جمہوریت چلتی رہے، احتساب ہوتا رہے

May 01, 2016

بھئی، جمہوریت تو ہے ہی شفافیت، احتساب اور قانون کی حکمرانی کا نام، پھر اس سے مفر کیا معنی۔ کرپشن افشا ہو رہی ہے تو یہ بھی ہے تو جمہوریت اور اُسکی آزادی کے وصف کا کمال۔ آمریتوں میں کہاں حکمرانوں کے کرتوتوں پر پڑے آہنی پردے عیاں ہوتے ہیں۔ اور میڈیا کی بیباکی بھی تو جمہوریت کی دین ہے، وگرنہ ہم بے پر کے نئے نئے طرم خانوں کی اوقات خوب جانتے ہیں کہ کہاں سے بولتے ہیں، کیا بولتے ہیں اور کس کے کہنے پر بولتے ہیں۔ آخر جمہوریت کو رسوا کرنے پر تلے جعلی درویش یا پھر بے پیندے کے ڈھنڈورچی چاہتے کیا ہیں؟ احتساب یا پھر جمہوریت کا کریا کرم؟ مسئلہ صرف شریفوں کا ہوتا یا کسی اور سیاستدانوں کا، قانون کو حرکت میں لانے یا پھر احتساب کرنے پہ کس کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ ایک تو ہمارے عوام ، یہ انسانی ضرورت کو ترس رہے ہیں، اوپر سے دل شکن اسکینڈل کہ جنہیں منتخب کیا، اُن کے بارے میں سوچا کیا تھا، نکلے کیا۔ مگر احساس تاسف پہ سر پٹخنے سے کیا حاصل۔ اپنی کرنی کی بھوگنی تو پڑتی ہے۔ اور اس سے پہلے کہ ناراض عوام کا لاوا پھٹے یا پھر اگلے انتخابات کا موقع میسر آئے، درمیان میں کوئی اور کود پڑتا ہے اور سیاست کے گناہوں کی سزا جمہوریت کو ملتی ہے یا پھر عوام کو جنھیں پرچی سے احتساب کا حق دینے کی بجائے ملتے ہیں برچھی والے اور نئی شیروانیوں والے۔ پھر وہی پرانا سکرپٹ اور پٹا ہوا ڈرامہ دہرایا جاتا ہے جسے دیکھتے دیکھتے اب اتنی اکتاہٹ ہو چلی ہے کہ اس کے ہجے لکھنا بھی اب مضحکہ خیز لگتا ہے۔ مضحکے کا کیا مضحکہ کرنا۔
پاناما لیکس کی گرد میں سب کچھ آنکھوں سے اوجھل کیا جا رہا ہے۔ عوام کو درپیش مسائل بھی، ملک کو مزید خطرات میں دھکیلنے کے نئے عزائم اور احتساب کے لئےہمہ نو پیش رفت کی کوئی کوشش بھی۔ ہر دفعہ کی طرح پھر سے قربانی کا بکرا بنایا بھی جا رہا ہے تو وزیراعظم ہی کو۔ کرپشن کا ہمہ نو خاتمہ نہیں، وزیراعظم کا دھڑن تختہ یا پھر اُسے کونے کھدرے میں دھکیل دیا جائے تاکہ راج کرے خالصہ۔ عمران خان کو بھلا کوئی کیا سمجھائے۔ اُس کے پچھلے دھرنے سے شریف حکومت کو پناہ ملی بھی تھی تو پارلیمنٹ میں یا پھر دوسرے شریف کی ذرہ نوازی سے، جان بچی بھی تو وزیراعظم کو خطے میں امن و تعاون برائے ترقی کے خواب کے چکنا چور ہونے کی قیمت پر۔ صدر آصف زرداری نے ایک عرصے کے بعد پارلیمنٹ میں روح پھونکی تھی اور جیسے کیسے جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اُترنے نہ دیا اور جمہوری عبور پہلی بار ہوتا ہم نے دیکھا۔ اور ایک منتخب حکومت سے اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا۔ یہ انہونی میموگیٹ کے اسکینڈل کے باوجود ہو سکی تھی اور اس کے باوجود بھی کہ میاں نواز شریف کالا کوٹ پہنے سپریم کورٹ میںجمہوریت کے خلاف وکیل بن کر پیش ہوئے تھے۔ لیکن سیاست کے بھولے بدو نے میموگیٹ سے بھی نہ سیکھا اور اُلٹا اونٹ کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے خیمے میں گھسنے دیا، یہ بھولتے ہوئے کہ ایسا کر کے پنجاب کے خیمے میں اونٹ کو گھسنے سے روکنا محال ہو جائے گا اور برادرِ خورد کی مزاحمت جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی۔ یہ بھی تو ہے کرنی کی بھوگنی!
طعنہ زنی کا یہ موقع نہیں۔ البتہ جمہوریت کے گورکنوں سے پوچھنے میں کیا حرج ہے کہ آپ کے پیٹ میں مروڑ کچھ اور ہے اور چلّا کسی اور بات پر رہے ہیں۔ پنجابی کی مثل ہے کہ روندی یاراں نوں، ناں لے بھراواں دا۔ اگر خطرہ صرف ٹیکس چوروں، کالے دھن والوں، کرپشن کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو ہے، تو ہو، ہم جمہوریت پسندوں کو اس کا کیا خوف۔ نعرہ بازی نہیں، حقیقی احتساب، کڑا احتساب، سب کا احتساب اور بروقت احتساب اور شفاف احتساب، اگر ہو سکتا ہے تو وہ بھی اگر ممکن ہے تو صرف جمہوریت اور قانون کی حکمرانی میں۔ کرپشن کے خاتمے کے شور میں جمہوری نظام کو اُلٹا کر مارشل لاؤں کے بدترین لاقانونی نظاموں کی حشر سامانیاں ہم دیکھ چکے ہیں۔ اور ایک بار پھر ہم یہ تماشہ لگتے دیکھ کر کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ جب بھی کرپشن کو ختم کرنے کی بات ہوتی ہے تو ’’جمہوریت کو خطرے‘‘ کی گھنٹی بجا دی جاتی ہے۔ ایسا تو بار بار ہو چکا ہے، کرپشن کی گھنٹی بجتے ہی جمہوریت کی چھٹی ہوتے ہم نے کتنی ہی بار دیکھی ہے اور اب بھی دیکھ رہے ہیں۔ اور دیکھ وہی سکتے ہیں جن کی آنکھوں پہ کسی نے پٹی نہ چڑھا دی ہو۔
پچھلی بار جب یہ آفت ٹوٹی تھی تو وزیراعظم نے پارلیمنٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس بار وہ عوام سے رجوع کر رہے ہیں۔ کیا واقعی عوام سے رجوع کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ جبکہ وہ قبل از وقت انتخابات کی طرف نہیں جا رہے کہ ابھی تو لوڈشیڈنگ عروج پر ہے اور اُن کی ترقی کے ماڈل کے ثمرات کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ جان چھوٹنی اور بچنی بھی ہے تو پارلیمنٹ سے رجوع کرنے سے، بھلے حزبِ اختلاف چاقو چھریاں تیز کئے بیٹھی ہو۔ عمران خان کے علاوہ کوئی جلدی میں نہیں اور جو جلدی میں ہیں اُن کو کچھ ملنے والا نہیں۔ سینیٹ کی اقتصادی کمیٹی نے پاناما لیکس کے حوالے سے جو سوالات اُٹھائے ہیں وہ غور طلب ہیں۔ اُن کا جواب تلاش کئے بغیر آف شور کمپنیوں میں رکھی گئی دولت کا حساب ممکن نہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور اسٹیٹ بنک جن کے کہ یہ کام ہیں، اس معاملے میں بے بس ہیں اور جس طرح کے قوانین کی ضرورت ہے وہ ہیں نہیں، نہ متعلقہ ملکوں کے ساتھ ایسے معاہدے جن کے تحت دستاویزات اور مالی کھاتوں تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ ایسے میں احتساب احتساب کا شور ڈان کو ہوتے کی طرح تلواریں ہوا میں لہرانے سے کیا حاصل۔
اگر سنجیدہ احتساب کرنا ہے تو ایف بی آر، اسٹیٹ بنک، احتساب بیورو اور ایف آئی اے کو الیکشن کمیشن کی طرح خودمختار اور آزاد کرنا ہوگا۔ ایسے مؤثر قوانین بنانے ہوں گے جو ٹیکس چوری، کرپشن، کمیشن خوری اور قومی ذرائع کی لوٹ مار کو مؤثر طور پر روک سکیں۔ اس کے لئے دھرنے نہیں قانون سازی کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف پارلیمنٹ کر سکتی ہے۔ اور جمہوریت کے استحکام کے لئے یہ کام پارلیمنٹ کو کرنا چاہئے۔ وزیراعظم کو پارلیمنٹ کی نمائندہ کمیٹی فوراً تشکیل دینی چاہئے اور اپوزیشن سے بات چیت کا آغاز کرنا چاہئے۔ اس سے جمہوریت پر اعتبار بڑھے گا اور پارلیمنٹ مضبوط ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ وزیراعظم اپنے بچوں سے کہیں کہ وہ اپنی صفائی پیش کریں وگرنہ کرپشن کرپشن کے شور میں جمہوریت کو لپیٹنے یا عضو معطل بنانے کے پرانے اسکرپٹ حرکت میں آتے تو نظر آ ہی رہے ہیں۔ اشتہاروں سے صفائیاں پیش کرنے کی بجائے، بہتر ہے کہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوں، ورنہ مکافاتِ عمل کا بے بسی سے انتظار کریں۔