ہسپانوی زبان کے معروف ادیب ’’ہوزے پابلو فینمین‘‘

June 21, 2021

لاطینی امریکی ممالک میں ’’ارجنٹائن‘‘ ایک اہم ترین ملک ہے۔ جنوبی امریکا کے بالکل آخری حصے پر واقع اس ملک کی ثقافت بشمول ادب خاصا زرخیز ہے۔ اس کے پڑوسی ممالک میں بولیویا، پیراگوئے، چلی اور یوروگوئے شامل ہیں۔ اس ملک کی قومی زبان ہسپانوی ہے۔ رقبے کے لحاظ سے لاطینی امریکی ممالک میں برازیل کے بعد یہ دوسرا اور دنیا میں آٹھواں بڑا ملک ہے۔ فٹبال کے معروف کھلاڑیوں’’میراڈونا‘‘ اور ’’میسی‘‘ کے حوالے سے یہ ملک پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے، لیکن ان سے بھی ایک بڑا حوالہ’’چی گویرا‘‘ کا ہے، جو معروف کمیونسٹ اور انقلابی جنگجو تھے، ان کی پیدائش بھی ارجنٹائن کی ہے۔ موجودہ دور میں اس ملک کی ایک معروف شخصیت’’ہوزے پابلو فینمین‘‘کا تعلق بھی ارجنٹائن سے ہے، جو ایک ادیب ہونے کے علاوہ ڈرامانگار، فلم نویس، فلسفی اور ٹیلی وژن پر میزبان کی حیثیت سے مقبول ہیں۔

’’ہوزے پابلو فینمین‘‘ کی پیدائش کا سال 1943ہے، ضعیف العمری میںبھی وہ متحرک اور لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں۔ اوائل جوانی میں، ان کا ملک جب سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا اور 70کی دہائی میں ’’پیرون ازم‘‘ کی تحریک اپنے زوروں پر تھی، تو انہوں نے اس تحریک میں عملی طور پر حصہ لیا، جو کسی حد تک پرتشدد پہلو بھی رکھتی تھی، مگر آگے چل کروہ پرتشدد نظریات کی سیاست کے مخالف ہوگئے۔ نوے کی دہائی میں’’نیو لبرل ازم‘‘ کے نظریات رکھنے والی حکومت کی بھی مخالفت کی ،البتہ موجودہ دور میں بائیں بازو کے سیاسی نظریات کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے تخلیقی کاموں، تحریروں اور گفتگو میں ان کے نظریات کی جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔

انہوں نے 70کی دہائی میں ہی ادب تخلیق کرنے کی ابتدا کی۔ 1979 میں ان کے پہلے ناول’’لاسٹ ڈیز آف دی وکٹم‘‘ کی اشاعت ہوئی، جبکہ ان کا اب تک آخری ناول 2009میں’’کارٹراینڈ ویتنام‘‘ شائع ہوا۔ وہ تقریباً 14 ناول لکھ چکے ہیں، جن کو ادبی و سیاسی حلقوںمیں بے حد پذیرائی حاصل ہے۔ ویسے تو ان کے نظریات بائیں بازو کی حمایت میں ہوتے ہیں اور کسی حد تک وہ اپنے مذہبی خیالات میں ’’اگنوسٹک‘‘ یعنی ’’لاادری‘‘ نظریات کے حامل ہیں، لیکن ان کی اکثر تخلیقات میں کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دوسری عالمی جنگ اور نازیوں کے معاملے میں کسی حد تک جانبدار ہوجاتے ہیں، اس کی ایک مثال 2005 میں شائع ہونے والا، ان کا ناول’’ہائیڈیگرز شیڈو‘‘ ہے۔ اس ناول کو یوں تو تاریخی ناول کہا جاتا ہے، مگر اس میں مصنف نے معروف جرمن فلسفی’’مارٹن ہائیڈیگر‘‘ اور فرانسیسی فلسفی و ادیب’’جان پال سارتر‘‘ سمیت ایڈولف ہٹلر پر بھی تنقید کی ہے۔ یہ ناول متنازعہ مگر دلچسپ ہے، جس طرح مصنف نے حقیقت اور تخیل کو ملاکر ایک مخصوص نظریے کو کامیاب طریقے سے پیش کیا ہے۔ ان کے ناولوں کے تراجم جرمن، اطالوی، فرانسیسی اور ڈچ زبانوں میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔

ارجنٹائن کے اس معروف ادیب اور فلسفی نے ناول نگاری کے علاوہ، ڈراما نگاری اور مختصر کہانی نویسی بھی کی ہے۔ 14فیچر اور دستاویزی فلموں کے لیے اسکرپٹس لکھے۔ ادبی و فلسفی مضامین اور تحریریں ان سب کے علاوہ ہیں، جو مختلف اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ ٹیلی وژن اسکرین پر بطور میزبان بھی دکھائی دیتے ہیں اور طویل عرصے سے ایک ٹاک شو’’فلاسفی ہیئر اینڈ نائو‘‘ کی میزبانی بھی کر رہے ہیں۔ ان کا شمار ایسے ادیبوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے ادب کا استعمال سیاسی مقاصد کے فروغ کے لیے کیا اور اپنے سیاسی نظریات کو ادب میں ڈھال کر پیش کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں اور کرداروں میں ملکی اور عالمی سیاست کی پرچھائیاں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔

’’ہوزے پابلو فینمین‘‘ کے سب سے پہلے اور مقبول ناول’’لاسٹ ڈیز آف دی وکٹم‘‘ سترکی دہائی کے آخری برسوں میں شائع ہوا۔ اس ناول کی کہانی کا مرکزی کردار ایک پیشہ ور اور اُجرتی قاتل ہے، جو سلسلہ وار قتل کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہوتا ہے۔ اس ناول پربننے والی فلم 1982 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلم کے ہدایت کار’’اڈولف آرسٹرین‘‘ تھے، انہوں نے ناول نگار کے ساتھ مل کر فلم کا اسکرپٹ لکھا۔ فلم کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی اور اسے ارجنٹائن سینما میں کلاسیکی فلم کادرجہ حاصل ہے۔

ارجنٹائن کی طرف سے اس فلم کو55 ویں اکادمی ایوارڈز میں بہترین غیر ملکی فلم کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ فلم کے پروڈیوسر اور فلم ساز’’ہکیٹر اولیور‘‘ تھے، جن کی ارجنٹائن کی فلمی صنعت کے لیے کافی خدمات ہیں اور انہوں نے امریکا کی فلمی صنعت کے لیے بھی ارجنٹائن کی طرف سے کافی فلمیں بنائیں ہیں، یہی وجہ ہے، اس فلم کو عالمی طور پر توجہ حاصل ہوئی۔ فلم کے مرکزی فنکاروں میں’’فیڈرک لوپی‘‘ اور’’سولیڈیڈ سلویرا‘‘ سمیت سب نے اپنی عمدہ اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔ اسی ناول پر ایک فرانسیسی فلم ساز’’برونو گینٹیلیون‘‘ نے بھی 1995 میں اپنے ہاں ایک ٹیلی فلم بنائی تھی۔

ارجنٹائن کے سیاسی اور ادبی منظرنامے پر’’ہوزے پابلو فینمین‘‘ کی موجودگی اور فعالیت اس بات کا ثبوت ہے، اگر آپ کے نظریات میں دم ہے، ادب کو سماج کی بہتری اور اپنے ملک کے اچھے مستقبل کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں تو پھر ایسے ناول اور کتابیں لکھ سکتے ہیں، جن سے معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے۔ ’’ہوزے پابلو فینمین‘‘ کا تخلیق کردہ ادب’’ادب برائے سماج‘‘ کی روشن مثال ہے۔