سندھ امن کی دھرتی

May 27, 2021

مجھے اجازت دیجئے کہ آج میں یہ دعویٰ کروں کہ سندھ امن کی دھرتی فقط نام کی نہیں تھی۔ سندھ صدیوں سے قائم ہے،کسی تاریخ میں کبھی یہ ذکر آیا کہ فلاں دور میں سندھ میں فلاں حلقوں اور سندھ کے لوگوں میں نفرت کی آگ پھیلی اور خون خرابہ ہوا؟ سچی بات یہ ہے کہ جب تفصیلات سامنے آئیں گی تو سب کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سندھ واقعی امن کی دھرتی تھی اور ہے۔ ہم فی الحال اور ادوار کا ذکر نہیں کرتے فقط اس دور کا ذکر کرتے ہیں جب سندھ میں زیادہ تر مسلمان اور ہندو تھے۔ اسی طرح کراچی جو سندھ کا ایک مایہ ناز شہر تھا وہاں ہندوئوں اور مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں، پارسیوں، یہودیوں اور اینگلو انڈینز کی بھی اچھی خاصی تعداد رہتی تھی مگر اُس دور میںکسی مذہب کے درمیان فسادات نہیں ہوئے۔ سب کمیونٹیز انتہائی امن، پیار محبت اور بھائی چارے سے ایک ساتھ رہ رہے تھے جہاں تک سندھ کے اندر رہنے والے ہندوئوں اور مسلمانوں کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے کہ ان کے درمیان کوئی بڑا تضاد پیدا نہیں ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سارے سندھ میں ہندو اور مسلمان اکٹھے رہ رہے تھے، ہندوئوں اور مسلمانوں کے محلے بھی الگ الگ نہیں تھے اکثر محلوں میں ہندو اور مسلمان اکٹھے رہتے تھے، ان میں کبھی کوئی دوری نظر نہیں آئی، یہ بات کم دلچسپ نہیں کہ اگر ہندوئوں کی دیوالی آتی تھی تو ہندو جو کچھ پکاتے تھے اس میں سے مسلمانوں کے گھروں پر بھی پہنچاتے تھے، اسی طرح جب مسلمانوں کے اسلامی دن جیسا کہ عید وغیرہ آتی تھی تو مسلمان بھی جو پکاتے اس میں سے کچھ حصہ محلے کے ہندوئوں کو بھی بھیجتے تھے، نہ فقط اتنا بلکہ جب کسی مسلمان کی شادی ہوتی تھی تو اس میں ہندو بھی شرکت کرتے تھے، اسی طرح جب ہندوئوں کے شادی وغیرہ جیسے پروگرام ہوتے تو وہاں مسلمان پڑوسی کو بھی مدعو کیا جاتا۔ اگر کوئی مسلمان انتقال کرجاتا تو تعزیت کرنے والوں میں محلے کے ہندو بھی آتے تھے،اسی طرح اگر ایک ہندو انتقال کرجاتا تو محلے کے مسلمان بھی ان سے تعزیت کرتے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں مشکل سے کوئی تفرقہ ہوتا، میرا گائوں مٹیاری ہے، میں اس وقت مٹیاری ہائی اسکول میں پڑھ رہا تھا، کچھ اور ہندوجن میں دو بھائی ہیمنداس اور شنکر تھے بھی میرے ساتھ پڑھتے تھے،ہمارے گہرے روابط تھے،شنکر کو سائیکل چلانے کا بڑا شوق تھا، اسکول کے بعد وہ سائیکل کرائے پر لیکر چلاتا تھا،ایک دن حادثہ میں اس کی ٹانگ میں خاصہ زخم آیا،پہلے تو ڈاکٹر سے علاج کراتا رہا، بعد میں وہ کافی عرصہ گھر پر ہی رہا جہاں وہ ڈاکٹر کی دوائیں کھاتا تھا مگر ٹانگ کا زخم بجائے ٹھیک ہونے کے اور خراب ہوتا گیا،بعد میں اسے ڈرایا گیا کہ اس کی ٹانگ کاٹنا پڑے گی، میرا گائوں اہل اللہ لوگوں اور اولیائے کرام سے بہت مشہور تھا ان میں ایک اولیاء کا نام سخی ہاشم شاہ تھا جنہیں عرف عام میں سخی بادشاہ کہا جاتا تھا۔ سخی ہاشم شاہ کا مقبرہ تو تھا مگر وہ کافی وسیع تھا۔ شنکر ایک دن سخی بادشاہ کے مزار پر پہنچ گیا اور پھر وہیں رہا۔وہ دن رات درگاہ کی خدمت کرتا تھا اور گھر نہیں جاتا تھا۔اس کو یقین تھا کہ سخی بادشاہ کی درگاہ کی خدمت کرنے سے اس کی ٹانگ ٹھیک ہوجائے گی حالانکہ اس کا مذہب بدستور ہندو تھا ۔ اس کے والدین نے بھی شنکر کو اس بات سے نہیں روکا اور درگاہ تینوں وقت کا کھانا بھجواتے تھے اور ان کو بھی یقین تھا کہ اس خدمت کے نتیجے میں شنکر کی ٹانگ ٹھیک ہوجائے گی۔ شنکر کے والدین کی گائوں میں کافی عزت کی جاتی تھی وہ کپڑوں پر چھپائی کرتے تھے اور اجرکوں کو بھی رنگتے تھے۔ اسی دوران شنکر کے والدین نے محسوس کیا کہ ان کے ساتھ بیوپاری کی طرف سے درست سلوک نہیں کیا جارہا لہٰذا انہوں نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا۔

(جاری ہے)