سرینا عیسیٰ کے وزنی دلائل FBR تحقیقات سے نکلنے کا سبب بنے

April 27, 2021

اسلام آباد / لندن (زاہد گشکوری / مرتضیٰ علی شاہ) سرینا عیسیٰ کے وزنی دلائل ان کے ایف بی آر تحقیقات سے نکلنے کا سبب بنے ہیں۔ جبکہ ایف بی آر نے اپنی حتمی رپورٹ میں سرینا عیسیٰ کے خلاف علیحدہ سماعت کا اشارہ دے دیا ہے۔

جسٹس عیسیٰ کے اہل خانہ لندن میں اپنی جائیداد رکھتے ہیں لیکن یہ جائیدادیں جج کی بیٹی، بیوی اور بیٹے نے آزادانہ طور پر آمدنی کے ذریعہ خرید ی ہیں، جو قانونی اور اعلان شدہ ذرائع کے ذریعے پاکستان سے لندن بھیجی گئی۔

تفصیلات کے مطابق، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اعلیٰ عدالت میں متعدد دلائل پیش کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ اور ان کے شوہر ٹیکس حکام کی تحقیقات سے باہر نکل گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 10 رکنی بنچ نے ایف بی آر کو اختیار دیا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے گھروالوں کے آف شور اثاثوں کی تحقیقات کرے۔

سرینا عیسیٰ کے دلائل جو انہوں نے ٹیکس حکام اور سپریم کورٹ میں پیش کیے 1700 صفحات پر مشتمل تھے۔ وہ اپنا مدعا 18 جون، 2020 سے پیش کررہی تھیں۔ پیر کے روز ان کی نظرثانی درخواست پر سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 6 جون، 2020 کے حکم نامے میں شامل تمام احکامات کو غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سرینا عیسیٰ نے 9 جولائی، 2020 کو حکام کو بتایا تھا کہ ایف بی آر کمشنر ذوالفقار احمد کو ان کے کیس کی تحقیقات کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی بھی قابل ٹیکس آمدنی نہیں چھپائی ہے اور نا ہی غلط اعدادوشمار فراہم کیے ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ نا ہی انہوں نے لندن پراپرٹیز چھپائی ہیں اور نا ہی چھپانے کی کوشش کی ہے، وہ ان کے اور ان کے بچوں کے نام پر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ انہیں چھپانا چاہتیں تو کوئی ٹرسٹ یا کمپنی بناسکتی تھیں اور انہیں ایک یا زائد مختلف ناموں یا کارپوریٹ نام کےپیچھے چھپاسکتی تھیں۔

جب کہ ٹیکس حکام کا کہنا تھا کہ سرینا عیسیٰ نے جو منی ٹریل فراہم کی ہے اس میں بہت سے تضادات ہیں مثلاً ان کے پاس ایک کروڑ روپے کی مجموعی ٹیکس رقم تھی جو انہوں نے مذکورہ تین آف شورز کو ظاہر کرنے کے دوران استعمال کرلی تھی، جب کہ لندن پراپرٹیز کو چھپایا گیا اور انہیں اپنی دولت میں ظاہر نہیں کیا۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے کیس کے حوالے سے جو حکم جاری کیا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ بظاہر ایف بی آر تحقیقات کار ان کی وضاحت سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات جرمانے کا باعث نہیں ہوسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی امریکن اسکول کی جانب سے 1982ء سے انہیں ملنے والی تنخواہوں کو نظرانداز کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے ان کی پوری زندگی کی کمائی کو قلم کی ایک جنبش سے نظرانداز کردیا اور یہ سمجھا کہ میں 500مربع گز کا گھر خریدنے کی اہل نہیں تھیں کیا ایسا اس لیے تھا کیوں کہ میں خاتون تھی؟سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں یہ امید نہیں تھی کہ ایف بی آر افسران غیرملکی کرنسی اکائونٹس سے متعلق مختلف قوانین نظرانداز کریں گے۔ انہوں نے اپنے مؤقف کی تائید میں مختلف کیسز کے حوالے بھی دیئے۔

اپنی آمدنی ثابت کرنے کیلئے انہوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے اپنی زرعی آمدنی اور قابل ٹیکس آمدنی سے غیرملکی کرنسی حاصل کی۔ جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف بی آر نے غیرقانونی طور پر ان کے غیرملکی کرنسی اکائونٹس سے متعلق معلومات حاصل کی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ایف بی آر نے اپنی فائنڈنگ ریکارڈ کی تھی ویسے ہی یہ معاملہ منطقی انجام کو پہنچ گیا تھا۔ انہوں نے کسی بھی طرح اپنے موقف میں تبدیلی نہیں کی بلکہ شروع سے آخر تک ان کا موقف ایک ہی رہا۔

یعنی انہوں نے 2013 میں جو دو پراپرٹیز خریدی تھیں اس کی مکمل ادائیگی انہوں نے خود کی تھی۔ ان کے جواب کا حوالہ ایک سینئر عہدیدار نے دیا جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔

جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ لندن کی تینوں جائیدادوں کے مالک ہیں لیکن جج نے واضح کیا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ جائیدادوں سے مستفید ہونے والے مالک نہیں۔ صدارتی ریفرنس کو کالعدم کردیا گیا تھا لیکن اس معاملے کو تحقیقات کے لئے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھیجا گیا تھا تاکہ اس امر کی تحقیقات کی جائیں کہ ذرائع آمدن لندن کیسے بھیجے گئے اور ان کا اصل مقام کیا ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت پاکستان کے اثاثوں کی بازیابی کے یونٹ (اے آر یو) نے عیسیٰ فیملی کے اثاثوں کی تفصیلات برطانوی حکومت سے حاصل کیں اور ساتھ ہی حکومت سے یہ درخواست بھی کی کہ فنڈز کی منتقلی یا خریداری کے دوران اگر کوئی غیرقانونی قدام اٹھایا گیا ہو تو اس سے پاکستان کو آگاہ کیا جائے۔

یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا جو فنڈ استعمال کئے گئے ہیں وہ پاکستان سے منتقل کی گئی رقم سے میل نہیں کھاتے۔ برطانوی حکومت کے کسٹم اینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ نے پاکستانی حکومت کو آگاہ کیا کہ یہ تینوں اثاثے قانونی طور پر خریدے گئے ہیں، منی لانڈرنگ کے انسداد کی جانچ پڑتال کی گئی ہے اور برطانیہ میں استعمال ہونے والے فنڈز کو پاکستان سے بھیجے گئے فنڈز سے چیک کیا گیا تھا۔

یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا اس رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے یا نہیں لیکن یہاں کے ایک ذرائع نے بتایا کہ برطانیہ کی حکومت نے ان حقائق کی تصدیق پاکستان کے حکام کو کی ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا مونٹسیریٹ کیریرا نصف ہسپانوی ہیں اور ان کے پاس ہمیشہ ہی ہسپانوی پاسپورٹ موجود رہا ہے۔

ان کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسہ نے برک بیک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور بیٹی سحر عیسیٰ کھوسو ایک تربیت یافتہ بیرسٹر ہیں جو خود ایک برطانوی شہری ہیں اور انہوں نے ایک برطانوی شہری سے شادی کی تھی۔ ارسلان اور سحر دونوں برسوں سے برطانیہ میں رہ رہے ہیں اوریہیں کام کر رہے ہیں۔

مشرقی لندن اور وسطی لندن میں تین جائیدادوں میں سے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا مونٹسیریٹ کیریرا، جو قاضی فائز عیسیٰ سے شادی کے بعد پاکستان چلی گئیں، ایک جائیداد براہ راست ان کے نام سے ہے۔ ایچ ڈی ریونیو اور کسٹم (ایچ ایم آر سی) ریکارڈ کے مطابق سرینا کیریرا نے 20.10.2011 کو کینڈل اسٹریٹ پر دو بیڈروم کا فلیٹ خریدا تھا جس کی مالیت کا تخمینہ 300000 پونڈز ہے۔ فلیٹ اپارٹمنٹ بلاک کی چھٹی منزل پر ہے۔ سرینا کیریرا اور ان کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسہ نے مارچ 2013 میں مشرقی لندن کے والتھم سٹو میں245000 پونڈز میں مشترکہ طور پر ایک فلیٹ خریدا تھا۔

ٹائٹل ڈیڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سودا 27 مارچ 2013 کو ہوا تھا۔ جسٹس کھوسہ کی بیٹی سحر عیسیٰ کھوسو اور زرینہ مونٹسیریٹ کیریرا نے 28 جون 2013 کو ایسٹ لندن کا ایک فلیٹ 270000 پونڈز میں خریدا۔

لینڈ رجسٹری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 23 ​​اپریل 2019 کو تینوں پراپرٹیز کی تلاشی لی گئی تھی۔ جسٹس عیسیٰ کوئٹہ میں پیدا ہوئے، جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی، بعد ازاں وہ اپنے او اور اے لیولز مکمل کرنے کے لئے کراچی منتقل ہوئے۔

بعدازاں انہوں نے لندن میں قانون پڑھا اور 1982 میں مڈل ٹیمپل سے بار آف انگلینڈ اینڈ ویلز میں بلوا لئے گئے۔ بیرسٹر کی حیثیت سے کوالیفائی کرنے کے بعد جسٹس عیسیٰ پاکستان واپس آئے جہاں انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے داخلہ لیا اور جلد ہی کراچی میں پریکٹس شروع کر دی۔ وہ رضوی عیسیٰ اینڈ کمپنی کے اونر تھے۔

اے آر یو نے قاضی فائز عیسیٰ کے بیٹے اور بیٹی کے بارے میں تفتیش کے لئے ایک جاسوس کمپنی کی خدمات بھی حاصل کیں۔

ان کو نگرانی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ جاسوس کمپنی نے پاکستان جانے کے لئے ان کی تفصیلات حاصل کیں۔ اس کیس سے واقف ذرائع نے بتایا کہ جاسوس کمپنی نے پاکستانی حکام کو تینوں املاک کی تفصیلات فراہم کیں جو عوامی طور پر دستیاب اراضی رجسٹری ریکارڈ پر موجود ہیں۔