ہم ہیں تو کہانی

June 07, 2021

ڈاکٹر فاطمہ حسن

ڈاکٹرآصف فرخی کے طرزِ زندگی اور تحریروں پر نظر ڈالیں تو دونوں میں ایسی ہم آہنگی نظر آتی ہے جو کسی جینوین ادیب میں ہی ہو سکتی ہے ،وہ واقعی منفرد کہانی کار اور بامطالعہ نقاد تھا۔ چار عشروں پر مشتمل ادبی سفر میں اس کااسلوب وہی رہا جو ابتدا میں تھا۔ اپنی زندگی کے تجربوں اور مشاہدوں کو، کردار میں اس انداز سے بنتا کہ قاری پوری جزیات کو حیرت اور دلچسپی سے پڑھے اور اس میں بین السطور لکھی کہانی تک پہنچ جائے۔ آصف کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی۔ ایک ہی شخص، لیکن متعدد کردار۔ اور ہر کردار اتنا واضح کہ اپنی نمایاں شناخت کے ساتھ نظر انداز یا اوجھل نہ ہونے پائے۔

میری یادوں میں اس کے اتنے روپ ہیں کہ لکھوں تو کئی کہانیاں بن جائیں۔ ویسی ہی کہانیاں جیسی آصف لکھتے تھے یا شاید ویسی کہانیاں جو میں لکھتی رہی ہوں۔ جن کے لکھتے رہنے اور گم نہ ہو جانے میں وہ خود کو ’’داخل دفتر‘‘ گردانتے ہیں۔ اس کی یادیں امڈی چلی آرہی ہیں تو ان مختلف روپ کی جھلکیاں دکھا دوں جو میرے تصور میں بہت واضح ہیں۔ پہلی جھلک، نثری نظم کے معرکے میں قمر جمیل صاحب کی محفلیں ہیں، آصف نثری نظم سنا رہا ہے۔ اس کی بحث میں شریک ہے، پھر بزم طلبہ میں مذاکرے میں موجود ہے۔ بہت سنجیدہ گفتگو کرتے ہوئے۔

یہ طالب علم آغا خان اسپتال کے کمیونٹی میڈیسن کے شعبے میں ڈاکٹر آصف اسلم کے روپ میں ملا تو ایک دوسرا ہی کردار محسوس ہوا۔ بہت پروفیشنل، مصروف اپنے پیشے پر حاوی، پھر ملاقاتوں کا ایک سلسلہ یونیسیف کے حوالے سے بھی رہا۔ 1988سے 1993تک میں کچی آبادی اتھارٹی میں یونیسیف کے ایک پروجیکٹ پر فوکل پرسن تھی اور آصف یونیسیف سے وابستہ تھے۔

دفتری رابطوں نے ادبی رابطوں کو بحال کر دیا۔ وہ ادبی دوستوں، مہمانوں اور کتابوں سے متعارف کرواتے رہے۔ دفتری رابطوں کی بات نکلی ہے تو اس کے ایک اور کردار کو بھی لکھ دوں۔ سیلاب کے زمانے میں مہیڑ میں کام کر رہی تھی ، آصف بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔

اس وقت مجھے جہاں جہاں ضرورت محسو س ہوتی اپنے دوستوں اور عزیزوں سے تعاون طلب کرتی۔ آرٹس کونسل میں احمد شاہ اور یونیسیف میں آصف فرخی مسلسل اشیاء اور دوائیاں مہیا کرتے رہے۔ آصف کے والدین سے احباب تک اتنی مشترکہ یادیں ہیں کہ لکھوں تو مضمون طویل ہو جائے گا۔ مجھے تو اس کی اس کتاب پر لکھنا ہے جس پر لکھنے کا اظٖہار میں نے اس وقت جنوری 2020میں کر دیا تھا جب آصف نے اپنا نیا تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ایک کہانی نئے مضمون کی‘‘ دیا تھا۔

آصف کی تحریر پر اس تمام عرصے میں نا لکھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے مطالعے کی وسعتیں ایسے مضمون کی متقاضی تھیں جو سرسری نہیں لکھا جا سکتا۔ گہرے مطالعے کے بعد تہ در تہ معانی اور حوالہ جات کے سیاق و سباق سے گزرتے ہوئے اس کے مضامین کی تمام جہتوں کو سمیٹ کر اظہارِ خیال کرنا ہمیشہ مشکل لگا۔ مگر اب جبکہ میں نے اس کے تنقید ی مضامین کے مجموعے پرقلم اٹھایا ہے تو یہ ایک ایسا عہد ہے جسے پورا کرنے کی میں پابند ہوں۔

مجموعے کا پہلا ہی مضمون ’’ سارا شگفتہ اور رنگ چور‘‘ میںسارا کی شاعری سے زیادہ اس کی زندگی کی کہانی کو محسوس کیا جا سکتا ہے، جس کا خود آصف نے بھی اظہار کیا ہے۔

’’اس نے افسانوی زندگی کیوں اور کیوں کر گزاری ۔ درد و غم جمع کرتے کرتے اپنی کتاب کو میر ؔ کا دیوان کیوں بنا لیا۔ لوگوں کی زبان کے گھائو سہتے سہتے لہو لہان ہو کر ریل کی پٹڑی پر خون کے چھینٹوں میں کیوں بدل گئی۔ سارا کے ساتھ سوالوں کے بہت سلسلے ہیں، یہ سوال جس قدر فطری ہیںا س قدر مشکل بھی۔ ان سوالوں کا تسلی بخش جواب ملے یا نہ ملے، میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ سارا شگفتہ جہاں ایک گہرا ، گھنا بھید تھی وہاں اس میں ایک ایسی موہنی تھی کہ جس کا سحر اس کی موت کے بعد بھی کم نہیں ہوا۔ اس کی جیون کتھا اس عہد کا ایسا تجربہ بن گئی ہے کہ اس کے بارے میں سوچنے کا عمل اتنا پھیل جاتا ہے کہ اس زاویے سے دورِ حاضر کے بعض مسلمہ عقائد اور رویوں کا تنقیدی جائزہ لینا پڑتا ہے۔ ‘‘

اس مضمون میں وہ شاعری سے زیادہ شاعرہ کی ذات اور اس کے فن پر معاصرین کے تنقیدی رویوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان تمام لکھنے والوں کا حوالہ بھی دیتے چلے جاتے ہیں جنہوں نے سارا شگفتہ کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ان بکھرے ہوئے خیالات میں ان کی اپنی تنقید محض تاثراتی جملوں تک ہی محدود رہتی ہے اور یہ نہیں پتا چلتا کہ وہ اس کی شاعری کو کیا مقام دے رہے ہیں۔ بہرحال یہ مضمون ان رویوں کا احاطہ ضرور کر رہا ہے جو ہمارے لکھنے والوں نے اس متنازعہ شاعرہ کے ساتھ روا رکھا ہے اور آصف کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنی تحریر کو متنازعہ ہونے سے بچا لیا ہے، یہیںتو کہانی کا ر کا فن کام آتا ہے۔

دوسرے مضمون کا عنوان ’’ایک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی‘‘ہے جو اس کتاب کا عنوان بھی ہے اور یہ مضمون ہے شاعرِ اعظم جوش ملیح آبادی کا۔ مضمون کے پہلے پیراگراف میں ہی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ سیمینار میں پڑھنے کیلئے لکھا گیا ہے۔ اس مضمون میں جامع مطالعہ، جوش پر لکھی جانے والی تحریروں اور ان سے روا رکھے گئے سلوک کا ہے جسے آصف نے بڑی باریک بینی سے اپنے مشاہدے اور مطالعے کا حصہ بنایا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اردو تنقید پر جوشؔ کے کئی قرض باقی ہیں۔ جوشؔ کے اپنے ہی شعر کے مطابق صرف یہ کہہ کر عہدہ برا نہیں ہوا جا سکتا :

کہانیاں ہیں سرِدوش سیکڑوں اے جوشؔ

اب اُن پہ بار نہ ڈال اِک نئے فسانے کا

کتاب کے آغاز میں دو شعرا پر تاثراتی مضامین کے بعد آصف کی تنقید کا جوہر کھلتا ہے جب وہ افسانوں کی جانب آتے ہیں۔ یہی ان کا اصل میدان ہے۔ ’’اثرات کا دائرہ‘‘ بین الاقوامی افسانے کے اردو افسانوں پر اثرات کے حوالے سے منعقد ایک تقریب کے لیے لکھا ہوا مضمون ہے۔یہ ایک چبھتی ہوئی تحریر ہے۔ آصف چونکہ اسی دریا کے شناور ہیں اس لیے معانی خیز جملوں میں افسانوں سے متعلق رویوں کے ایسے تمام پہلو، خواہ وہ مونگے موتی ہوں یا کنکر، نکال لائے ہیں جن سے فکر کو بیدار کیا جا سکتا ہے۔

اس مضمون کے فوراً بعد ابو الفضل صدیقی جیسے افسانہ نگار پر مضمون ’’اے پیکرِ گل، کوشش پیہم کی جزا دے ‘‘ میں معلوم نہیں ایسا دانستہ یا نا دانستہ مگر آصف کی اس سوچ اور سچائی کا عکس ضرور ہے کہ ہمیں اپنے خطے کے ادب کو جو ہماری روایات اور بودوباش سے جڑا ہوا ہے، دوسروں کے اثرات سے بے نیاز ہو کر دیکھنا چاہئے۔ ہم جانتے ہیں کہ ابو الفضل صدیقی ایسے افسانہ نگار تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں اپنے خطے، ماحول اور یہاں کی بودوباش کو تفصیل سے لکھا۔ ان کے مضامین اور اسلوب دونوں ہی اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ابوالفضل صدیقی پر مضمون کا آغاز آصف نے اس جملے سے کیا ہے۔

’’میری روداد ِ سفر میں کچھ افسانے ملتے ہیں اور چند ایک افسانہ نگار بھی آتے ہیں‘‘۔ آصف فرخی کی اس کتاب میں بہت اہم اور دلچسپ مضمون ’’جاسوسِ سلطان درکمیں: آزاد وسطِ ایشیا میں‘‘ ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے محمد حسین آزادؔ کے سفر کے حولے سے اتنی معلومات مہیا کی ہیں کہ اسے تحقیقی مقالہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سفر کو جو کہ ایک متنازعہ مشن تھا، اس میں شامل ارکان کا تعارف مستند حوالوں سے کروانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے آغا محمد صادق اور آغا اشرف کی تقریروں کے دو اقتباسات بھی پیش کیے ہیںجس میں اس سفر کو صرف شوقِ سیاحت قرار دیا گیاہے۔ جبکہ آصف خود یہ لکھتے ہیں کہ

’’آزاد کی زندگی کا ایک اور محیر العقول اور بھید بھرا واقعہ وسط ایشیا کے سفر کا ہے۔ یہ سفر انہوں نے کیوں اور کن حالات کے تحت کیا۔ آخر وہ وہاں کرنے کیا گئے تھے۔ بہت سی سوانحی تفصیلات کی فراہمی کے باوجود یہ معاملہ پوری طرح حل نہیں ہو سکا اور آج بھی ہمیںرہ رہ کر حیران کرتا ہے‘‘

اگلے تین مضامیں میں آصف فرخی نے واضح کر دیا ہے کہ یہ مضامین بھی اظہارِ خیال کی دعوت پر لکھے گئے ہیں تاہم یہ آصف کی فکری گہرائی کے آئینہ دار ہیں۔ ’’نئی صدی کا پرانا سوال‘‘ میں اکیسویں صدی میں ادب کو کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بنیادی سوال ہے جس پر خود آصف نے بھی کئی سوالات قائم کر دیئے ہیں مثلاً کس طرح کے خطرات لاحق ہیں؟ چیلنج کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے؟

یہ سوال ہمیں تنگ کیوں کر رہا ہے؟۔ اس سوال کو بار بار کیوں دہرایا جا رہا ہے؟ دہرانے کے باوجود کیا موضوعات کی جہات پر کوئی فکری بیانیہ قائم کر پائے؟ یا معنویت ہی معدوم کر ددی گئی؟ ہم سوالوں کے دائرے میں کیوں گھومے جا رہے ہیں؟ اتنے سوالا ت کے بعد وہ جس نتیجے پر پہنچتے ہیںان میں بڑی معنویت اور بھرپور فکر موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں

’’ ہم وقت نہیں گزار رہے ہیں بلکہ وقت ہمیں گزار رہا ہے۔ تصرف میں لا کر استعمال کیے چلا جا رہا ہے، دیواروں پر گھٹتے بڑھتے سائے دیکھ دیکھ کر ہم صرف اس مدت کا اندازہ لگا رہے ہیں کیونکہ ہم اپنی حالت کو تبدیل نہیں کر سکتے‘‘

اگلا مضمون ’’کہانی کھو گئی‘‘ پھر ایسا عنوان ہے جو آصف کی پسندیدہ صنف یعنی کہانی سے متعلق ہے اور نومبر 2015میں کراچی آرٹس کونسل کی کانفرنس میں پڑھا گیا ہے۔ اس میں آصف کا لہجہ شگفتہ ہے اور وہ حسِ مزاح بھی محسوس کی جا سکتی ہے جو سنجیدہ موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے بھی قائم رہی۔ اس مضمون میں کہانی کے حوالے سے ان کے خیالات کی وسعت اور اس صنف سے ان کے خصوصی لگائو کی نوعیت کا پورا اندازہ ہو سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں؛

’’کہانی انسان کی بنیادی سرشت کا ایک حصہ ہے۔

میں جو یہ بات کہہ رہا ہوں، میں بھی کہانی ہوں اور آپ جو یہ بات سن رہے ہیں آپ بھی افسانہ ۔۔۔ ہماری زندگیوں کا ہر عمل کہانی کے مرحلے کی طرح آگے بڑھتا ہے۔ ہمارا کھانا پینا، سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا سب کہانیاں ہی تو ہیں۔ ہم ہیں تو کہانی اور جب نہیں رہیں گے تو کہانی‘‘

یوں لگتا ہے جیسے آصف نے اپنے متعلق پیش گوئی کر دی ہو۔

مضمون ’’زبانِ غیر سے شرحِ آرزو: اردو پر دیگر زبانوں کے اثرات ‘‘ میں ان کا انداز بہت تیکھا اور جملے کاٹ دار ہیں جو بہت سنبھال کر لکھنے کے باوجود اصل صورتحال کی ستم ظریفی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ ایک بہت علمی نوعیت کا ایسا مضمون ہے جس میں آصف کا وسیع مطالعہ ان کی فکر سے ہم آمیز نظر آتا ہے۔ آصف فرخی کی تحریر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں حوالے فکر سے کشید ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور اس میں ا ن کی اپنی بات یوں گھل جاتی ہے کہ قاری کو حوالوں کا ذائقہ جدا محسوس نہیں ہوتا۔ اس مضمون میں آصف نے لگی لپٹی نہیں رکھی مثلاً انہوں نے صاف طور سے لکھا؛

’’اردو یعنی کیا؟ یہ زبان ہے یا قومیت؟ اس زبان کا خود اپنے آپ سے کیا رشتہ ہے، اپنی پرورش کنندہ تہذیب سے ، اپنے ادبی سرمائے سے اور اپنے بولنے، پڑھنے اور لکھنے والوں سے کیا رشتہ۔ کیا یہ زبان صرف ایک ٹھپہ لگا دیتی ہے یا فکری و تہذیبی طور پر متعین کرتی ہے اورثروت مند بھی؟ ‘‘

اس مضمون میں آصف نے اردو زبان سے متعلق ایک ایسی جہت کی طرف اشارہ کیا ہے جس پر مزید توجہ و تحقیق کی ضرورت ہے۔ وہ فارسی اور انگریزی زبانوں کے اردو پر اثرات کے بارے میں لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان دونوں زبانوں کی لسانیاتی و تہذیبی اساس اگرچہ مختلف ہے لیکن اردو کے حوالے سے ایک بات مشترک ہے وہ یہ کہ فارسی اور انگریزی مختلف ادوار میں اقتدار کی زبانیں رہی ہیں جن کے سامنے ارد وکی حیثیت عوامی رہی ہے۔ اس طرح وہ اردو زبان کے حوالے سے ایک ایسے مثبت پہلو کو سامنے لا رہے ہیں جسے پیش نظر رہنا چاہئے۔ وہ لکھتے ہیں؛

’’اردو نے جن دوسری زبانوں سے اخذ اور استفادہ کیا، اس اثر نے اردو کی اس حیثیت کو چیلنج کیا ہے نا بے اعتبار ٹھہرایا ہے بلکہ اسی حیثیت کو مستحکم کیا ہے۔ ‘‘

آصف کے تنقیدی مضامین کے مندرجہ بالا حوالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں ہمارے عہد کی حسیت، رجحانات، مسائل اور موضوعات کا کتنی وسعت و گہرائی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ مضامین ایک ایسے قلمکار نے لکھے ہیں جس کی شخصیت اور مطالعے کی جہتیں صحیح معنوں میں ہمہ گیر ہیں۔پھر وہ علمیت بھی ہے جو نسل در نسل ان کے گھرانے میں موجود رہی ہے۔ ایک طرف وہ ڈپٹی نذیر احمد، شاہد احمد دہلوی کے خاندان سے ہیںاور محمد حسین آزادؔسے بھی تین نسلوں کی وابستگی ورثے میں ملی ہے تو دوسری طرف تاج بیگم اور ڈاکٹر اسلم فرخی جیسے والدین کے سائے میں پروان چڑھے۔

وہ والدین جنہوں نے اردو کے کلاسیکی ادب، علم کی تدریس و تحقیق میں عمر بسر کی تھی۔ پھر آصف نے کسبِ علم کا ہر ذریعہ اپنایا۔ عہدِ حاضر کے لکھنے والوں کا مطالعہ، ان سے رابطے، ان کی تخلیقات کے تراجم و اشاعت سے حاصل ہونے والی وسعتِ فکر و نظر، ان کے مضامین کے مجموعے کو صحیح معنوں میں ’’ایک کہانی نئی مضمون کی‘‘ قرار دینے کے لیے ٹھوس بنیاد بن گئی ہے۔