پری بجٹ 2021 - 22: نیا چیلنج

May 31, 2021

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

تعمیراتی صنعت کودیا گیا ریلیف پیکج معیشت کی ترقی کے لیے درست فیصلہ ہے ،حکومت کو اس پیکج کی مدت میں توسیع کرنی چاہیے، تعمیراتی شعبے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی چھوٹ میں مزید 2 سال کی توسیع دی جائے جبکہ بجٹ 2021-22 میں تعمیراتی شعبے کے لیے فکس ٹیکس ریجیم کا نظام مستقل بنیاد پر نافذ کیا

محسن شیخانی
سابق چیئرمین، آباد

جائے، سیمنٹ،سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی مٹیریل کی قیمتوں کو کم از کم 3 سال کے لیے فکس کیا جائے، تعمیراتی منصوبوں کے لیے این او سی کی منظوری کے لیے آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے، اور تعمیرات کے حوالے سے تمام بائی لاز پورے ملک کے لیے یکساں کیے جائیں، پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو صنعتی ملک بنایا جائے۔بلڈرز اور ڈیولپرز کو صنعتی زونز بنانے کے لیے مراعات دی جائیں ۔ان صنعتی زونز میں ورکرز کو معیاری رہائش، صحت کی سہولتوں کے لیے اسپتال،اسکولز اور پارکس وغیرہ سمیت بنیادی سہولتیں میسر آسکیں گی

محسن شیخانی

آئی ایم ایف نے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 5.5 فیصد تک لانے کا ہدف دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال ریونیو وصولی کے ہدف میں 26 فیصد ریکارڈ اضافہ رکھا ہے اور رواں مالی سال کے 4963 ارب روپے ٹیکس وصولی کو بڑھاکر 6233 ارب روپے کا ہدف دیا ہے جو غیر حقیقی لگتا ہے۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
سابق سینئر نائب صدر ،
ایف پی سی سی آئی

آئی ایم ایف معاہدے کی رو سے حکومت کو بجلی کی قیمتوں میں 7 فیصد اضافہ اور 2021-22ء میں 6 مرحلوں میں 934 ارب روپے اضافی وصول کرنا ہے جو صارفین پر ناقابل برداشت بوجھ ثابت ہوگا،حکومت نے 140 ارب روپے کی ٹیکس مراعات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ختم کردیں۔

نئے وزیر خزانہ کو درپیش چیلنجز میں بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے ہیں جو 115 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں،نظام میں اِن ڈائریکٹ ٹیکسز 60 فیصد اور ڈائریکٹ ٹیکسز 40 فیصد ہیں، ٹیکس نظام میں ریفارمز کے ذریعے ان ڈائریکٹ ٹیکسز کو کم کرکے ڈائریکٹ ٹیکسز کو بڑھایا جائے

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

محمد جاوید بلوانی
چیف کوآرڈی نیٹر، پاکستان
ہوزری مینو فیکچررزاینڈ
ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن

پانچ زیروریٹنگ سیکٹرز کیلئے نو پے منٹ نو ریفنڈ سیلز ٹیکس نظام کو بحال کیاجائے،سیلز ٹیکس کی موجودہ 17فیصد شرح کو کم کر کے 5فیصد کر دیا جائے،وہ تمام کاروبار جن میں کمرشل اور صنعتی بجلی کے کنکشنز موجود ہیں مگر وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انھیں حکومت فوری طور پر ٹیکس نیٹ میں لائے اور انھیں رجسٹر کر کے فائلر بنائے،ٹیکسٹائل انڈسٹری کو وفاقی مضمون قرار دیا جائے اور اس کے تمام معاملات وفاق ون ونڈو سسٹم کے تحت طے کرے،ملک بھر میں پانی کے نرخ انڈسٹریز کیلئے یکساں ہونے چاہئے

محمد جاوید بلوانی

جون کے دوسرے میں نیا وفاقی بجٹ پیش کیا جائے گا۔ پاکستان کی کرونا زدہ معاشی صورت حال میں یہ ایک چیلنج سے کم نہیں۔ خاص کر جب گزشتہ برس معاشی شرح نمو منفی دو فی صد ریکارڈ ہوئی ہو۔ پاکستان کو اس وقت ٹیکس وصولیوں میں مسائل کا سامنا ہے۔ بجٹ خسارہ، ریکارڈ سطح پر دیکھا جارہا ہے، روپے کی قدر ، برآمدات اور تجارتی توازن کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ایسی صورت حال میں بجٹ کیسا ہونا چاہیے۔

یہ جاننے کے لیے پری بجٹ جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میںفیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق سینئر نائب صدر ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ، آباد کے سابق چیئرمین محسن شیخانی اور چیف کوآرڈی نیٹر، پاکستان ہوزری مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن محمد جاوید بلوانی نے اظہار خیال کیا۔جنگ کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

محسن شیخانی

سابق چیئرمین، آباد

کورونا کی وبا کے باعث معیشت کوپیش آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وفاقی بجٹ 2021-22 میں ٹیکسوں کی شرح میں کمی کے ساتھ ساتھ تعمیرات سمیت دیگر صنعتوں کو ریلیف پیکجز کا اعلان کیا جائے۔ محسن شیخانی نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا ہے کہ بجٹ 2021-22 میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا جو خوش آئند ہے تاہم کورونا سے متاثر صنعتوں کے لیے یہ کافی نہیں ہے ۔ہماری تجویز ہے کہ حکومت ٹیکسوں کی شرح میں بھی کمی کا اعلان کرے ۔ہم بھی چاہتے ہیں کہ ملکی ریونیو میں اضافہ ہو تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے نہ کہ موجودہ ٹیکس گذاروں پر اضافی بوجھ ڈالا جائے۔

پاکستان کی معیشت میں زراعت کے بعد روزگار فراہم کرنے والا دوسرابڑا شعبہ تعمیراتی صنعت ہے جو مجموعی طور پر 35 فیصد روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح تعمیراتی صنعت روزگار کی فراہمی اور معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انھوںنے کہا کہ وزیراعظم عمران خان یہ راز جانتے ہوئے کہ معیشت کی ترقی تعمیراتی صنعت میں مضمر ہے تو انھوں نے پاکستان کی معیشت کو تعمیراتی صنعت کے ذریعے ترقی دینے کے لیے ریلیف پیکج (ایمنسٹی اسکیم) کا اعلان کیا جس کے تحت تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی 30 جون2021 تک چھوٹ جبکہ 31 دسمبر 2021 تک فکس ٹیکس ریجیم کی سہولت دی گئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائنٹنٹس آف پاکستان (آئی کیپ) کے ماڈل فیڈرل بجٹ 2021-22 میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیراتی صنعت کودیا گیا ریلیف پیکج معیشت کی ترقی کے لیے درست فیصلہ ہے اور کہا ہے کہ حکومت کو اس پیکج کی مدت میں توسیع کرنی چاہیے ۔

محسن شیخانی نے کہا ہے کہ تعمیراتی پیکج کے تحت صرف 20 فیصد اضافہ ہوا ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ بقیہ 80 فیصد کام مکمل کرنے کے لیے اس پیکج کی مدت میں توسیع ناگزیر ہوگئی ہے۔انھوں نے کہا کہ تعمیراتی پیکج کے اعلان کے بعد ملک میں تعمیراتی سرگرمیاں بلند ترین سطح پر پہنچیں۔

پاکستان کی تاریخ میں سیمنٹ اور سریا کی پیداوار اور ٹائلز سمیت دیگر تعمیراتی مصنوعات کی فروخت پاکستانی تاریخ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس کے مثبت اثرات جاری مالی سال کے جی ڈی گروتھ میں حیران کن اضافے سے ظاہر ہوئے ہیں۔ محسن شیخانی نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ تعمیراتی شعبے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی چھوٹ میں مزید 2 سال کی توسیع دی جائے جبکہ بجٹ 2021-22 میں تعمیراتی شعبے کے لیے فکس ٹیکس ریجیم کا نظام مستقل بنیاد پر نافذ کیا جائے۔

تعمیراتی صنعت کو دیا گیا ریلیف پیکج درحقیقت عوامی پیکج ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پیکج کے حقیقی بینیفشری عوام ہیں اس پیکج کے ذریعے کم آمدنی والے طبقے کا اپنا گھر کا خواب پورا ہو سکتا ہے ،اس پیکج سے بلڈرز اور ڈیولپرز کوئی استفادہ حاصل نہیں کرسکتے تاہم آباد کا لوکاسٹ ہائوسنگ اسکیم کا ویژن تھا ۔اس پیکج سے آباد کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی میں کردار ادا کرسکتی ہے۔

سیمنٹ اور سریا تعمیرات کا اہم جز ہے۔ تعمیراتی شعبے کے لیے مراعاتی پیکج کے اعلان کے بعد تعمیراتی سرگرمیاں کو فروغ ملا جس سے سیمنٹ اور سریا کے مینوفیکچررز کے کارٹیل نے سریا اور سیمنٹ میں مسلسل اضافہ کرنا شروع کردیا ہے جس سے ایفورڈایبل ہائوسنگ اسکیم اور نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنا مشکل ہوگیا ہے۔محسن شیخانی نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ سیمنٹ اور سریا مینوفیکچررز کارٹیل کو قانون کے دائرے میں لائیں بصورت دیگر سیمنٹ اور سریا کی درآمد پر ریگولر ڈیوٹی اور ایڈیشنل ریگولر ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ سریا اور سیمنٹ کی قیمتوں میں استحکام آسکے۔

کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے۔محسن شیخانی نے کہا کہ وزیراعظم کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیمنٹ،سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی مٹیریل کی قیمتوں کو کم از کم 3 سال کے لیے فکس کیا جائے تاکہ تعمیراتی منصوبوں کی تعمیر کے دوران مذکورہ مٹیریل کی قیمتوں میں اضافے سے ان منصوبوں کو نقصان سے بچایا جاسکے دوسری صورت میں بجٹ 2021-22 میںسیمنٹ ،سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی مٹیریل پر 3 سال کے لیے مقامی ٹیکسوں سمیت تمام ٹیکسز ختم کیے جائیں۔انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کے لیے سیمنٹ کی قیمتوں کو سیمنٹ کی برآمدی قیمتوں کے مساوی کیا جائے۔

تعمیراتی منصوبوں کے لیے این او سی کی منظوری کے لیے آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے اور تعمیرات کے حوالے سے تمام بائی لاز پورے ملک کے لیے یکساں کیے جائیں۔ تعمیراتی منصوبے کے لیے بلڈرز کو درجنوں متعلقہ سرکاری محکموں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور این او سی کے لیے بھی سال سے زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام نافذ کرکے 15 روز میں تعمیراتی منصوبے کے لیے این او سی جاری کی جانی چاہیے۔

قانونی طور پر رہائشی منصوبوں کو منظوری میں بڑے پیمانے پر رکائوٹو ں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے غیر قانونی تعمیرات کا اضافہ ہورہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کراچی کے 54 فیصد رہائشی کچی آبادیوں میں رہائش پزیر ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ قانونی تعمیرات میں ہونے والی رکائوٹوں کو ختم کیا جائے تاکہ شہریوں کو معیاری رہائشی سہولت میسراور کچی آبادیوں میں کمی آسکے۔

پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو صنعتی ملک بنایا جائے۔بلڈرز اور ڈیولپرز کو صنعتی زونز بنانے کے لیے مراعات دی جائیں ۔ان صنعتی زونز میں ورکرز کو معیاری رہائش، صحت کی سہولتوں کے لیے اسپتال،اسکولز اور پارکس وغیرہ سمیت بنیادی سہولتیں میسر آسکیں۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

سابق سینئر نائب صدر ،فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری

وزیر خزانہ شوکت ترین آنے والے بجٹ میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ 7.1 فیصد خسارے والا بجٹ پیش کریں گے جبکہ آئی ایم ایف نے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 5.5 فیصد تک لانے کا ہدف دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال ریونیو وصولی کے ہدف میں 26 فیصد ریکارڈ اضافہ رکھا ہے اور رواں مالی سال کے 4963 ارب روپے ٹیکس وصولی کو بڑھاکر 6233 ارب روپے کا ہدف دیا ہے جو غیر حقیقی لگتا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کی رو سے حکومت کو بجلی کی قیمتوں میں 7 فیصد اضافہ اور 2021-22ء میں 6 مرحلوں میں 934 ارب روپے اضافی وصول کرنا ہے جو صارفین پر ناقابل برداشت بوجھ ثابت ہوگا۔

آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت نے 140 ارب روپے کی ٹیکس مراعات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ختم کردیں۔ نئے وزیر خزانہ کو درپیش چیلنجز میں بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے ہیں جو 115 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور حکومت کو 2020-21ء میں 25 ارب ڈالر اور 2021-22ء میں 23 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنے کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر کو بھی مستحکم رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ نئے وزیر خزانہ کو 4200 ارب روپے کے ریکارڈ گردشی قرضوں اور خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے اور واپڈا ہیں جن کی نجکاری کرنے کے بجائے حکومت نے ان اداروں پر گزشتہ 2 سالوں میں قومی خزانے سے ایک ہزار ارب روپے جھونک دیئے۔ حکومت نے ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ایکسپورٹرز کو جون 2021 تک بجلی اور گیس کے نرخوں کا رعایتی پیکیج دیا تھا جس سے ایکسپورٹس میں اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن آئی ایم ایف کو یہ مراعاتی پیکیج قبول نہیں جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل پالیسی کا اعلان رکا ہوا ہے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے آئندہ برسوں میں 6 سے 7 فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنا ہوگی۔ ان کے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں ترقیاتی کاموں (PSDP) پر بہت کم خرچ کیا۔ اس کے علاوہ وہ تیز معاشی گروتھ کیلئے سی پیک کا پورا استعمال کریں گے جس میں اسپیشل اکنامک زونز میں چین سے صنعتوں کی منتقلی شامل ہے۔ میں نئے وزیر خزانہ کی ایکسپورٹ گروتھ کے ذریعے بلند جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنے کی حکمت عملی سے اتفاق کرتا ہوں۔

وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے اشارہ دیا ہے کہ اُن کی وزارت خام مال کے ٹیرف میں کمی کے ساتھ ایکسپورٹس میں تنوع، امپورٹ مصنوعات کے متبادل، انجینئرنگ گڈز اور ویلیو ایڈیشن کیلئے مراعاتی پالیسی لارہے ہیں جس سے ایکسپورٹس میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستان، افغانستان، ازبکستان، روس اور وسط ایشیائی ممالک میں ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے آسان مارکیٹ رسائی کیلئے معاہدے کرنے والا ہے جس سے علاقائی تجارت میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان کے مختلف چیمبرز نے حکومت کو کورونا وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی کیلئے مختلف تجاویز پیش کی ہیں جس میں 17 فیصد سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس میں کمی شامل ہے جبکہ امریکن بزنس کونسل نے غیر ملکی پاکستانیوں کو پاکستان میں آئی ٹی اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی ترغیب کیلئے پرکشش مراعات دینے کی سفارش کی ہے۔

ممبر اِن لینڈ ریونیو ڈاکٹر محمد اشفاق احمد جو ایک ایماندار اور محنتی پروفیشنل ہیں اور ایف بی آر کے ریونیو وصولی کے ذمہ دار ہیں، کو میں نے تجویز دی ہے کہ ملکی ٹیکس نظام میں اِن ڈائریکٹ ٹیکسز 60 فیصد اور ڈائریکٹ ٹیکسز 40 فیصد ہیں، ٹیکس نظام میں ریفارمز کے ذریعے ان ڈائریکٹ ٹیکسز کو کم کرکے ڈائریکٹ ٹیکسز کو بڑھایا جائے جیسا کہ خطے کے دیگر ممالک میں کیا جارہا ہے۔

محمد جاوید بلوانی

چیف کوآرڈی نیٹر، پاکستان ہوزری مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن

مالی سال 2020 میں معیشت ، صنعت و تجارت کو چیلنجز اور آزمائشوں کا سامنا رہا۔کورونا وباء سب سے بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی جس سے دنیا ابھی تک نبرد آزما ہے جس نے پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشت پر مضمر اثرات چھوڑے ہیں۔کورونا وباء کے ظاہر ہونے سے پہلے پاکستانی معیشت ترقی کی طرف مائل تھی مگر کورونا کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہو گئیں۔

اس کے اثرات ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری پر بھی ظاہر ہوئے ہیں۔سال 2020کے اواخر میں صنعتی وتجارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی تاہم سال 2021میں کووڈ کی دوسری اور تیسری لہر آئی جس کی وجہ سے معاملات زندگی اور کاروبار دوبارہ متاثر ہوا۔اس تناظر میں حالات تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت کاروبار کو سنبھالا دینے کے لیے سال 2021-22میں بجٹ اور ٹیکس معاملات میں ریلیف دے تاکہ کاروبار چل سکیں، مزید ملازمتیں میسر آئیں اور حکومت کیلئے بھی ریونیو جنریٹ ہو سکے۔

حسب سابق پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے وفاقی بجٹ 2020-2021کیلئے تجاویز اور سفارشات تیار کی ہیں جس میں سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، کسٹمزکے علاوہ ٹیکس بیس کو بڑھانے، کاروبار و صنعت کو چلانے کی لاگت میں کمی کے حوالے سے حکومت کو سفارشات اور تجاویز ارسال کی ہیں۔

پاکستان ہوزری مینو فیکچرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے جو بجٹ تجاویز حکومت کو پیش کی ہیں ان میں سرفہرست مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایس آر او 1125کے تحت پانچ زیروریٹنگ سیکٹرز کیلئے نو پے منٹ نو ریفنڈ سیلز ٹیکس نظام کو بحال کیاجائے۔ ایکسپورٹرز نے حکومت کو باور کرایا کہ ایکسپورٹرز پر مالی دباؤ کم کرنے کیلئے بجٹ میں ایس آر او 1125 کے تحت زیرو ریٹننگ کی دوبارہ بحالی ناگزیر ہے۔ ایکسپورٹ کے موجودہ حجم میں اضافہ کے لئے ایکسپورٹرز کے لیکویڈیٹی مسائل کو حل کرنا انتہائی ضروری ہے۔

عالمی معاشی سست روی اور کورونا وباء کی وجہ سے پاکستانی معیشت کے ساتھ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی مشکل حالات کا سامنا ہے۔لہٰذا حکومت ایکسپورٹ کے فروغ و ترقی کیلئے سنگ میل عبور کرنے کی خاطر بجٹ میں ایکسپورٹ دوست پالیسی اور سہولتی اقدامات کا اعلان کرے۔اگر نو پے منٹ نو ریفنڈ سیلز ٹیکس نظام کو بحالی فی الوقت ممکن نہیں توسیلز ٹیکس کی موجودہ 17فیصد شرح کو کم کر کے 5فیصد کر دیا جائے۔

واضح رہے کہ حکومت نے وفاقی بجٹ 2019-20میں ایس آر او 1125کو منسوخ کر کے 17فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ کر دیا تھا۔سیلزٹیکس کے نفاذ اور لیکویڈٹی مسائل کی وجہ سے سال2019-20میں ایکسپورٹرز کی ایک بڑی تعداد اپنا کاروبارمالی مسائل کی وجہ سے بند کرنے پر مجبور ہو گئے اور اس طرح ایکسپورٹرز کی تعداد بتدریج کم ہوتی گئی اور انہی وجوہات کی بنا پر نئے ایکسپورٹرز بھی آنا بند ہو گئے۔

وہ تمام کاروبار جن میں کمرشل اور صنعتی بجلی کے کنکشنز موجود ہیں مگر وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انھیں حکومت فوری طور پر ٹیکس نیٹ میں لائے اور انھیں رجسٹر کر کے فائلر بنائے۔وہ تمام کمرشل اور انڈسٹرئیل یوٹیلیٹی صارفین جن کے ماہانہ بل پچاس ہزار روپے سے زائد آتے ہیں ان کے لئے نیشنل ٹیکس نمبر لازمی قرار دیا جائے اور انھیں فائلر بنایا جائے۔علاوہ ازیں تمام کمرشل اینڈ انڈسٹرئیل یوٹیلیٹی کنکشنز نیشنل ٹیکس نمبر کے بغیر جاری نہ کئے جائیں۔ اس تجویز پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے کیونکہ کمرشل اور انڈسٹرئیل صارفین تیزی کے ساتھ سولر انرجی سلوشنز پر منتقل ہو رہے ہیں۔

ان کے سولر انرجی پر شفٹ ہونے کے بعد ایف بی آر عملہ کو ان کی نشاہدہی میں دشواری ہو گی۔ اس تجویز پر فوری عمل درآمد سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں فوری نتائج ملیں گے۔ نیپرا انڈسٹری رپورٹ 2019اور ایف بی آر کی ٹیکس ڈائریکٹری ڈیٹا2018کے مطابق کمرشل اور انڈسٹرئیل صارفین کی تعداد ٹیکس نیٹ میںموجود ٹیکس دھندگان سے ذیادہ ہے۔ لہٰذا ان تمام کمرشل اور انڈسٹرئیل یوٹیلیٹی استعمال کرنے والے صارفین جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انھیں ملک کے مفاد میں ٹیکس نیٹ میں لانا ناگزیر ہے۔ایکسپورٹرز انکم ٹیکس آرڈینینس 2001کی شق 154(3B) کے تحت فائنل ٹیکس ریجم میں آتے ہیں۔

ایکسپورٹرز کو ودہولڈنگ ٹیکس کی ادائیگی کی چھوٹ دی جائے اور اس ضمن میں انھیں Exemption Certificateجاری کئے جائیں۔ اس طرح ایف بی آر کے عملہ کا کام بھی کم ہو جائے گا اور وہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں ذیادہ وقت صرف کر سکیں گے۔ ودہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح1.0فیصد ہے جسے کم کر کے 0.50فیصد کیاجائے۔حکومت نے ایکسپورٹ اورینٹیڈ یونٹس کیلئے ایس آر او 327جاری کیا تھا جس کے تحت ایکسپورٹ انڈسٹریز کو ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کی طرز پر مقامی سطح پر ان پٹ گڈز کی خریداری پر ٹیکس کی ادائیگی کی چھوٹ دی تھی۔

رجسٹرڈ ایکسپورٹ اورینٹیڈانڈسٹریز اپنی سالانہ پیداوارکا80فیصد ایکسپورٹ کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ایف بی آر نے ایس آر او 747کے تحت2019میں مقامی سطح پر ان پٹ گڈز کی خریداری پر ٹیکس کی ادائیگی کی چھوٹ ختم کر دی۔ایکسپورٹرز کا مطالبہ ہے کہ ایس آر او 747کو منسوخ کیا جائے اور ایکسپورٹ اورینٹیڈ یونٹس کیلئے ایس آر او 327کے تحت ان پٹ گڈز کی خریداری پر ٹیکس کی ادائیگی کی چھوٹ بحال کی جائے اور ساتھ ہی یوٹیلیٹز پر ٹیکس کی ادائیگی پر بھی چھوٹ دی جائے ۔

ڈیوٹی اینڈ ٹیکس ریمیشن فار ایکسپورٹرز (ڈی ٹی آر ای)۔نٹ ویئر گارمنٹس کی تیاری میں نٹ ویئر ایکسپورٹرز یارن خریدتے اورنیٹنگ کرواتے ہیں جبکہ ریڈی میڈ گارمنٹس میں تیار فیبرک دستیاب ہوتا ہے۔ اسٹیچنگ یونٹس جو مینوفیکچرر کم ایکسپورٹرز ہیںمگر کمپوزٹ یونٹس نہیں وہ ایکسپورٹ پروڈکشن کے مختلف کام دیگر وینڈرز سے کرواتے ہیںجس کی ڈی ٹی آر ای اسکیم میں اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح خام مال اور یارن کی امپورٹ کی بھی ڈی ٹی آر ای اسکیم میں صرف کمپوزٹ یونٹس کو اجازت ہے۔

ایسوسی ایشن نے تجویز دی ہے کہ اسٹیجنگ یونٹس یا پھر ٹیکسٹائل ویلیوچین کے دائرہ کار میں آنے والا کوئی بھی یونٹ خواہ وہ نیٹنگ، ڈائنگ، ویوینگ یا پرنٹنگ ہو اور وہ بحیثیت مینوفیکچرر کم ایکسپورٹر منسٹری آف ٹیکسٹائل کے ساتھ رجسٹرڈ ہے اسے ڈی ٹی آر ای اسکیم کا مکمل فائدہ اٹھانے کا اہل قرار دیا جائے۔اسٹیچنگ یونٹس کو ڈی ٹی آر ای اسکیم کے تحت یارن امپورٹ کرنے کی مکمل اجازت اور اہلیت دی جائے کیونکہ اس نے یارن سے نیڈیڈ فیبرک تیار کرکے ویلیو ایڈیشن کرنی ہوتی ہے۔

مزکورہ رجسٹرڈ یونٹس کا مکمل ڈیٹا منسٹری آف ٹیکسٹائل میں دستیاب ہوتا ہے اسلئے ڈی ٹی آر ای سہولت کے غلط استعمال کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔اس تجویز پر عمل درآمد سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرزکے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور وہ اپنی ایکسپورٹس میں مزید اضافہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے اورنئے ایکسپورٹرز بھی بنیں گے۔

ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر کا حکومت سے مطالبہ رہا ہے کہ کاٹن یارن خام مال کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا اس کی امپورٹ ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر کیلئے ڈیوٹی فری ہونی چاہئے۔ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے مطالبے پر حکومت نے کاٹن یارن کی امپورٹ پر 5فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی ۔

مزید براںحکومت نے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے مطالبہ پر 30 جون2021تک کاٹن یارن کی امپورٹ پر سے 5فیصد کسٹمز ڈیوٹی کو بھی ختم کر دیا۔جس کا مقصد ویلیوایڈیڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کو امسال ملک میں کاٹن کے بحران اور کاٹن یارن کی عدم دستیابی کی وجہ سے سہولت فراہم کرناہے۔

ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے مطابق ڈیوٹی فری کاٹن یارن کی صرف 30جون2021 تک اجازت دینے سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو جزوی ریلیف ملے گا کیونکہ کنٹینرز اور مال بردار بحری جہازوں کی نقل و حمل میں تعطل اور عدم دستیابی کی وجہ سے کاٹن یارن کی شپمنٹس طویل تاخیر کا شکار ہیں۔کاٹن کی ملک میں سالانہ مجموعی کھپت تقریباً 14ملین بیلز ہے ۔

جبکہ گزشتہ سال کاٹن کی پیداوار میں ریکارڈ تاریخی کمی واقع ہوئی اور تقریباً 5.64ملین بیلز کی محدود پیداوار ہوئی جس کے باعث ملک میں کاٹن کا شدید بحران پیدا ہوا جس کی وجہ سے کاٹن یارن کے شدید بحران نے بھی جنم لیا جس نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کیا۔ملک کی مجموعی کھپت کو پورا کرنے کیلئے مقامی سطح پر کاٹن اور کاٹن یارن کی دستیابی کو فوقیت دی جانی چاہیے مگر اس کے باوجود کاٹن اور کاٹن یارن ایکسپورٹ بھی ہوتی ہے۔

لہٰذا حکومت آنے والے سال میں کاٹن پیداوار کے اپنے تعین شدہ ہدف 10.5ملین کاٹن بیلز کو اگر حاصل کر لیتی ہے تو کاٹن یارن کی امپورٹ پر 5فیصد کسٹمز ڈیوٹی لگائے بصورت دیگر نہ لگائے اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر کو ڈیوٹی فری کاٹن یارن امپورٹ کرنے کی اجازت دے۔کاٹن یارن ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹریز کیلئے خام مال کا درجہ رکھتی ہے لہٰذاکوالٹی کاٹن یارن کا مناسب قیمت اور مطلوبہ مقدار میں ایکسپورٹ انڈسٹریز کو دستیاب ہونا بروقت ایکسپورٹس کیلئے ا ہم اور ضروری ہے۔

ایکسپورٹس گڈز کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل ڈسپرز ڈائز، ویٹ اینڈ ری ایکٹو ڈائز، ایسیٹیک ایسڈ،پاوڈر و لیکویڈ پگمنٹس اور دیگر کیمیکلز کی کسٹمز ڈیوٹی میں کمی کرتے ہوئے 5فیصد کر دیا جائے۔ اسی طرح نیٹنگ مشین آئل اور نیڈل سنکر آئل کی ڈیوٹی کم کر کے 3 فیصد کی جائے ۔اس کے علاوہ ٹیکسٹائل مشینری کی امپورٹ، سنکر، نیڈل اور دیگر آرٹیکلز ، سلائی مشین نیڈل اور مشینوں کے پارٹس اورacessories پرسے سیلز ٹیکس کو ختم کیا جائے۔

ایسوی ایشن کی اہم بجٹ تجاویز میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایکسپورٹ پیکج کے تحت ڈیوٹی ڈرابیک آن ٹیکسس کی مد میں ترغیبات کو پرانی سطح پر بحال کی جائے۔اس وقت حکومت ڈیوٹی ڈرابیک آن ٹیکسس کی مد میں گارمنٹس پر 4فیصد، ہوم ٹیکسٹائل پر3فیصد اور ڈائیڈ فیبرک کی ایکسپورٹ پر 2فیصد کی شرح سے ڈرابیک دے رہی ہے۔اس ضمن میں 50فیصد ادائیگی شپمنٹ کی بنیاد پراور بقیہ 50فیصد ایکسپورٹ انکریمنٹ سے مشروط ہے۔

ماضی میں حکومت نے 23جنوری 2017کے نوٹیفکیشن کے مطابق گارمنٹس پر 7فیصد، ہوم ٹیکسٹائل پر6فیصد، ڈائیڈ فیبرک کی ایکسپورٹ پر 5فیصد اور یارن کی ایکسپورٹ پر4فیصدکی شرح سے ڈرابیک کی ادائیگیاں کی تھیں۔ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ2020-21اور آنے والے سالوں میں ڈیوٹی ڈرابیک آن ٹیکسس کی مد میں 23جنوری 2017کے نوٹیفکیشن کے مطابق گارمنٹس پر 7فیصد، ہوم ٹیکسٹائل پر6فیصداور ڈائیڈ فیبرک کی ایکسپورٹ پر 5فیصد ڈرابیک دیا جائے۔

کاٹن یارن کی ایکسپورٹ پر ڈیوٹی ڈرابیک کی ادائیگی حوصلہ افزاء نہیں کیونکہ اس کا فائدہ پاکستانی ایکسپورٹرز کے خطے میں competitorsکو ملتا ہے جنھیں سستی کاٹن یارن ملتی ہے۔لہٰذا کاٹن یارن کی ایکسپورٹ پر ڈیوٹی ڈرابیک آن ٹیکسس نہیں ہونا چاہئے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں مقامی کھپت کو پورا کرنے کی خاطر مقامی منڈیوں میں کاٹن یارن کی دستیابی کو یقینی بنائے۔

حکومت نے ماضی میںٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ اسکیم متعارف کرائی جس کے تحت انڈسٹریز کو بیلنسنگ، ماڈرن آئیزیشن اینڈ ریپلیسمنٹ کی سہولت اسمال اینڈ میڈیم سائز انڈسٹریز کو فراہم کی گئی تا کہ اپنی انڈسٹری کو توسیع دے سکیں۔مزکورہ اسکیم کی معیاد 30جون 2019کو ختم ہو گئی۔ اسمال اینڈ میڈیم سائز انڈسٹریزکو مزید سرمایہ کاری کی ترغیب دلانے کیلئے اہم ہے کہ حکومت مزکورہ اسکیم کو 2021اور آئندہ کیلئے جاری رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری کو وفاقی مضمون قرار دیا جائے اور اس کے تمام معاملات وفاق ون ونڈو سسٹم کے تحت طے کرے۔قبل ازیں ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے باقاعدہ علیحدہ وزارت تشکیل دی گئی جبکہ موجودہ حکومت نے دوبارہ اسے وزارت تجارت کے ساتھ ضم کر دیا۔ علیحدہ وزارت نہ ہونے کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری سے متعلق معاملات و مسائل غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری ملک کی مجموعی ایکسپورٹ کا نصف سے زائد حصہ فراہم کرتی ہے اور اسی طرح سب سے ذیادہ روزگار کے مواقع بالخصوص ناخواندہ خواتین کو فراہم کرتی ہے۔

اس کی معیشت میں اہمیت کے پیش نظر حکومت ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے دوبارہ علیحدہ وزارت بنانے پر غور کرے۔ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو اکثر مختلف وجوہات کی بنیاد پر ان کے غیر ملکی خریداروں سے پے منٹس تاخیر سے ملتی ہیں۔ایکسپورٹس پروسیڈزریلاآئیزیشن کا موجودہ طریقہ کار کے مطابق دورانیہ 180دن ہے۔ ایسوسی ایشن نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ کورونا وباء اور لاک ڈائونز اور کاروباری سست روی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایکسپورٹس پروسیڈزریلاآئیزیشن کا دورانیہ بڑھا کر 273دن یا پھر 365دن کر دیا جائے۔حکومت نے ایکسپورٹ انڈسٹریز کو فروغ دینے کیلئے علیحدہ سے گیس ٹریفس متعارف کرایا جس کے تحت نرخ 786روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کئے گئے۔حکومت آئندہ تین سالوں کیلئے مزکورہ گیس کے نرخوں کو برقرار رکھے اور قدرتی گیس کے نئے صنعتی گیس کنکشنز بھی حکومت جاری کرے۔

حکومت اس وقت آر ایل این جی کے کنکشنز کا اجراء کر رہی ہے۔ایس این جی پی ایل نارتھ میں RLNGکے کنکشنز 6.5ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یوہے جبکہ ایس ایس جی سی ایل سائوتھ میں زائد نرخ پر کنکشن جاری کر رہی ہے۔ اس امتیازی طریقہ کار کو حکومت ختم کرے اور نارتھ اور سائوتھ میں 100فیصد یکساں RLNGکا ٹیریف 6.5ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کیا جائے۔ حکومت آئندہ تین سالوں کیلئے قدرتی گیس کے ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے متعارف کرائے گئے خصوصی ٹیریف 786روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور RLNGکنکشنز کے ٹیریف 6.5ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو کو منجمد کردے تاکہ ایکسپورٹرز کو نئے آرڈرز کے حصول میں سہولت رہے۔

حکومت نے پانچ بڑے ایکسپورٹ سیکٹر کے فروغ کیلئے بجلی کے علیحدہ نرخ 7.5سینٹ مقرر کئے۔تاہم نیپر ا نے مزکورہ بجلی کے ٹیریف کے پانچ بڑے ایکسپورٹ سیکڑز کیلئے علیحدہ ہیڈ اوگر ا کی طرز پر نہیں بنائے اور جنرل انڈسٹری کو الگ نہیں کیا۔ ایکسپورٹ سیکٹر کی سہولت کیلئے پانچ بڑے ایکسپورٹ سیکٹرز کیلئے بجلی کے خصوصی نرخ کے حوالے سے ہیڈ ز کو الگ کیا جائے۔ایسوسی ایشن کا مطالبہ ہے کہ حکومت پانچ بڑے ایکسپورٹ سیکٹر کے فروغ کیلئے بجلی کے علیحدہ طے کئے گئے نرخ 7.5سینٹ کو آئندہ تین سالوں کیلئے منجمد کر دے۔

پانی کے نرخ ملک بھر میں یکساں نہیں۔ مختلف صوبوں میں مختلف ٹیریف رائج ہیں۔ پنجاب (لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ ) میں52روپے فی ہزار گیلن، بلوچستان(کوئٹہ اور لسبیلہ) میں 40روپے فی ہزار گیلن ، سندھ میں نوری آباد میں150روپے فی ہزار گیلن، کوٹری میں 85روپے فی ہزار گیلن اور سکھر اور حیدر آباد میں 75روپے فی ہزار گیلن ہے۔ کراچی میں پانی کے نرخ سب سے ذیادہ اوردیگر جگہوں سے تین گنا زائد ہیںیعنی 341روپے فی ہزار گیلن ہیں۔ ملک بھر میں پانی کے نرخ انڈسٹریز کیلئے یکساں ہونے چاہئے۔

حکومت سالانہ 14گزٹ تعطیلات دیتی ہے جبکہ سال میں تقریباً 52اتوار کی چھٹیاں آتی ہیںاور اس طرح سالانہ بنیادوں پر 66تعطیلات بنتی ہیں۔وفاقی تعطیلات کے علاوہ صوبے اپنے طور پر بھی چھٹیوں کا اعلان کرتے ہیں۔اس کے علاوہ انڈسٹریز میں بھی ملازمین کو دیگر چھٹیاں الگ بھی دی جاتی ہیں ۔ان چھٹیوں کی وجہ سے خاص طور پر ایکسپورٹ انڈسٹریز کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔وفاقی حکومت ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے سالانہ چھٹیوں کا تعین کرے اور صوبے کی اعلان کردہ چھٹیوں کا اطلاق ایکسپورٹ انڈسٹریز پر نہیں ہونا چاہئے۔ ایکسپورٹ انڈسٹریز اپنی سرگرمیوں کے مطابق اپنے ملازمین کے ساتھ باہمی طور پر چھٹیاں دینے کا تعین کر لئے تاکہ ایکسپورٹس بلا تعطل اور بر وقت ہو سکیں۔

حکومت نے0.25فیصد ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج کا اطلاق ایکسپورٹ پروسیڈز پر لاگو کیاہوا ہے۔ایک بڑی رقم حکومت کے پاس مزکورہ فنڈ میں موجود ہے۔ تاوقت حکومت کے پاس موجو د مزکورہ فنڈز مطلوبہ مقاصد میں 80فیصد تک استعمال نہیں ہو جاتے اس وقت تک ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج کو معطل کر دیا جائے۔جب ای ڈی ایف فنڈز کی رقوم اخراجات کے بعد 20فیصد رہ رجائے تو حکومت ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج کا دوبارہ اطلاق کر دے۔

حکومت ورکرز ویلفیئر فنڈ منافع پر 2 فیصد کے حساب سے وصول کرتی ہے جو انڈسٹریز کوچلانے کی بڑھتی ہوئے لاگت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ حکومت ورکرز ویلفیئر فنڈ کی شرح میں کمی کرتے ہوئے 1 فیصد کے حساب سے وصولی کرے۔

ایکسپورٹرز فائنل ٹیکس ریجم میں شمار ہوتے ہیں۔ ایکسپورٹرز کے ودہولڈنگ ٹیکس کی مد میں زیر التواء ریفنڈزفیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ورکرز ویلفیئر فنڈکے ساتھ ایڈجسٹ کئے جاتے ہیں۔ایڈجسٹمنٹ کے بعد بھی ودہولڈنگ ٹیکس کے ریفنڈ کی کثیر رقم ایف بی آر کے پاس جمع رہتی ہے۔صوبوں نے بھی صوبائی ورکرز ویلفیئر فنڈ کی وصولیابی شروع کر رکھی ہے۔وفاق اور صوبوں کے درمیان تعین ہونا چاہیے کہ کون ورکرز ویلفیئر فنڈ کی وصولی کا حقیقی استحقاق رکھتا ہے اورمزکورہ فنڈ کا ایکسپورٹرز کے ودہولڈنگ ٹیکس کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ کار کس طرح ہونا چاہئے؟

واضح رہے کہ ایکسپورٹرز کا تمام ڈیٹا اور دستاویزات کا ریکارڈ مکمل طور پر وفاقی حکومت کے پاس موجود ہوتا ہے۔ایکسپورٹ انڈسٹریز کو ورکرز ویلفیئر فنڈ کی چھوٹ دی جائے اور مزکورہ انڈسٹریز فنڈز کی رقوم اپنے طور پر لیبر کی ویلفیئر کیلئے اور کمپلائنس معاملات میں استعمال کر لیں جس سے لیبر کو براہ راست فائدہ ہو گا اور ایکسپورٹ انڈسٹریز کی کمپلائنس سے متعلق شرح بھی بڑھے گی۔

ملک کی معیشت کے استحکام کیلئے دو ہی موثر زریعے ہیں ۔پہلا ایکسپورٹس اور دوسرا ہوم ریمیٹنس۔ دونوں میں اضافہ ملک کے مفاد میں ہے تاہم حکومت کو ایکسپورٹس کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا چاہئے۔ملک کے مفاد میں اہم ہے کہ حکومت ایکسپورٹ کے فروغ کیلئے سازگار پالیسی ترتیب دے جس سے نئے ایکسپورٹرز بنیں۔ کل کے چھوٹے ایکسپورٹرآج کے بڑے ایکسپورٹر بنے ہیں۔ اگر نئے ایکسپورٹرز آنے بند ہو گئے تو ایکسپورٹ کی تعمیر وترقی بھی رک جائے گی۔

لہٰذا پاکستان ہوزری مینوفیکچررزاینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کا مطالبہ ہے کہ حکومت ایسوسی ایشن کی وفاقی بجٹ 2021-22پر لازمی غور کرتے ہوئے عمل درآمد کرے اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹریز پر حقیقی توجہ دے اور ٹیکسیشن معاملات میں ضروری ریلیف فراہم کرے۔تجاویز پرعمل درآمد کی صورت میں سالانہ بنیادوں پر ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں 15تا20فیصد اضافہ متوقع ہے۔ اگر حکومت ایکسپورٹرز کی حوصلہ افزائی کیلئے ترجیحی اقدامات یقینی بنائے تو نہ صرف موجودہ ایکسپورٹرز کے اعتماد میں اضافہ ہو گا بلکہ نئے ایکسپورٹرز بھی بنیں گے جو وقت کی اہم ضرورت ہیں۔اس کے نتیجے میں ایکسپورٹس میں اضافہ کے ساتھ ساتھ قومی خزانہ کیلئے ریونیو میں مزید اضافہ ہوگا اور ٹیکس نیٹ بھی وسیع ہوجائے گا۔