بارے میں کتابوں کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا۔ مجھے زیادہ تر اُن کتابوں کے نام یاد تھے جو پاکستان میں آسانی سے دستیاب ہیں بہرحال میں نے مائیکل ہارٹ کی کتاب ’’تاریخ کی سو بااثر شخصیات‘‘ سے کام چلایا جس میں حضرت محمدﷺ کا سب سے پہلا نمبر ہے لیکن یہ احساس ضرور ہوا کہ مسلمان اپنے دین اور اپنے نبیؐ کے بارے میں غلط فہمیاں ختم کرنے کیلئے لکھنے پڑھنے میں اتنا زور نہیں لگاتے جتنا زور جلسے جلوسوں اور جلائو گھیرائو میں لگا دیتے ہیں۔

2005 میں ڈنمارک کے ایک اخبار نے نبی کریمؐ کے گستاخانہ خاکے شائع کئے تو بہت سے مسلم ممالک میں احتجاج ہوا۔ اخبار نے ان خاکوں کی اشاعت کو آزادیٔ اظہار کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی۔ 2006 میں سویڈن کی کچھ ویب سائٹس نے ان خاکوں کو آزادیٔ اظہار کے نام پر پھیلانا شروع کیا تو ان ویب سائٹس سے کہا گیا کہ آپ ان خاکوں کو ہٹا دیں۔

یہ معاملہ عدالت میں پہنچ گیا اور آخرکار سویڈن کی وزیر خارجہ لیلیٰ فری والڈز کو استعفیٰ دینا پڑ گیا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ویب سائٹس سے خاکے ہٹانے کا حکم دیا تھا جو آزادیٔ اظہار کے خلاف تھا۔ یورپ کی اکثر حکومتیں چاہیں بھی تو اپنے میڈیا کو گستاخانہ خاکے شائع کرنے سے نہیں روک سکتیں لیکن کچھ یورپی ممالک میں نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔

اسلامی ممالک کی تنظیم نے 1998سے 2011کے درمیان بار بار کوشش کی کہ اقوامِ متحدہ کے ذریعہ توہینِ رسالتؐ کو روکنے کی کوشش کی جائے لیکن یورپی ممالک نے او آئی سی کا ساتھ نہیں دیا۔ 2011میں آسٹریا کی ایک عدالت نے توہینِ رسالتؐ پر ایک خاتون کو 480کرونا جرمانہ کر دیا۔

یہ خاتون یورپی کورٹ برائے انسانی حقوق میں اپیل لے کر گئی اور کہا کہ اسے دی جانے والی سزا آزادیٔ اظہار کے خلاف ہے۔ یورپی کورٹ نے سزا کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے نبیؐ کی شان میں گستاخی آزادیٔ اظہار نہیں ہے کیونکہ اس سے نفرت پھیلتی ہے۔

سات رکنی یورپی کورٹ نے 2018 میں یہ فیصلہ فرانس کے شہر سٹراس برگ میں سنایا۔ او آئی سی اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر یہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ دنیا کے ہر مذہب اور تمام انبیاءؑ کی توہین روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے تاکہ نفرتوں کا پھیلائو کم ہو سکے۔ نبی پاکؐ کی حرمت کا دفاع ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کیلئے ہمیں آواز ضرور بلند کرنی چاہئے لیکن کچھ توجہ اپنے پیارے نبیؐ کی تعلیمات پر بھی دینی چاہئے۔

ہمیں سوچنا چاہئے کہ جب ہم جھوٹ بولتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، رمضان میں منافع خوری کرتے ہیں، فرقہ واریت پھیلاتے ہیں اور ناانصافی کرتے ہیں تو کیا اپنے نبیؐ کی تعلیمات کی خلاف ورزی نہیں کرتے؟ اگر ہم اپنے نبیؐ کی تعلیمات پر عملدرآمد شروع کر دیں تو دنیا میں کسی کو توہینِ رسالتؐ کی جرأت نہیں ہو گی، سب والٹیئر اور گوئٹے کی طرح ہمارے نبیؐ کی تعریف کریں گے۔