عالمی شہرت یافتہ جاپانی ادیب ’’ہاروکی موراکامی‘‘

May 03, 2021

عہدِ حاضر کےایک ادیب’’ہاروکی موراکامی‘‘ ہیں، جن کا تعلق ایشیا کے ملک جاپان سے ہے۔ وہ جاپانی زبان کے علاوہ بھی انگریزی اور دنیا کی دیگر بڑی زبانوں میں باقاعدگی سے پڑھے جاتے ہیں،ایک محتاط اندازے کے مطابق، اب تک ان کی تخلیقات 50 زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہیں، صرف جاپانی زبان میں ہی ان کی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوچکی ہیں۔ وہ ورلڈ فینتاسی ایوارڈ، فرانز کافکا ایوارڈ اور یروشلم ایوارڈ سمیت جاپان کے بھی کئی ادبی اعزازات اپنے نام کر چکے ہیں۔

’’ہاروکی موراکامی‘‘ 12 جنوری 1949 کو جاپان کے شہر کیوٹو میں پیدا ہوئے۔ وہ ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نویس، مضمون نگار اور مترجم بھی ہیں۔ جاپانی زبان میں لکھتے ہیں، لیکن انگریزی سمیت دنیا بھر کی کئی زبانوں میں پڑھے جاتے ہیں۔ جاپان کے شہر ٹوکیو کی معروف یونیورسٹی ’’وسیدا‘‘ سے فارغ التحصیل ہیں، اب یہ یونیورسٹی ان کی تخلیقات اور شخصیت کے حوالے سے، محققین کے لیے ایک آرکائیوسیکشن بھی بنا رہی ہے۔ دنیا کی دو تین معروف جامعات نے ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے بھی نوازا ہے۔

جاپانی زبان کے اس مقبول ادیب کو 80 کی دہائی میں شہرت ملنا شروع ہوئی۔ 1982 میں ان کے ناول’’اے وائلڈ شیپ چیس‘‘ کو توجہ ملی اور 1987 میں اشاعت پذیر ہونے والے ناول’’نارویجین ووڈ‘‘ نے گویا، ان کے لیے عالمی شہرت کا دروازہ کھول دیا، اس ناول سے’’ہاروکی موراکامی‘‘ کی شہرت جاپان سے باہر نکل گئی اور حقیقی معنوں میں ان کو ایک بڑا ادیب بننے کی طرف راغب کر دیا۔ 90 کی دہائی میں ان کا ایک اور ناول’’دی ونڈ اپ برڈ کرونیکل‘‘ کو بھی بے پناہ شہرت ملی، پھر اکیسویں صدی کی ابتدا میں شائع ہونے والے ناول’’کافکاآن دی شور‘‘ نے عالمی سطح پر بے پناہ مقبولیت سمیٹی۔ اس ناول کا اردو ترجمہ‘‘ کافکا برلبِ ساحل‘‘ کے نام سے حال ہی میں اردو زبان میں ہوا ہے، جس کے مترجم’’نجم الدین احمد‘‘ ہیں۔ پاکستان میں بھی اس ادیب کی مقبولیت کا تناسب روز بروز بڑھ رہا ہے۔

اسی طرح’’ہاروکی موراکامی‘‘ کے دیگر ناولوں میں 1Q84 کو جاپان میں سب سے زیادہ پسند کیا گیا اور اس نے فروخت کا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کی مختصر کہانیوں کے بھی کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں، جبکہ انہوں نے عالمی ادب سے انتخاب کرکے کئی کتابوں کے تراجم جاپانی زبان میں بھی کیے ہیں ۔ انگریزی زبان میں ان کے ناولوں کے تین مدیر اور مترجم ہیں، جن کے ذریعہ ان کی تمام کتابیں انگریزی میں ترجمہ ہوتی ہیں، انگریزی نسخوں کی مدد سے پوری دنیا میں مختلف زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاتے ہیں۔

ان کے والدین جاپانی ادب کے استاد تھے، مگر انہوں نے اس ثقافت و ادب سے راہ فرار اختیار کی، مغرب کے ادب سے قلبی رشتہ قائم کیا اور خود بھی کئی مغربی ادیبوںسے متاثر ہوئے، جن کے اثرات، ان کی طرز نگارش اور کہانیوں پر دیکھے جاسکتے ہیں، ان ادیبوں میں برطانوی نژاد امریکی ادیب’’ریمنڈ شینڈلر‘‘ امریکی ادیب’’کرٹ وینگوٹ‘ ‘ اور’’رچرڈ براوٹیگن‘‘شامل ہیں۔

ان کو اپنی مغربیت کی وجہ سے بعض اوقات جاپانی ادبی حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان کی کہانیوں کے کردار فلسفیاتی، طلسماتی، تجریدی اور مختلف تصورات کی پرچھائیوں میں گھرے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے عالمی طور پر سب سے پہلے مشہور ناول’’نارویجن ووڈ‘‘ میں اس طرز تحریر کو پڑھا جاسکتا ہے، جس میں زندگی کی حقیقی سمت اور خیالات کی تحریک ساتھ ساتھ گامزن ہے۔ ہم نے آج اسی ناول کا انتخاب کیا ہے۔ ویسے ان کے پانچ مختلف ناولوں پر اب تک پانچ فلمیں بن چکی ہیں۔

’’ہاروکی موراکامی‘‘ کے اس ناول’’نارویجن ووڈ‘‘ کو انگریزی میں پہلی مرتبہ’’الفرڈ برنبوم‘‘ نے 1989 میں، جبکہ دوسری بار 2000میں’’جے رابن‘‘ نے ترجمہ کیا۔ یہ ناول چند ایسے مرکزی کرداروں پر مبنی ہے، جو طالب علم ہیں اور وہ ماضی کی یادوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ جہاں زمانہ طالب علمی میں تعلیم کے حصول ، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، کیفیات اور نفسیات کے معاملات سمیت دیگراحساسات کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔

یہ کہانی ٹوکیو شہر کے اردگرد گھومتی ہے۔ ایک روانی میں بیان کی گئی کہانی اپنے آپ میں مدغم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اس ناول پر بننے والی فلم کو ویت نام سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی فلم ساز’’تران آن ہنگ‘‘ نے بنایا اور یہ فلم 2010 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، باکس آفس پر بھی اس کو پسند کیا گیا۔