آپ کا صفحہ: ایک ایک رنگ انگ...

May 13, 2021

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

خاص کیا، عام بھی نہیں

دل کا عارضہ اتنا بڑھا کہ علاج کے لیے لاہور منتقل ہونا پڑا، پھر بائی پاس ہوا، ساتھ دوسری بیماریاں بھی ہیں۔ آنکھوں کا بھی علاج ہورہا ہے، لیکن سنڈے میگزین سے تعلق قائم ودائم ہے۔ بڑا دل کرتا تھا خط لکھنے کو، مگر ہاتھ کی انگلیاں جواب دے جاتی تھیں۔ اب بھی ہمّت نہیں تھی، لیکن سلیم راجہ کے خط نے تو جیسے پتھر میں جان ڈال دی۔ راجہ صاحب نے دو جملوں میں جس انداز میں میری ستائش کی، اس کے لیے مَیں اُن کا ممنون ہوں۔ سنڈے میگزین کے نورتنوں میں مجھے بھی شامل کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یقین کریں، اُن کے دو جملوں نے میرے لیے تریاق کا کام کیا۔ خیر، تازہ ترین شمارے کے سرِورق پر براجمان ماڈل شکل و صُورت کے اعتبار سے تو کچھ خاص بلکہ عام بھی نہیں، پتا نہیں ماڈلنگ کا موقع کیسے مل گیا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔ باقی مضامین آہستہ آہستہ پڑھ رہا ہوں۔ مصطفیٰ کمال کا انٹرویو پسند آیا۔ محمود میاں تو سنڈے میگزین کی جان ہیں۔ ’’تذکرئہ صحابیاتؓ‘‘ بہت ہی شان دار انداز میں تحریر کررہے ہیں۔ سنڈے اسپشل میں امین اللہ فطرت نے بلوچستان کا دل چسپ سیاسی منظر نامہ پیش کیا۔ ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی نے سماعت کی دیکھ ریکھ پر بات کی، جو کہ بڑا اہم موضوع ہے۔ سلجھے ہوئے فن کار نوید رضا کی کچھ کہی اَن کہی باتیں اچھی لگیں۔ ایسے انٹرویوز ہوتے رہنے چاہئیں۔ ’’ملازم بخش‘‘ ایک اچھا افسانہ تھا، تحریر کے تسلسل نے بڑا لُطف دیا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اسماء خان کا خط اور آپ کا جواب دونوں خاصّے کی چیزیں تھیں۔ (ظہیر الدّین غوری، لاہور)

ج:اللہ تعالی آپ کو شفائے کاملہ دے اورجسمانی ہی نہیں، ذہنی صحت بھی برقرار رکھے۔

دِنوں بعد ملاقات

’’خواتین ایڈیشن‘‘ ہاتھوں میں ہے۔ بہترین بلکہ لاجواب ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے فیض یاب ہوتے دل و دماغ کو منور کرتے آگے بڑھے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ پر نظر پڑی، واہ کیا بات ہے۔ ’’ہر اِک کردار میں رکھا گیا غم خوار عورت کو…‘‘، بہت بڑھیا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس کے صفحے پر گُردوں سے متعلق بہت مفید، قیمتی معلومات فراہم کی گئیں۔ ’’گفتگو‘‘ میں سلمیٰ اعوان سے ملاقات شان دار رہی۔ بہت ہی دل چسپ اور حقیقت پر مبنی باتیں تھیں اُن کی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ تو آنکھیں مَل مَل کے دیکھا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ تحریر نرجس ملک کی ہے۔ بہت دِنوں بعد ملاقات نصیب ہوئی۔ ایک ہی نظر میں پوری تحریر پڑھ ڈالی۔ قسم سے لُطف آگیا، جادو ہے، آپ کے قلم میں جادو۔ ؎ ذرا تم پیارسے کرنا کبھی سرشار عورت کو… ہائے ہائے کیا کہہ دیا بھئی۔ گوگل کے بارے میں کیا کہیں، اس کے بِنا تو سب ہی اُدھورے ہیں۔ پیارا گھر بہت اچھا جارہا ہے۔ ڈائجسٹ اورناقابلِ فراموش کا بھی جواب نہیں۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس)

ج: وہ کیا ہے ناں ’’ قدر کھودیتا ہے ہرروز کا آنا جانا‘‘ تو اب آپ لوگوں کو کم ازکم ہماری قدر تو ہوئی ناں!!

دائیں سے بائیں یا اوپر سے نیچے؟

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی پانچویں قسط میں حضرت امّ الفضل بنتِ حارث ؓکی شانِ اقدس سے متعلق خُوب صُورت نگارش پڑھنے کو ملی۔ سنڈے اسپیشل میں بلوچستان کا سیاسی منظر نامہ بیان کیا گیا۔ مصطفیٰ کمال کا انٹرویو مناسب تھا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر حفیظ عاطف کی بہرے پن سے متعلق معلوماتی تحریر کا جواب نہ تھا۔ اچھی بات چیت کی گئی۔ ’’ملازم بخش‘‘ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ اگلے شمارے میں سرچشمۂ ہدایت کی چھٹی قسط حضرت امّ ِسلیم بنت ملحانؓ سے متعلق تھی، کیا ہی عمدگی سے تحریر کی گئی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع خواتین کے دن کی اہمیت اُجاگر کررہی تھیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے بہت اہم مسئلہ اُجاگر کیا۔ انٹرویو کچھ خاص دل چسپ نہیں تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزا سوال کررہے تھے کہ ایف اے ٹی ایف کی تلوار کب تک لٹکتی رہے گی۔ پیارا گھر کے تینوں مضامین اچھے تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے افسانے مناسب تھے، مگر کرن وسیم کی نظم سمجھ نہیں آئی کہ یہ دائیں سے بائیں پڑھنی ہے یا اوپر سے نیچے۔ ( سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی،کراچی)

ج:دونوں طرح سے پڑھ کے دیکھ لیتے، ایک نظم ہی تھی ناں۔ خود آپ کے ہینڈ رائٹنگ کا یہ حال ہے کہ بارہا الٹ پلٹ کے بھی سمجھ نہیں آتا کہ خط سیدھا کدھر سے ہے اور اُلٹا کدھر سے۔ حاشیے کاتو آپ کےیہاں سِرے سے کوئی تصوّر ہی نہیں ہے۔ الفاظ بھی ایک دوسرے سے باقاعدہ دھینگا مشتی کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ خدارا اُن کے بیچ بچائو ہی کے لیے درمیان میں تھوڑی جگہ چھوڑ دیا کریں۔

2020ءکی چلتی گاڑی میں

لگتا ہے، آپ سے تحریری ملاقات ہوئے ایک زمانہ گزر گیا، وہ تحریری ربط، جو دل کے لیے وجۂ تازگی و نمی تھا، جنوری کے بعد مارچ تک قائم نہ ہوسکا، تو شگفتگی و رونق چہرے سے یوں غائب ہوئی کہ لگا، ہم نے کچھ کھو دیا ہے۔ وقت ٹھہر گیا، زندگی تھم گئی۔ گھر کے تانوں بانوں، کچن کو سنوارنے، خوش کرنے میں مصروفیت نے قدم روکے، تو کبھی کسی نہ کسی آواز نے خیالات کا شیرازہ ایسا بکھیرا کہ روتے ہوئے قلم کو اٹھا سکے، نہ ہی بہلا سکے، مگر جب وہ ہمیں اپنی تحریر کی دنیا میں بلاتے بلاتے تھک کرسونے لگا، تو لپک کر اٹھالیا کہ یہی تو ’’وجہِ زندگی ہے‘‘۔ مہینوں کے اوراق الٹائے، تو یاد آیا کہ سالِ نو ایڈیشن پر جو تبصرہ بھیجا تھا، شاید راہ کی بھول بھلّیوں میں کہیں گُم ہوگیا، بس اسی سوچ نے اسے دوبارہ لکھوا کر بھیجنے پر مجبور کیا، کیوں کہ خط کی اشاعت اور اس پر آپ کا جواب ہی تو ہمیں ہمّت، حوصلہ اور نئی راہیں متعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ آپ نے جس طرح 2020ءکی چلتی گاڑی میں ہاتھ پکڑ کر چڑھایا، بٹھایا اور اپنی فیملی کا حصّہ بنایا، اس کے لیے شکریہ کا لفظ تو بہت ہی چھوٹا اور معمولی ہے۔ بس، شُکرگزاری کےلیے بےاندازہ دعائیں ہیں۔ اللہ کرے، 2021ء کا سفر بھی آپ کی ہم راہی میں گزرے اور میگزین کی تاب ناکیاں، آپ کی ٹیم کی محنتوں سے اوجِ ثریا کو چُھولیں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ پر آپ کا تبصرہ دوسری بار دیکھ کر پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی مرحوم یاد آگئے۔ وہ ایک ایک خط کی4,4کاپیاں ارسال کرتے تھے۔ اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے۔ آپ کا تبصرہ تو کب کا شایع ہوچکا، بلکہ اس کے بعد بھی غالباً3,2 خط چَھپ گئے۔ اس لیے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اس نصف ملاقات میں کوئی وقفہ بھی آیا ہے۔ یوں بھی ہماری تو ہر ایک کے لیے یہی تاکید ہوتی ہے کہ جب تک ایک تحریر شایع نہ ہوجائے، دوسری نہ بھیجیں۔

شائقین کے تعاون کے بغیر

پاکستان کی صحافتی دنیا میں جنگ گروپ کی ایک بہترین، مخلصانہ اور دیانت دارانہ ساکھ قائم ہے، مگر بدلتے دَور، حالات اور انتظامات کی وجہ سے یہاں بھی کچھ ایسے نقائص پیدا ہوگئے ہیں، جو گروپ کی ساکھ خراب کررہے ہیں۔ مثلاً جنگ اردو پزل ایک اچھا، دل چسپ سلسلہ تھا، جو کافی عرصے سے بہتر انداز سے چل رہا تھا، مگر اب تو عجیب ہی حال ہے، ہر نمبر کے پزل کا خاکہ اور اشارے چھے چھے ماہ تک چلتے رہتے ہیں اور اگر صحیح حل کُھلتا بھی ہے، تو نامکمل شایع کیا جاتا ہے، پھر شائقین کو انعامات بھی رزلٹ کے مطابق ارسال نہیں کیے جاتے۔ ایسا لگتا ہے، جنگ پزل کے انچارج صاحب اس سلسلے کو شائقین کے تعاون کے بغیر ہی چلانا چاہتے ہیں۔ (محمّد یوسف سولنگی، ڈاک خانہ دربیلو، نوشہرو فیروز، سندھ)

ج:اگرچہ ’’جنگ پزل‘‘ کا ادارتی صفحات سے کوئی تعلق نہیں، لیکن چوں کہ شایع سنڈے میگزین میں ہوتا ہے، تو آپ کی تسلّی کے لیے خط شامل کرلیا گیا ہے۔ نیز، متعلقہ انچارج تک شکایت بھی پہنچا دی ہے۔ ویسے ہمارا ذاتی خیال ہے کہ موجودہ حکومت اور پھر کورونا نے مل کر مُلکی معیشت کا جو بیڑہ غرق کیا ہے، خصوصاً میڈیا انڈسٹری جس خطرناک بحران سےدوچار ہے، اِس سلسلے کو درپیش مسائل بھی اُسی کا شاخسانہ ہیں۔

لکھاری کی تلوار

قلم میں بہت طاقت ہے۔ اگر جنگجو کا ہتھیار تلوار ہے، تو لکھاری کی تلوار قلم ہے اور جنگ، سنڈے میگزین بھی قلم کے تلوار بازوں سے پوری طرح لیس ہو کرچہارسُو علم کےچراغ جلانےمیں مصروفِ عمل ہے۔ شان دار قلم کار، محمود میاں ’’تذکرۂ صحابیاتؓ‘‘ کی چھٹی قسط میں حضرت اُمّ سلیم بنتِ ملحانؓ سے متعلق رقم طراز نظر آئے، تو ریڈار قلم کی مالک، شفق رفیع نے سنڈے اسپیشل کے ذریعے یہ باور کروایا کہ خواتین صرف گھر ہی نہیں، مُلک بھی بہتر انداز میں چلا سکتی ہیں۔ ’’مضبوط خاندان، محفوظ عورت، مستحکم معاشرہ‘‘ کے تحت ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی تحریر لاجواب تھی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں امراضِ گُردہ کے ساتھ بہتر زندگی کی نوید لیے پروفیسر ڈاکٹر عبدالماجد رانا موجود تھے۔ ’’گفتگو‘‘ میں معروف سفرنامہ نگار، ناول نویس سلمٰی اعوان کی دل چسپ گفتگو سیدھی دل میں اُتری۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں اپنے نایاب قلم سے تتلیوں کے رنگ بکھیرے نرجس ملک نے، بہت خُوب بھئی۔ دنیا کی ہر ماں، بہن، بیٹی، بیوی کی خدمت میں پُرخلوص، چاہت بھرا سلامِ عقیدت۔ حالات و واقعات میں منور مرزا نےایف اے ٹی ایف سے متعلق چشم کُشا مضمون تحریرکیا،تو متفرق میں انوکھے موضوعات پر قلم کاری کرنے والے لکھاری، رائو محمّد شاہد اقبال نے اس بار ’’گوگل‘‘ کی کہانی الف سے ی تک بیان کرڈالی۔ پیارا گھر کے تینوں مضامین بھی جریدے کے گل دستے کو کچھ اور بھی خُوش نُما کرگئے۔ ناقابلِ فراموش کے دونوں واقعات سبق آموز تھے اور نئی کتابیں میں تبصرہ نگار منور راجپوت کے تبصرے کا تو کوئی مول ہی نہ تھا۔ جب کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا تاج سجا، اس بار عشرت جہاں کے سر، اُنہیں بہت بہت مبارک ہو۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

نرگس، شمیم آراء یاد آگئیں

شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر سروقد ماڈل براجمان تھی، تازہ گلاب تو نظر نہیں آیا۔ ہاں نرگس اور شمیم آراء یاد آگئیں۔ اشاعتِ خصوصی میں رئوف ظفر نے میاں عزیز احمد (ایزنک) کا تعارف بڑے اچھے انداز میں کروایا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں حضرت اُمّ ہانیؓ کے روح پرور حالات سے روشناس کروا رہے تھے۔ ’’فیچر‘‘میں منور راجپوت نے زندہ شوہروں کی بیوائوں کا نوحہ بیان کیا۔ واقعی یہ ظلم کی انتہا ہے کہ خود پردیس جا کر اپنی شریکِ حیات کو عُمر بھر انتظار کی سولی پر ٹانگ دیا جائے۔ عالمی افق میں منور مرزا چینی اداروں کے اجلاسوں کی رُوداد سنا رہے تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ایمن حسّان ڈائون سینڈروم کے عالمی یوم کی نسبت سے خصوصی مضمون لائیں، تو پروفیسر ڈاکٹر فضل وہاب ٹی بی کی روک تھام، علاج اور احتیاط سے آگاہ کرتے رہے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں نابغۂ روزگار افراد کے تذکروں سے عملی اقدامات کرنے والوں کو مہمیز ملتی ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں سیّد اطہر حسین نقوی نے بچّوں کی مثبت سرگرمیوں کی افادیت بیان کی۔ ابھرتی ہوئی اداکارہ رابعہ کلثوم کی باتیں مزے کی تھیں۔ نئی کتابوں پر منور راجپوت نے اچھوتے انداز سے ماہرانہ تبصرہ کیا، تو ڈائجسٹ میں کنول بہزاد کی ’’چنگاری‘‘ بھی خُوب بھڑکی۔ اور اب بات اپنے صفحے کی، جس کی ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز نازلی فیصل کے حصّے آیا۔ بہت خُوب بھئی۔ (شہزاد بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: نقش بندی شہزادہ معظم صاحب! لاکھ ’’عزت افزائی‘‘ کے باوجود آپ سرِورق کو جی بھر کے دیکھنےسےباز نہیں آتے اور تبصرہ بھی لازماً فرماتے ہیں۔ سلام ہے، آپ کی ثابت قدمی کو۔

ایک ایک رنگ انگ

ہمارے سنڈے میگزین کا یہ اعزاز ہے کہ اس میں سال کے چاروں موسموں کے ایک ایک رنگ انگ کو بہت ہی خُوبی و عُمدگی کے ساتھ کور کیا جاتا ہے۔ ہر اہم دن، موقع، تہوار جیسا اس جریدے کے ذریعے منایا جاتا ہے، خال ہی کسی میگزین میں دیکھا گیا ہے۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو، حسبِ معمول آغاز ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے کروں گا۔ جو سنڈے میگزین کے سر کا تاج، ماتھے کا جھومر اور گل دستے کا سب سے حسین پھول ہے کہ جس کی مہک دنیا کے کونے کونے میں محسوس کی جا رہی ہے۔ مَیں مُلک میں اور مُلک سے باہر ایسے بہت سے لوگوں سے واقف ہوں کہ جو میگزین میں چَھپنے والے سلسلوں کو بحفاظت فائلز میں محفوظ کر رہے ہیں۔ یہ دراصل قرونِ وسطٰی کے مسلمانوں کی وہ عظیم داستانیں ہیں، جنہیں بوڑھی نسل فراموش کر چُکی، جب کہ نوجوان تو ناموں سے بھی واقف نہیں، کُجا کہ اِن کی سیرت سے۔ اِن اَن مول سلسلوں نے میگزین کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ باری تعالیٰ تمہاری اور محمود میاں کی ان کاوشوں کو قبول فرمائے۔ فاروق اقدس نے یوسف رضا گیلانی کی جیت پر بھرپور تبصرہ کیا۔ شفق رفیع نے ڈاکٹر عبدالرّب کا انٹرویو بھی خُوب لیا۔ زندہ افراد کے انٹرویو ایک منفرد سلسلہ ہے، ورنہ تو ہم مرثیہ نگاری ہی کے قائل ہیں۔ ڈاکٹر معین الدّین عقیل نے ڈاکٹر سلمان شاہ جہاں پوری کی بائیو گرافی لکھی، مگر بات وہی ہے ’’تیری یاد آئی، تیرے جانے کے بعد…‘‘ سبز کچھوں پر جمشید بخاری نے اچھی تحقیق کی، تو نئی کتابیں میں اختر سعیدی کا تبصرہ بہترین تھا، مگر کتاب کی طباعت، مواد، کاغذ سمیت قیمت کےبارے میں ضرور رائے دیا کریں۔ اگلا شمارہ میرے سامنے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی چچا زاد، اُمّ ہانیؓ پر ایک خُوب صُورت نگارش پڑھنے کو ملی۔ مستند حوالہ جات کے اضافے نے مضمون میں چار چاند لگادیئے۔ 18مارچ کے جنگ میں وزارتِ مذہبی امور کا ایک نوٹی فیکیشن شایع ہوا ہے، جس میں سلوگن ’’کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تو بٹیا! تمہیں یاد ہوگا کہ 26 اپریل 2020 ءکو تم نے محمود میاں کا ایک مضمون ’’کورونا وائرس اور ہمارے رویّے‘‘ شایع کیا تھا، جس میں پہلی مرتبہ میاں جی نے اس نعرے پر شدید تنقید کی تھی اور اس کو غرور و تکبّر سے تشبیہ دیتے ہوئے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا، یہ وہ وقت تھا کہ جب جیو سمیت تمام الیکٹرانک میڈیا سے معصوم بچّوں تک سے’’ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘ کی گردان کروائی جا رہی تھی۔ مگر اُس وقت تم نے ہمّت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیو انتظامیہ کے بھی فیصلے کے برخلاف اس نعرے کی مخالفت میں مضمون شایع کیا، جو یقیناً جنگ اخبار کی آزاد اور غیر جانب دارانہ پالیسی کی کُھلی دلیل ہے۔ اور وہ کیا ہے کہ ؎ مَیں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند، ایسے صحافیوں کو سیلوٹ پیش کرنا چاہیے کہ بالآخر وزارتِ مذہبی امور کو مجبوراً اس نعرے پر پابندی لگانی ہی پڑی۔ منور راجپوت کا زندہ شوہروں کی بیوائوں پر فیچر بہترین تھا۔ ایک صاحب نے کراچی میں یادگار ِپاکستان کی ضرورت پر زور دیا، مگر یہ تو ویسی ہی بات ہے کہ لاہور والے مطالبہ کریں کہ حضرت قائداعظم کا ایک مقبرہ لاہور میں بھی ہو اور ایک مقبرہ زیارت میں اور ایک یادگار راستے میں بھی، جہاں ایمبولینس خراب ہوئی۔ حالاں کہ ان یادگاروں پر سال میں ایک مرتبہ پھول چڑھانے کے بجائے، اُن کے بتائے ہوئے مقاصد پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ( پروفیسر سیّد منصور علی خان، کراچی)

ج:جی سر! بہت اچھی طرح یاد ہے۔ جب ایسے بولڈ قدم اُٹھائے جاتے ہیں، تو ہر طرح کے فوائد و مُضرّات پیشِ نگاہ ہی ہوتے ہیں۔ ویسےاپنی انتظامیہ کا ہمیں کچھ خاص خوف نہیں تھا کہ اُنھیں تو دلیل سے قائل کیا جا ہی سکتا ہے، اصل مسئلہ تبدیلی سرکار کی سوشل میڈیا بریگیڈ اور نام نہاد لبرلز کا ہے کہ وہاں تو بات شروع ہی ڈائریکٹ گالی سے ہوتی ہے۔

گوشہ برقی خُطوط

ج :یہ جنگ، سنڈے میگزین کی تاریخ کا فضول ترین، مگر سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہے۔ جس کا اتنی بار جواب دیا جاچُکا ہے کہ اب تو اس سوال کے جواب میں قلم خود کار طریقے سے لکھنا شروع ہو جاتا ہے، تحریر ای میل کررہی ہیں، تو اردو اِن پیج فارمیٹ میں بھیجیں، ڈاک سے بھیجنا چاہیں، تو صفحے کے ایک طرف حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں، ہمارا پتا اسی صفحے پر موجود ہے۔

ج:افسوس کی بات تو ہمارےلیےہےکہ آپ نے ایڈیشن کا محض حصّہ اوّل پڑھ کر ایک رائے قائم کرلی، حالاں کہ ہمارے پچھلے متعدّد ایڈیشنز اور بعد کے بھی کئی ایڈیشنز میں جس طرح اِن فرنٹ لائن ورکرز کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا گیا، کسی اور جریدے میں شاید ہی کیا گیا ہو۔

ج:اسپورٹس کا الگ سے بڑا رنگین صفحہ ہفتہ وار آتا ہے، اس کے ہوتے ہوئے سنڈے میگزین میں صفحہ شروع نہیں کیا جاسکتا، پھر روزانہ اخبار میں بھی اسپورٹس لازماً شامل ہوتا ہے، تو اس مُنحنی سے سنڈے میگزین میں کسی نئے سلسلے کے آغاز کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔

ج:اپنے سوالات کے تسلّی بخش جوابات یقیناً آپ نے ملاحظہ کر لیے ہوں گے۔ کیوںکہ ہم نے محمود میاں سے جوابات لے کر براہِ راست آپ کی ای میل آئی ڈی ہی پر بھیج دیئے تھے۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk