ء مالی سال کا اختتام

June 28, 2013

امن وامان کے لحاظ سے 2012-13ء کا مالی سال کسی اہمیت کا حامل نہیں رہا خصوصاً گجرات کی وین کے حادثے، کوئٹہ میں طالبات کی بس پر حملہ ، زیارت کی ریذیڈنسی کی عمارت پر دھماکہ خیز مادہ پھینک کر قائد اعظم کے زیر استعمال اور ذاتی اشیاء کی تباہی، نانگا بربت پر حملہ نے دل گیر اور دل گرفتہ بنادیا ہے۔ مالی حیثیت سے بھی اس کو ناکام سال قرار دیا جاسکتا ہے جہاں نہ تو کوئی ہدف حاصل ہوا، خسارہ اور قرضے بڑھے، نوٹ چھپتے رہے اور سرکاری اخراجات پورے ہوتے رہے۔ صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی وجہ سے اس کا ذکر ہوتا رہے گا۔
یہ بات ضرور ہے کہ چند پیش قیاسیاں مثلاً آئی ایم ایف سے نیا قرضہ، ایمنسٹی کی اسکیمیں، زرمبادلہ کے دفاتر کا ادنیٰ ترین سطح تک پہنچنا پورا نہ ہوسکا اب ہر بار نئی حکومت کے نئے وزیر خزانہ برداشت کرنا ہوں گے جن کے متعلق کہا جارہا ہے کہ جلدی میں بجٹ تیار کیا گیا، بجٹ کی تیاری تو وزارت خزانہ اور فیڈرل بیورو آف ریونیو کے درمیان گزشتہ تین چار مہینوں سے ہورہی تھی یہ ضرور ہے کہ اس درمیان میں بیورو کے چیئرمینوں کے تبادلے ہوتے رہے۔
یہ بات قرین قیاس ہے کہ وزیر خزانہ کو بجٹ سازی میں کوئی مشورہ دینے کا موقع نہیں ملا۔ البتہ ان کو اس کے دفاع کی فکر دامن گیر رہی اور اسی سبب چند لغزشیں ہوگئیں، مثلاً بجٹ تقریر میں انہوں نے کہہ دیا کہ گھی، خوردنی تیل، چینی، دودھ، سگریٹ، چھالیہ پان، فریج، ائیرکنڈیشنر سب پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے، سیلز ٹیکس 16 سے بڑھا کر17فی صد کردیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی پنشنوں میں تو دس فی صد کا اضافہ کردیا ہے تاہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا، یوں عوام کو کوئی فوری ریلیف نہیں ملا۔
دوسرے ہی روز وضاحت کی گئی کہ خوردنی اشیاء، دواؤں وغیرہ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ تیسرے روز ایک توجیہہ کے ساتھ تنخواہوں میں بھی اضافے کا اعلان کیا گیا، جس سے حکومت پر 16ارب کا بار پڑے گا اور ایک گریڈ کے ملازمین کو کم سے کم 480 اور زیادہ سے زیادہ 930 روپے اور گریڈ22 کے افسران کو کم از کم 4300 اور زیادہ سے زیادہ 8570 روپے ملیں گے۔ اس کو مساواتی اضافہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس واضح فرق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
2013-14ء کے مالی سال میں ایف بی آر کو 24کھرب 75/ارب روپے جمع کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ اس کے حصول کے لئے مختلف ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا اس کے لئے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فی صد کا اضافہ کیا۔ عام طور پر بجٹ میں جن اشیاء پر ٹیکس بڑھایا جاتا ہے وہ اسی دن سے مہنگی ہوجاتی ہیں اس کی سب سے عمدہ مثال سگریٹ ہے، حالانکہ اضافوں کا نفاذ یکم جولائی سے ہوتا ہے مگر حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ اس کا نفاذ 12جون سے ہوگا۔ عدالت نے 12جون سے اس کا نفاذ غیرقانونی قرار دیا۔ وزیر خزانہ نے22 جون کو بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے 12جون سے اس کا نفاذ واپس لے لیا مگر جی ایس ٹی 17فی صد سے کم نہیں کریں گے۔ البتہ بعض رعایتیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔
وزیر خزانہ نے 500 ارب کا گردشی قرضہ 60دن کے اندر ادا کرنے کا اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ 60دن میں یہ رقم کہاں سے آجائے گی۔ حکومت کی نظریں یو ایس سپورٹ فنڈ اور بعض دوست ملکوں کی طرف سے امداد پر ہے۔ مگر یہ سو فی صدی یقینی نہیں۔ حکومت اور ہمارے اکثر ماہرین کی نظریں ان 500 ارب پر لگی ہوئی ہیں جو سوئز بینکوں میں پاکستانیوں کی طرف سے جمع ہیں، سوئز حکومت کو زرداری صاحب کے سلسلے میں جو خط لکھا تھا اس کا جواب آگیا کہ یہ معاملہ ختم ہوچکا ہے اب دوبارہ اس کو نہیں کھولا جاسکتا۔ حکومت نے سوئز مقدمات کی بحالی کے لئے ایک نئے وکیل کی خدمات حاصل کرلی ہیں اور اپیل کرنا چاہتی ہے۔ اپیل میں ”مذموم عزائم“ کے ساتھ بعض دوسرے قانونی نکات شامل کئے ہیں، خیال ہے کہ سوئز حکومت کی جانب سے یہ درخواست بھی مسترد کردی جائے گی فرض کیجئے کہ اپیل منظور ہوجائے اور رقم مل جائے تو وہ کتنے دن چلے گی۔
دراصل حکومت کو اپنے وسائل پر بھروسہ کرنا چاہئے مثلاً برسوں سے ٹیکس نادہندوں کی بات ہورہی ہے مگر ابھی کسی طبقے یا افراد کی بڑی تعداد کو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کیا جاسکا۔ پتہ نہیں کہ حکومت ان شعبوں میں ہاتھ ڈالنے سے کیوں گریزاں نظر آتی ہے جن سے کثیر رقم حاصل ہوسکتی ہے۔ اس قسم کا ایک شعبہ غیرمنقولہ جائیداد (رئیل اسٹیٹ) کا ہے۔ خود اس کی طرف سے اخبار میں دو اشتہار نما مضامین شائع ہوئے ہیں ان کے اہم نکات یہ ہیں۔
1۔ گزشتہ چند مہینوں میں جائیدادوں کی قیمتوں میں 25 سے 200 فی صد اضافہ ہوا ہے یہ خیال کرتے ہوئے کہ انتخابات ہوچکے ہیں اور نئی حکومت کے برسراقتدار آنے پر جائیدادوں کے بازار میں سرگرمی نظر آئے گی۔
2۔ جائیداد کا کاروبار کرنے والوں کو توقع ہے کہ نئے سال میں رہائشی اور تجارتی منصوبوں میں 15 سے 20 فی صد تک اضافہ ہوگا۔
3۔ جائیداد کی طلب بڑھ جانے کی وجہ سے تعمیری لاگت میں 20فی صد تک اضافہ ہوگا۔
4۔ غیرملکی کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری میں 10 سے 15فی صد اضافہ ہوگا۔
5 ۔ زرعی زمینوں کی طلب 15 سے 20 فی صد تک بڑھ جائے گی۔
6۔ صنعتی منصوبوں کے ڈیولپ شدہ پلاٹوں کی طلب میں 15 سے 30 فی صد تک اضافہ ہوگا۔
7۔ توقع کی جاتی ہے کہ معیشت کی بہتری کی بدولت قوت خرید میں 30 فی صد اضافہ ہوگا۔
8۔ اپارٹمنٹ، مکانات، رہائشی پلاٹس کی قیمتوں میں 20 سے 30فی صد اضافہ ہوگا۔
9۔ تجارتی جائیداد کی قوت خرید 25 سے 40 فی صد بڑھ جائے گی۔
10۔ کرائے 10 سے 15 فی صد تک بڑھ جائیں گے۔
11۔ مکانات کے لئے قرضوں میں 14.3 سے 14.5 فی صد کے درمیان استحکام رہے گا۔
12۔ حکومت نئی شاہراہیں، مکانات اور نئی کالونیاں تعمیر کرے گی۔
آخری نمبر کو چھوڑ کر باقی سارے نفع آور اور آمدنی حاصل کرنے والے ذرائع ہیں جہاں لاکھوں سے کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے، اس میں حکومت اپنا حصہ لینے کے لئے کہیں نظر نہیں آتی۔ حکومت نے یہ تو فیصلہ کیا کہ وہ نئے نوٹ نہیں چھاپے گی حالانکہ رمضان اور عید پر ان کی طلب بڑھ جاتی ہے مگر معمولی ٹھیکیداروں کو کروڑ اور ارب پتی بن جانے والوں سے ایک دھیلہ بھی ٹیکس وصول نہیں کیا، پھر کس طرح اپنا ہدف پورا کرلے گی اور قرضے ادا کرلے گی؟ اگر بجٹ کی کامیابی کی خاطر عوام کو کڑوی گولی نگلنا ہوگی تو سربراہان حکومت کو بھی تلخ گھونٹ خوش دلی سے پینا ہوں گے۔