حکومت نے شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت کیخلاف اپیل واپس لے لی

June 02, 2021


حکومت نے مسلم لیگ نون کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت کے خلاف اپیل واپس لے لی۔

شہباز شریف کے وکیل نے عدالتِ عظمیٰ کو توہینِ عدالت کی پیروی نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں شہباز شریف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت کے خلاف حکومتی اپیل پر سماعت کے دوران رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ نے عدالت میں کیس کا ریکارڈ پیش کر دیا۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ اپیل میں عدالت پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا، عدالت وفاق کی اپیل کو 2 ٹرمز پر نمٹا دے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ لاہور ہائی کورٹ کا شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ مثال نہ بن جائے۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف کو جس انداز میں ریلیف دیا گیا وہ کسی کیلئے مثال نہیں بن سکتا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری مقدمات میں ملزم کی نقل و حرکت کو کیسے محدود کیا جا سکتا ہے؟ لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کا مؤقف سنا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ رجحان بن گیا ہے کہ نیب والے ارکانِ پارلیمنٹ کو پکڑ لیتے ہیں، نیب ریفرنس میں 140 گواہان کے نام شامل کر دیتا ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا شہبازشریف کا کیس سسٹم کے تحت مقرر ہوا یا خاص طور پر؟

رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ نے بتایا کہ درخواست اعتراض کیلئے مقرر ہوئی تھی، فیصلہ ہوا کہ اعتراض پر فیصلہ درخواست کے ساتھ ہی ہو گا، جمعے کو ساڑھے 9 بجے اعتراض لگا اور ساڑھے 11 بجے کیس کی سماعت ہوئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومتی وکیل کو ہدایات لینے کیلئے صرف 30 منٹ دیئے گئے، ایک سال میں کتنے مقدمات کی جمعے کو 12 بجے سماعت ہوئی؟ بتایا جائے کہ کتنے مقدمات میں یک طرفہ ریلیف دیا گیا؟ لاہور ہائی کورٹ نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ شہباز شریف کا نام کس لسٹ میں ہے، کیا اس طرح کا عمومی حکم جاری ہو سکتا ہے جیسا لاہور ہائی کورٹ نے کیا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کا ٹرائل کرنے والے جج کا ہائی کورٹ نے تبادلہ کر دیا۔

اس موقع پر شہباز شریف کے وکیل نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ احتساب عدالت کا نیا جج لگانے میں کیا مسئلہ ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیا جج تعینات کرنے میں 3 سے 4 ماہ لگتے ہیں، شاید شہباز شریف نہیں چاہتے کہ ان کا کیس جلدی نمٹ سکے، جج کو جس انداز میں وقت سے پہلے ہٹایا گیا اس پر حکومت کو اعتراض ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ نئے ججز کی تعیناتی کیلئے نام بھجوا دیئے ہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا حکومت کو ججز کے نئے ناموں پر اعتراض ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ججز کے نئے ناموں پر اعتراض سے متعلق علم نہیں۔