کیا وقف سے رجوع ممکن ہے ؟

June 11, 2021

تفہیم السمائل

سوال:سات سال پہلے ایک خاتون رخسانہ بانو نے اپنا 80گزڈبل اسٹوری مکان مرکزی جامع حنفیہ محمد ی سنہری مسجد (لانڈھی) کو وقف کیا کہ جب تک میری زندگی ہے ،مجھے مکان میں رہنے دیاجائے ، اس پر قانونی کارروائی مکمل کرتے ہوئے مکان کی وقف ڈیڈ رجسٹرڈکرلی گئی تھی۔ اب وہ خاتون مسجد سے مکان کے کاغذات اور ملکیت کی واپسی کا مطالبہ کررہی ہیں اور وکیل کے ذریعے چیرمین کو نوٹس بھی بھجوادیا ہے ۔ سو مسجد انتظامیہ نے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیاہے کہ خاتون کو مکان واپس کردیاجائے اور اس کے بدلے میں چیرمین مسجد کی ازسرنو تعمیر کے وقت دس لاکھ یا پچاس لاکھ یا ایک کروڑ روپے دے ، جبکہ چیرمین کا کہنا ہے کہ مجھے پابند نہ کیا جائے کہ میں تعمیر کے وقت کتنی رقم دوں گا،نیز فائنانس سیکریٹری نے بھی ایک کروڑ دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا مکان خاتون کو واپس کیا جاسکتا ہے ،نیز چیرمین اور فائنانس سیکریٹری کی جانب سے رقم کی پیشکش شرعی اعتبار سے قابل قبول ہے ،کیا یہ رقم تعمیر میں صرف کی جاسکتی ہے ،(عبدالصمد ، وائس چیرمین جامع مسجد حنفیہ محمدی سنہری،کراچی)

جواب:’’وقف لِلّٰہ‘‘ کے شرعی معنیٰ ہیں: کسی چیز کو اپنی مِلک سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی مِلک کردینا،علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر الفرغانی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’اور شرع میں حبس کے معنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ہیں : نفسِ مال کو واقف کا اپنی مِلک پر روکے رکھنا اور اس کے منافع کو صدقہ کردینا‘‘،۔’’اورصاحبین رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک وقف کے معنی ہیں :’’ نفسِ مال کو اللہ تعالیٰ کی مِلک پر روکنا‘‘، پس وقف کرنے والے کی مِلکیت موقوف(یعنی وقف شدہ مال) سے ختم ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح منتقل ہوجاتی ہے کہ اس کا نفع بندوں کو حاصل ہوتاہے،پس یہ لازم ہو جاتا ہے ،(ہدایہ،جلد4،ص:391-392)‘‘۔

وقف کا حکم یہ ہے کہ’’ موقوف شے‘‘ واقف کی مِلک سے خارج ہوجاتی ہے ،مگر موقوف علیہ (یعنی جس پر وقف کیاہے ،اس کی) مِلک میں داخل نہیں ہوتی ،بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی مِلک قرار پاتی ہے ۔علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ صاحبین کے نزدیک وقف کا حکم یہ ہے کہ موقوف شیٔ واقف کی مِلک سے خارج ہوکر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے اورامام اعظم ؒکے نزدیک وقف کاحکم اس کے وقف کنندہ کی مِلک پر مالِ عین کا محبوس (روکا جانا)ہونا ہے، اس طرح سے کہ ایک مِلک سے دوسری مِلک میں منتقل نہ ہوسکے ، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد2،ص:352)‘‘۔

شرعی حکم تو یہ ہے کہ واقفہ کی اسی شرط کے ساتھ کہ جب تک میں زندہ ہوں مکان میں رہائش یا اُس سے استفادے کا حق مجھے حاصل ہے ، وقف درست ہے،علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ ’’ذخیرہ ‘‘ میں ہے : جب کوئی اراضی یا کوئی شے وقف کی اور اُس کے کل یا بعض حصے میں اپنے لیے شرط رکھی کہ جب تک زندہ ہے (اس سے فائدہ حاصل کرے گا )اور اس کے بعدفقراء کے لیے ہے ، تو امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :یہ وقف صحیح ہے اور بلخ کے مشایخ نے بھی امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتوے کو لیا ہے اور اِسی پر فتویٰ ہے تاکہ لوگ وقف کرنے میں رغبت کریں اور ’’فتاویٰ صغریٰ ، نصاب‘‘ اور’’ مضمرات ‘‘ میں اسی طرح ہے ، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد2،ص:397)‘‘۔

خاتون کو اب وقف کو بدلنے یا اس سے رجوع کرنے کا قطعاً اختیار حاصل نہیں ہے ، نہ واپس لے سکتی ہیں ، نہ فروخت کرسکتی ہیں اور نہ اب کسی اور کو ہبہ کرسکتی ہیں ،علامہ نظام الدین رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ترجمہ:’’ پس جب (وقف)لازم ہوجاتا ہے تو اُسے نہ تو بیچا جاسکتا ہے، نہ ھبہ کیاجاسکتا ہے اور نہ اُس میں وراثت جاری ہوتی ہے،’’ ہدایہ ‘‘میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد2ص:350)‘‘۔

(…جاری ہے…)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk