اُخوت، احسان، اخلاص

May 05, 2021

پاکستان دنیا کا ایسا خوش قسمت ترین ملک ہے جسے ﷲ تعالیٰ نے تمام تر وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ اب یہ ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ پر منحصر ہے کہ وہ اِن وسائل کو کیسے بروئے کار لاتے ہیں۔ بدقسمتی سے سب نے قومی وسائل کو ذاتی بہبود اور فائدے کے لئے استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں ایک طرف قومی وسائل ملک کے چند خاندانوں کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئے وہیں ملک کا غریب طبقہ اِس منفی رویے کی وجہ سے بالکل نظر انداز ہوتا رہا اور اتنا کہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہو گیا۔ آج پاکستانی تنگدستی، بےروزگاری اورمہنگائی سے تنگ آ کر خودکشی کررہے ہیں لیکن موجودہ اور سابق حکمران تاحال ملک میں ایسا کوئی نظام لانے میں ناکام ہیں جس سے وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو اورتمام طبقات خوشحال ہو سکیں، غربت کا خاتمہ ہواور سب کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔ ایسے میں ڈاکٹر امجد ثاقب اُمید کی کرن بن کر اُبھرے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب انسان دوست شخصیت کے حامل ہیں۔انسانی ہمدردی سے مالامال ہیں ،نثرلکھتے ہیں تو ہزار وںسال پرانے عرب کےمفکر لگتے ہیں ،شاعری کرتے ہیں تو غالب کی یاد تازہ کرتے ہیں ،بولتے ہیں تو صوفیاء کی جماعت کے بچھڑے ہوئے مسافر لگتے ہیں ،مسکراتے ہیں تو پھول کی مانند خوشبو تقسیم کرتے ہیں ،پیار دیتے ہیں تو اخوت ہی اخوت ہیں۔ امجد ثاقب اخوت کے روحِ رواں ہیں اُخوت دنیا کا سب سے بڑا اسلامی مائیکرو فنانس کا ادارہ ہے۔ اخوت کا مقصد ہی ضرورت مندوں میں سود سے پاک قرضے فراہم کرناہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت کا آئیڈیا حضورﷺ کی تعلیمات سے اخذ کیا یہ ایک بظاہر سادہ سا تصور ہے اور اُخوت فائونڈیشن اس تصور پر کام کرتے ہوئے غربت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں سہولت فراہم کرتی ہے۔ اخوت فاؤنڈیشن 128.347 بلین روپے قرض 4,525,914 خاندانوں کو فراہم کر چکیہے۔ صوفیاء کی فکر کے مطابق یہ مساجد، درگاہوں، چرچ اور مندروں میں بیٹھ کر قرض تقسیم کرتے ہیں۔ اخوت یونیورسٹی بنا چکے ہیں بلاسود قرضوں کی ریکوری کی شرح 99.98فیصد ہے۔ یہ ادارہ بلا سود قرضوں کے ذریعے غریبوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ یہ قرضے سائل کو کسی لمبے چوڑے تفتیشی مرحلے سے گزرے بغیر سادہ کاغذ پر تحریر کی ہوئی درخواست پر شخصی ضمانت کے ذریعے جاری کئے جاتے ہیں۔ غربت کا خاتمہ اکیلے کسی حکومت یا کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے مطابق لوگوں کو بھکاری بنانے سے بہتر ہے کہ اُنہیں عزت اور وقار کیساتھ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب غربت کے خاتمے کے لئے اُخوت کے ماڈل کو دنیا کے دیگر پسماندہ ملکوں تک وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جو کوئی بھی اخوت کی طرح غریبوں کی مدد کرنا چاہے تو وہ اُسے بلا معاوضہ تربیتی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں۔ اخوت کےچھوٹے قرضوں کے ماڈل کی ہارورڈ کینیڈی اسکول کے ماہرین نے بھی توثیق کی ہے۔ میری دانست میں اسلامی مائیکرو فنانس واحد ایسا راستہ ہے جو سب سے آسان اور سب سے منفرد انداز سے غربت کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس کی بنیاد مواخات ہے، جس کا فلسفہ بانٹنا اور عملی طور پر ہمدردی کرنا ہے۔ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کا خیال ہے کہ رحم دلی اور مساوات کے اصولوں کی بنیاد پر غربت سے پاک معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ غربت صرف محدود وسائل کا نام نہیں، غربت کی سب سے بدتر شکل مایوسی ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب اور اخوت کی ٹیم پسماندہ اور غربت سے دوچار طبقے کو سماجی دھارے میں لانے کے لئے کام کررہی ہے۔ اس ضمن میں سود سے پاک چھوٹے باسہولت قرضے، اچھی تعلیم کی مفت فراہمی اور رعایتی نرخوں پر صحت کی خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔ پاکستان میں پسماندہ طبقے کو غربت سے نکالنے کےلیے سب سے بڑے ادارے پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈ (PPAF) کے ساتھ بھی اخوت کام کررہا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب دنیا میں اس عظیم کام کےلیے جذبے اور اخلاص کی مثال قائم کررہے ہیں۔ ماہِ رمضان میںوطنِ عزیز کے لوگ اپنے طور پر ہر ممکن طریقے سے دوسروں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پوری زندگی انسانیت کی خدمت کےلیے وقف کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب انہی میں سے ایک عظیم انسان ہیں۔ماہ رمضان میں ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر لوگ زکوٰۃ اور صدقات نکالتے ہیں، اس رمضان اخوت جیسے اداروں کے ساتھ تعاون کےلئے بھی عملی اقدام اٹھائیں۔پچھلے 22 سال سے ڈاکٹر امجدثاقب اسی فکر کو فروغ دینے کے لئے روازنہ 16 سے 18 گھنٹے کام کرتے ہیں ۔مجھے اس لئے بھی پیارے لگتے ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے کے لاوارث خواجہ سرائوں کے لئے بھی کام کرتے ہیں، خواجہ سرائوں سے مجھے بھی دلی ہمدرد ی ہے کہ میں نے بھی 2016میں ان کے حقوق کے لئے فتویٰ جاری کیا تھا جس کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی تھی ۔مختصریہ کہ حافظ امیر علی اعوان اورطاہر خلیق نواب بھی ڈاکٹر امجد ثاقب کے اِس لئے بڑے مداح ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اپنے خاندان اور عزیزاقارب کو کم اور اخوت کو وقت زیادہ دیتے ہیں ۔ اگریہ کام حکومتی سطح پر کیا جاتا تو ان کی تنخواہ مراعات کے علاوہ کم از کم 50 لاکھ ماہانہ ہوتی جبکہ عالمی ادارہ کر رہا ہوتا تو ان کی ماہانہ تنخواہ ایک کروڑ پاکستانی روپے ہوتی۔