نئی دنیا، پھٹے پرانے لوگ

May 06, 2021

کسب ہی نسب ہے ۔کبھی موچی، دھوبی، نائی، لوہار، چمار، ترکھان یا جٹ، گجر، آرائیںوغیرہ ذاتیں برادریاں تھیں لیکن اب سلوموشن میں سب کچھ بدل چکا یا بدل رہا ہے لیکن اتنی آہستگی سے کہ بیشتر لوگ اسے دیکھ نہیں پا رہے۔

ایک اصطلاح ہے ’’وکلاء برادری‘‘۔ اس پر غور کریں کہ کیسے جٹ، گجر، آرائیں، شیخ یا دھوبی، موچی، نائی پیچھے رہ گئے ۔ان میں سے کسی کا بچہ ایل ایل بی کرلے تو وہ ایک نئی برادری یعنی ’’وکلاء برادری ‘‘ کا اٹوٹ انگ بن جائے گا۔اسی طرح ’’اپٹما‘‘ یعنی آل پاکستان ٹیکسٹائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن بھی ایک ’’برادری ‘‘ہے اور یہی حال باقی ایسوسی ایشنز کا ہے کیونکہ ان کے مفادات ایک سے ہیں ۔ اک اور پہلو بھی قابل غور ہے کہ کبھی جسے تیلی، کمہار، جولاہا، موچی کہا جاتا تھا آج وہ آئل مل کا مالک ہے ۔جولاہا دستی کھڈی کی بجائے مشین کھڈی لگا لے تو ٹیکسٹائیلر ہے، موچی اگر ہاتھ سے کام کرنے کی بجائے جوتے بنانے کی انڈسٹری لگا لے تووہ فلاں انڈسٹریز کا معزز مالک ہے ،ماضی کا ’’کمہار‘‘ آج صنعت کار اور چیمبر آف انڈسٹریز کا رکن ہے اور سب کی اپنی اپنی لاجیز ہیں۔اور تو اور آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن چاہے تو یہ ’’برادری ‘‘ پورے ملک کو جیم اور چوک کر سکتی ہے ۔ان سب نئی برادریوں کے اپنے اپنے ’’مکھیا‘‘ اور ’’چودھری ‘‘ ہیں ۔ معاف کیجئے شوگر انڈسٹری کو تو میں بھول ہی گیا لیکن کہانی ہی بہت لمبی ہے .....کسے یاد رکھوں کسے بھول جائو ں۔

عرض کرنے کا مقصد صرف یہ کہ دنیا ہر طرف سے ،ہر رخ سے افقی عمودی غرضیکہ ہر انداز میں یکسر تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور تبدیلی کے اس عمل کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور ہم جیسے لوگ دو وقت کی روٹی کی دلدل میں ہی دھنسے رہے تو انجام ؟سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہمارے ہاں آج بھی ان ’’نابغوں‘‘ پر صفحے کالے کئے جاتے ہیں جو 2021ء میں مکمل طور پر IRRELEVANT ہو چکے ہیں منجنیقوں کا ہائیڈروجن بموں سے موازنہ؟ یہاں تو نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کو جدید علوم کے ناموں تک کا علم نہیں اور میں خود بھی ان میں شامل ہوں لیکن ذہنیت وہی شاعرانہ قسم کی ہے کہ ’’لڑا دے ممولے کو شہباز سے ‘‘ حالانکہ خالق نے ممولے کو شہباز سے لڑنے نہیں، اس کی خوراک بننے کیلئے ڈیزائن کیا ہے ۔

کبھی یورپ وغیرہ میں بھی جائنٹ فیملی سسٹم ہوتا تھا لیکن پھر عظیم صنعتی انقلاب نے بتدریج سب کچھ ادھیڑ کے رکھ دیا۔کبھی زندگی قریبی ترین خاندان، دور پار کے عزیز واقارب اور برادری کے گرد گھومتی تھی کیونکہ سارے کا سارا معاملہ ’’کوایگزیسٹنس یا نو ایگزیٹنس‘‘ کا تھا لیکن بتدریج سب کچھ تہس نہس ہو گیا ۔یہاں تک کہ ہم جیسے پیدل معاشرے بھی متاثر ہو کر آدھے تیتر آدھے بٹیر بن گئے ۔نہ مغربی نہ مشرقی بلکہ دونوں کا بدذائقہ، بد رنگ کاک ٹیلی ۔ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے اور خدا ہی ملانہ وصال صنم۔آج اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو ظواہر وعبادات کے حوالہ سے نماز، روزہ، حج ، عمرہ، زکٰوۃ

ماشاﷲ سب اسلامی لیکن باطن میں جھانکو اور عبادات کے مقابل عادات و معاملات کو دیکھو تو جھوٹ، رشوت، ملاوٹ، خوشامد، غیبت، منافقت، ریاکاری، کام چوری وغیرہ وغیرہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی ان پر فوکس کرے۔

یہاں تو حال یہ ہے کہ 73سال بعد بھی سیاپے کی نائینوں کی طرح انتخابی اصلاحات پر ماتم ہو رہا ہے حالانکہ جیسے ’’آئین ‘‘ کے درخت سے عوام کو کبھی نہ پھل ملا نہ پھول نہ چھائوں۔جتنی مرضی اصلاحات کر لو نتیجہ صفر کیونکہ احمق پہلی منزل تعمیر کئے بغیر دسویں منزل بنانا چاہتے ہیں۔اس فاتر العقل جمہوریت کا سوچو جو لوکل باڈیز کی بنیادوں کے بغیر ہوا میں جمہوری تاج محل تعمیر کرنا چاہتی ہے ۔ان بابوئوں سے تو 6-7سو سال پہلے کے منگ خاندان (چین) کی حکومت بہتر تھی جس نے صدیوں قبل آبادی کو "BAOJIA"نظام میں تقسیم کر دیا تھا۔ دس گھرانوں کو ملا کر ایک "JIA"قائم کیا جاتا، پھر دس "JIA"کو ملا کر ایک "BAO"تشکیل دیا جاتا۔مالیہ بھی "BAO"پر لاگو ہوتا جن کا فرض تھا کہ وہ ہر خاندان کی صورت حال کا جائزہ لے کر اس کے مالیہ کا تخمینہ لگائیں۔

یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے ۔مسخرے سوچے سمجھے بغیر اندھا دھند تجربات میں مصروف ہیں اور ہر تجربہ الٹا پڑ رہا ہے ۔یہ نئی دنیا بہت ہی نئی ہے اور ہر پل نئی ترین ہوتی جا رہی ہے جبکہ ہماری ’’راہنمائی ‘‘وہی پھٹے پرانے لوگ کر رہے ہیں جنہیں اس بات کا شعور ہی نہیں کہ وہ کس دنیا میں بس رہے ہیں ؟

اک ایسی دنیا جس میں ’’شمشیروسناں‘‘ سے لیکر طائوس ورباب تک کی تعریف (DEFINITION) ہی تبدیل ہو چکی ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)