یونس خان اور پی سی بی تنازع کیا رخ اختیار کرے گا؟

July 06, 2021

پاکستان میں کھلاڑیوں کو جو مقام حاصل ہے وہ شائد کسی اور شعبے کے لوگوں کو نہ ملا ہو۔ کھلاڑی کھیل رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ان کے ناز نخرے برداشت کئے جاتے ہیں جب وہ ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں اس وقت ان کے مقام اور مرتبے میں کمی آجاتی ہے۔ بعض کھلاڑی ریٹائر منٹ کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ یونس خان ان میں سے ایک ہیں۔

گذشتہ سال جب انہیں کوچنگ کی ذمے داری دی گئی تو لگ رہا تھا کہ وہ بڑھتی ہوئی عمر اور حالات کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد ایک تبدیل انسان نظر آئیں گے۔ یونس خان کو قدرے اکھڑ مزاج اور جذباتی تصور کیا جاتا ہے تو کچھ اسے ان کی صاف گوئی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے کریئر میں چند ایسے واقعات رہے ہیں جو ان کے جذباتی ہونے کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔

سابق کپتان اور پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین ٹیسٹ بیٹسمین یونس خان کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوچنگ میں آئے تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک تبدیل شخص نظر آئیں گے۔کئی بار وہ پریس کانفرنس میں بھی اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ میں اب سابق کھلاڑی بن گیا ہوں میں اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ لیکن انگلینڈ روانگی سے قبل بیٹنگ کوچ کے عہدے سے استعفی دے کر انہوں نےاپنی تما م پرانی روایا ت کو برقرار رکھا۔

یونس خان جس صاف گوئی سے بات کرتے ہیں شائد موجودہ دور میں ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں قابل قبول نہیں ۔پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ سنچریاں اور رنز بنانے والے بیٹسمین یونس خان جو اپنے جذباتی فیصلوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، کبھی بھی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ نہیں رہے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں میں یہ یونس خان کا غیر لچکدار مزاج ہے جس کی وجہ سے ان کی پاکستان کرکٹ بورڈ سے کبھی نہیں بنی۔

سابق کپتان یونس خان ایک بار پھر شہ سرخیوں میں ہیں۔ جس کی وجہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے عہدہ چھوڑنا ہے۔دو ہفتے پہلے جب انہوں نے کوچ کا عہدہ اچانک چھوڑا تو پی سی بی اور یونس خان کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ دونوں اس حساس معاملے پر کوئی بات نہیں کریں گے۔ لیکن اس بات کو ابھی چند ہی دن گزرے ہیں کہ یونس خان میڈیا میں بیٹھے نظر آرہے ہیں اور کھل کر اپنے استعفے کی وجوہات بیان کر رہے ہیں۔ یونس خان اس معاملے کی ذمہ داری پاکستان کرکٹ بورڈ پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'وہیں سے اطلاعات اور خبریں لیک ہوتی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو میں ٹی وی پر بیٹھ کر باتیں نہ کر تا۔

یونس خان کے استعفے کے بعد پہلے یونس خان کے دانتوں کے علاج کے خبر میڈیا میں آئی پھر یونس خان اور حسن علی کے جھگڑے کی خبر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔جس کے بعد یونس خان نے میڈیا میں آکر اصل کہانی سے پردہ اٹھادیا۔یونس خان کہتے ہیں کہ پی سی بی کے ڈائریکٹر انٹر نیشنل کرکٹ ذاکر خان کے دھمکی آمیز فون کی وجہ سے انہوں نے پاکستان ٹیم کے ساتھ اپنی راہیں جدا کیں۔ میرے پاس ذاکر خان کال آئی میں نے انہیں بتایا کہ میری سرجری ہے میں جوائن نہیں کرسکتا، مجھے کہا گیا اگر آپ نہیں آئیں گے تو محمد حفیظ جیسی صورت حال ہوسکتی ہے، کال کرنے والے نے کہا جیسے حفیظ کے ساتھ کیا ویسے آپ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

میں نے ان سے کہا کہ میں محمد حفیظ نہیں یونس خان ہوں اور میری مجبوری ہے، میری ہی عزت نہیں کی جائے گی تو کھلاڑی کی کیا عزت ہوگی۔نجی ٹی وی کو انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ میں جنوری میں بھی ہائی پرفارمنس سینٹر کی مداخلت پر اپنے عہدے سے استعفی دے چکا تھا لیکن وسیم خان کی معذرت کے بعد میں نے استعفی واپس لیا ۔ حسن علی کے ساتھ واقعے پر استعفیٰ دینا ہوتا تو 4، 5 ماہ پہلے ہی دے دیتا، میرے استعفے سے حسن علی کے واقعے کی تال میل نہیں ملتی، ان کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی تھی لیکن معاملہ حل ہوگیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ حسن علی پشیمان ہیں تو میں خود ان کے پاس گیا۔

یونس خان نے استعفے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ لاہور میں کیمپ تھا پی سی بی نے بائیو سیکیور ببل سے متعلق نہیں بتایا تھا، سب کو بتایا میری سرجری ہے پھر بھی میں کیمپ میں شامل ہوا، تین جون کو پی سی بی کی کال آئی کہ آپ کی فلائٹ بک کرلی گئی ہے۔یونس خان نے بتایا کہ 22 جون کو ڈاکٹر کی کال آئی کہ آپ نے بائیو سیکیور ببل جوائن نہیں کیا، میں نے انہیں کہا میری سرجری ہے میں بائیو سیکیور ببل میں نہیں آسکتا۔یونس خان نے کہا کہ 2009 کی بغاوت سے متعلق بتایا کہ واقعے کا ماسٹر مائنڈ کوئی بھی ہوسکتا تھا مجھے معلوم نہیں ، لگتا یہی ہے کہ سارا معاملہ کپتانی کا ہی تھا۔

چیئرمین پی سی بی کے سامنے جس نے بات کی وہی واقعے کا ماسٹر مائنڈ ہوگا، اگر شاہد آفریدی نے بات کی تو شاید وہی ماسٹر مائنڈ تھے۔اسی انٹر ویو میں یونس خان نے ماضی کے ان تلخ حقائق سے بھی پردہ اٹھا یا جنہیں پاکستان کرکٹ کا تاریک باب کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت کے چیئر مین اعجاز بٹ اور منیجر یاور سعید نے سنیئر کھلاڑیوں کے ساتھ یونس خان کے بغاوت کی سازش تیار کی تھی اس بغاوت میں پاکستان ٹیم کے کم از کم آٹھ سنیئر کھلاڑی ملوث تھے۔ اس بغاوت کا سبب یونس خان کا ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ مبینہ سخت رویہ بتایا گیا تھا۔

اس بغاوت میں شامل کرکٹرز میں شاہد آفریدی، شعیب ملک، مصباح الحق کامران اکمل ،عمر اکمل ،سعید اجمل ،رانا نوید الحسن اور محمد یوسف پیش پیش تھے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ان سنیئر کھلاڑیوں نے یونس خان کی کپتانی میں نہ کھیلنے کا عزم کرتے ہوئے 'نہ صرف قرآن پر حلف اٹھایا تھا بلکہ وہ ٹیم کے منیجریاور سعید کے توسط سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ سے بھی ملے تھے۔ اس واقعے کو بارہ سال ہوچکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے والے فاتح کپتان اس بات کو ابھی تک نہیں بھولے اور اس کا ذکر کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔یونس خان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے درمیان جنوری میں معاملات خراب ہوچکے تھے۔جب پی سی بی نے کراچی ٹیسٹ کے موقع پر محمد یوسف ،ثقلین مشتاق اور دیگر کوچز کو ٹیم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔

یونس کا موقف تھا کہ ٹیم سے وابستہ کوچز موجود ہیں تو پھر ہائی پرفارمنس سینٹر کے کوچز کا قومی کیمپ میں آنے کا کیا مقصد اور اگر انھیں لانا ہی تھا تو ٹیم کے بیٹنگ کوچ کو اس بارے میں پیشگی اطلاع دینے کی زحمت گنوارا نہیں کی گئی۔ انہوں نے جنوری میں استعفی دے دیا تھا لیکن وسیم خان کے کہنے پر وہ دوبارہ کوچنگ کے لئے رضامند ہوئے۔ یونس خان جب کرکٹ کھیلتے تھے وہ اپنے جذباتی فیصلوں کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔2006 میں انہوں نے شہر یار خان سے ناراض ہوکر کپتانی چھوڑی،انہوں نے دوسری مرتبہ 2007 میں بھارت کے دورے کے موقع پر بھی اسی طرح کا فیصلہ کیا تھا۔

اس دورے میں انہوں نے شعیب ملک کے ان فٹ ہونے کے سبب دو ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کی تھی لیکن شعیب اختر اور راؤ افتخار کی سلیکشن کے معاملات پر اعتماد میں نہ لیے جانے پر کپتانی نہ کرنے کا فیصلہ کر ڈالا۔ اس مرتبہ بھی ڈاکٹر نسیم اشرف کو انہیں سمجھانا پڑا تھا۔ تیسری مرتبہ کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب قومی اسمبلی کے ایک رکن جمشید دستی نے ان پر مبینہ طور پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

یونس خان نے 2014 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس وقت زبردست تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب ان کو آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز کے لیے ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا، تو جذباتی انداز میں انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے سلیکٹرز کو چیلنج کیا تھا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان کرکٹرز ہی پاکستانی ون ڈے کرکٹ کا مستقبل ہیں تو وہ یہ بھی بتائیں کہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کا مستقبل کہاں ہے؟ سلیکٹرز کہتے ہیں کہ ان جیسے کرکٹرز کا مستقبل نہیں ہے تو کیا ان جیسے کھلاڑی خود کو گولی مارلیں۔یونس خان کے چونکا دینے والے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ون ڈے انٹرنیشنل کریئر سے ریٹائرمنٹ کا تھا۔

یہ نومبر 2015 کی بات ہے جب پاکستانی کرکٹ ٹیم متحدہ عرب امارات میں انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کھیلنے والی تھی۔یونس خان کاکیئریئر لاتعداد تنازعات سے بھر ہوا ہے۔وہ کسی نہ کسی وجہ سے بورڈ سے ناراض رہے۔اس بار لگ رہا تھا کہ یونس خان کوچنگ کی اننگز کامیابی سے مکمل کر لیں گے اور کچھ لوگ انہیں مستقبل میں پاکستانی ٹیم کا ہیڈ کوچ قرار دے رہے تھے۔ سابق کپتان بیٹنگ کوچ کا عہدے متازع انداز میں چھوڑ گئے اب وہ پی سی بی حکام پر لفظوں کی گولہ باری کررہے ہیں۔ابھی تک پی سی بی خاموش ہے دیکھیں یہ لڑائی کس طرف جاتی ہے لیکن پاکستان کرکٹ کو اس تنازع سے مزید رسوائی ملی ہے اور پرانی کہانیاں سامنے آنے سے بھی شرفاء کا کھیل مزید بدنام ہورہا ہے۔ بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی۔