کراچی: ہرجگہ پانی ہی پانی؟

June 18, 2021

تحریر…فریال سکندر

نیوزچینلز پر متواتر یہ خبریں چل رہی ہیں کہ کراچی میں عام طور پر جولائی میں ہونے والے مون سون کا سیزن اس بار قبل از وقت شروع ہو رہا ہے، محکمہ موسمیات نے 18 جون کو کراچی میں گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیش گوئی بھی کر رکھی ہے۔ دیگر ذرائع سے بھی بتایا جا رہا ہے کہ اس سال کراچی میں پہلے کی نسبت زیادہ بارشوں کا امکان ہے۔ اگر سال 2020ء کےحالات کو دیکھا جائے تو ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہونا چاہئے۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ مون سون کے پیش نظر قبل از وقت حفاظتی اقدامات کرے تاکہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس صورتحال کے پیش نظر اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کراچی کے بڑے نالوں کی کھدائی اور نالوں پر قائم تجاوزات ختم کرنے کی مہم تو شد و مد سے جاری ہے لیکن یہ اقدامات کافی ہوں گے یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے تاہم کراچی کی امید اس مہم کی کامیابی پر ہی منحصر ہے۔

مون سون نے تقریباً ہر یوٹیلیٹی سروسز کو متاثر کیا ہے بلکہ ایک ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی کاردگی کو بھی سب کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کراچی کے 20 ملین سے زائد شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور شہر کے صفائی کے نظام کو برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے لیکن ہم نے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں دیکھا جس میں اس نے کراچی کی گلیوں کو تالاب بننے سے روکا ہو۔ حالیہ خبروں سے پتہ چلا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے اندر 66 انچ قطر کی پانی والی پائپ لائن پھٹ گئی جس سے ناصرف ضلع وسطی اور سینٹرل کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی بلکہ یونیورسٹی روڈ کے ایک بڑے حصے پر پانی کھڑا ہو گیا اور یہاں پر سیلابی کیفیت پیدا ہو گئی۔ جس سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی۔ حکام کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔

موسلا دھار بارش کی وجہ سے ہر سال ہمارا نظام درہم برم ہو جاتا ہے اور جمع ہونے والا پانی ٹریفک کی روانی کو متاثر کرتا ہے، یہاں تک کہ کھڑے پانی کی وجہ سے بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ بجلی بحال کرنے والا عملہ کھڑے پانی میں مرمت کا کام کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور پانی میں ڈوبے علاقوں تک ان کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔ پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفنس سمیت دیگر پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہری اپنے زیر آب گھروں کی ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے اکثر دیکھے جاتے ہیں۔ سا 2020 توخاص طور پر شہر کے لئے برا تھا ہی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا 2021ءاس سے مختلف ہو گا؟

کراچی جیسے کاروباری شہر کی بحفاظت روانی کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو متحد ہو کر یکساں سوچ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے جیسے پانی کا مسئلہ فی الحال ہمارا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ دوست اور دفتر کے ساتھی بتاتے رہتے ہیں کہ بارش سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شہر کے مختلف حصوں میں قاسم سب اسٹیشنوں کو ٹھیک کرنے کیلئے کے الیکٹرک کی ٹیموں کو کام کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو پانی کی نکاسی کیلئے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کیلئے کہنے کی بجائے کے الیکٹرک پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے انفرا اسٹرکچر کو کئی فٹ اونچا کرے تاکہ بارش کا پانی اندر داخل نہ ہو۔

کراچی واٹر بورڈ ایک فرسودہ انفرااسٹرکچر کی مدد سے اپنے آلات کو اَپ گریڈ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن مسائل دیکھ کر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب قابو سے باہر ہے۔ ہم اکثر دھابیجی پمپنگ اسٹیشن یا شہر میں پانی کی فراہمی کے دیگر اہم مقامات پر سے پانی چوری ہونے کی خبریں سنتے رہتے ہیں۔ ایک شہری کی حیثیت سے مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے اہم مقامات پر اضافی محافظ کیوں نہیں لگائے جاتے یا اس کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیوں نہیں کیا جاتا، تاکہ ہم آسانی سے پانی حاصل کر سکیں۔

اس پر مزید تکلیف دہ یہ بات ہے کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کا پھیلائو بھی لوگوں کو پانی تک رسائی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں سپلائی لائن موجود ہونے کے باوجود صاف پانی کے لئے ہزاروں روپے خرچ کرکے پانی کے ٹینکر ڈلواتے ہیں۔ اس سب کے لئے ہم اس ادارہ کو جوابدہ کیوں نہیں ٹھہراتے اور اس چوری کے خلاف کارروائی کا مطالبہ اسی طرح کیوں نہیں کرتے جس طرح سے ہم گیس یا بجلی کے لئے کرتے ہیں؟۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ ادارہ نہ تو ہمیں مطلوبہ مقدار میں پانی دے پا رہا ہے اور نہ ہی گندے پانی کی نکاسی کو بہتر انداز میں کرنے کے لئے اپنے وسائل کو استعمال کرتا ہے۔

شہر سے گندے پانی کو دور لے جانے کے لئے نالوں پر سے تجاوزات کے خاتمہ اور ان کو چوڑا کرنے کیلئے بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ اور معزز چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ وہ اس حوالے سے ملوث افراد کے خلاف حکم جاری کر کے انہیں احتساب کے کٹہرے میں لائیں۔ جہاں دیگر اسٹیک ہولڈرز سے امید کی جاتی ہے کہ وہ کراچی کو بہتر خدمات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے مستعدی سے کام کریں گے وہاں یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ نکاسی آب اور صفائی ستھرائی کے معاملات کے ذمہ دار ادارے کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر مجبور کیا جائے، جو اس مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ ان حالات میں تو بہتر ہو گا کہ میں مون سون کے دوران شہر میں آمد و رفت کیلئے ایک کشتی کی قیمت ابھی سےمعلوم کرلوں۔