چمکیلے کاغذ سے کھیلتا انسان

July 07, 2021

جسمانی درد دنیا کی بدترین تکلیفوں میں سے ایک ہے مگر جو لوگ ذہنی تکلیف سے گزرتے ہیں ، وہ یہ کہتے ہیں کہ جسمانی درد اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ دنیا کا ہر جاندار اپنی زندگی کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے جب زندگی کو پیدا کیا تو ہر جاندار میں تکلیف محسوس کرنے کا ایک نظام رکھا۔ ہڈیوں کے اوپر گوشت ہے اور گوشت کے اوپر جلد۔ اس جلد کے نیچے جسم کے ایک ایک پور تک ایسی تاریں (Nerves) ڈالی گئی ہیں، جو تکلیف کا احساس فوراً ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے دماغ تک بھیج دیتی ہیں۔ یوں تکلیف کے اس احساس کی وجہ سے جاندار اپنے جسم کی حفاظت کرتے ہیں۔درد ماں کو اولاد جنم دینے میں مدد کرتاہے ۔

ان نروز میں درد کا احساس اس طرح سفر کرتاہے، جیسے بجلی تار میں دوڑتی ہے۔اگر انہیں منقطع کر دیا جائے یا اس کرنٹ کی منتقلی روک دی جائے تو چاہے آپ کی ٹانگ آری سے کاٹ دی جائے، آپ کو احساس تک نہیں ہوگا۔اگر سب اپنی اپنی جان بچا کر گوشہ عافیت میں پڑے رہتے تو انسان نت نئی زمینوں تک کیسے پہنچتا۔ اس کے لیے ایک اور طاقتور جذ بہ درکار تھا۔ یہ جذ بہ تجسس کا تھا۔ نا معلوم چیزوں کی کشش۔ انسانی دماغ کو ہر نامعلوم چیز میں گہری دلچسپی ہے۔

یہی تجسس ہی تھا، جس نے انسان کو اجنبی سرزمینوں کے سفر پہ اکسایا۔ فاسلز کے ماہرین کہتے ہیں کہ سب سے پہلے انسان افریقہ میں آباد ہوا۔ وہاں سے بالآخر اس نے ایک بہت بڑا خطرہ مول لیتے ہوئے ایشیا اور یورپ کا سفر کیا۔ معمولی اوزاروں اور ہاتھ سے بنائی گئی کشتیوں میں انسان نے جب یہ انتہائی پر خطر سفر شروع کیاتو تجسس ہی اسے مہمیز کرنے والا بنیادی جذبہ تھا۔ آج بھی دنیا کے قدیم ترین انسانی فاسلز افریقہ سے ہی ملتے ہیں۔ جون 2017ء میں یہ انکشاف سائنسی جریدے نیچر میں چھپا کہ مراکش میں دریافت ہونیوالے انسانی فاسلز کی عمر 3لاکھ سال ہے۔ ان کے پاس پتھر سے بنے ہوئے اوزار موجود تھے اورانہوں نے وہاں آگ بھی جلائی تھی۔

خیر انسان افریقہ سے نکلاتو ایشیا اور یورپ ہی نہیں، آسٹریلیا اور امریکہ تک پھیلتا چلا گیا۔ کرّہ ارض کے ہر اس جزیرے پر اس نے قیام کیا، جہاں زندگی گزارنا ممکن تھا۔ انسان ترقی کرتا جارہا تھا۔ وہ غیر معمولی ذہانت کا حامل تھا۔ اس ذہانت پہ تجسس کا کوڑا پیہم برس رہا تھا۔ انسان نے اندازہ لگایا کہ کسی بھی چیز کو نظر بھر کر دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے کچھ دور سے دیکھا جائے۔ اگر ہم زمین کو ایک نظر بھر کر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اڑ کر کچھ فاصلے پر جا کر اسے دیکھنا ہوگا۔ لوہے سے راکٹ اور انجن بنائے گئے۔ اس میں تیل جلا کر توانائی پیدا کی گئی۔ انسان خلا میں چلا گیا۔ وہاں اس نے سیٹیلائٹس پر کیمرے نصب کر کے انہیں زمین کے مدار میں چھوڑ دیا۔ یوں کرّہ ارض کے چپے چپے کی معلومات اس تک پہنچ گئیں۔

ان جدید ترین کیمروں، دوربینوں اور شعاعوں کی مدد سے انسان پڑوسی سیاروں کو دیکھتااور چاند کو، جو خوبصورتی کی علامت تھا۔کتنے ہی انسان اس کوشش میں حادثات کا شکار ہوئے۔اسی تجسس کی مد د سے انسان نے کرّہ ارض پہ موجود مفید عناصر سے اڑنے والی چیزیں بنا لی تھیں۔ آخر کار انسان چاند پہ بھی اتر گیا۔ چاند تو بہت قریب تھا، دور دراز کے سیاروں، زحل اور اس کے چاند ٹائٹن تک انسان نے راکٹ روانہ کیے۔ اور تو اور، ایک سیٹیلائٹ (وائیجر ون) نظامِ شمسی کی حدود سے بھی باہر بھیج دیا۔ یہ الگ بات کہ دوسرے قریب ترین سورج تک پہنچنے کے لیے اسے 75ہزار سال درکار تھے۔ بہرحال انسان نے تو کائنات کھوجنے کا اپنا فرض ادا کیا۔ اگر تجسس نہ ہوتا تو انسان ایک ہی جگہ بیٹھ کر پوری زندگی گزار دیتا۔

تجسس جانوروں میں بھی ہوتاہے لیکن بالکل سادہ ۔ جانورصرف سونگھ کر دیکھتا ہے کہ اس شے کو کھایا جا سکتاہے یا نہیں ۔ وہ لوہے کو سنبھال کر نہیں رکھ سکتا کہ کل یہ لڑائی میں کام آئے گا۔آج بھی جب ایک انسانی بچّہ پیدا ہوتا ہے، وہ بے تابی سے اپنی پانچ حسوں کی مدد سے، اپنی جلد، اپنی زبان، اپنے ناک، اپنی آنکھ اور اپنے کان کی مدد سے اس دنیا کا ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ تجسس کی وجہ سے۔ جب یہ تجسس ختم ہو جاتا ہے تو روشنیوں والا ایک کھلونا اس کے لیے بے کار ہو جاتا ہے۔ اسے وہ پھینک دیتا ہے۔

یہ تجسس اس قدر بڑی قوت ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دوسرے سیاروں پر پانی، ہوا، آکسیجن، پودے اور مقناطیسی میدان موجود نہیں، انسان اجنبی سیاروں پر جانے کیلئے بے تاب ہے۔اس نیلے سیارے سے محرومی پر وہ تیار ہے، جہاں پانی بارش کی صورت آسمان سے برستا ہے۔ جس کے ایک ایک گوشے پر آکسیجن مہیا ہے۔ اس آکسیجن کی قیمت پوچھنی ہوتو کسی خلا باز سے پوچھئے۔ انہیں تو یہ سلنڈروں میں بھر کر ساتھ لے جانا پڑتی ہے۔

یہاں ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ ایک ذات اس قدر خوبصورت تخلیقات کرتی ہے۔ پھر ایک مخلوق کو خاص سوچنے والا دماغ دیتی ہے۔ اس کے اندر تجسس پیدا کرتی ہے۔ صرف دماغ ہی نہیں دیتی بلکہ کائنات کا جائزہ لینے کے لیے وسائل بھی اس زمین میں رکھ دیتی ہے۔ایسے شیشے رکھتی ہے، جن سے دوربینیں بن سکیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟

اس سے پہلے ایک لطیفہ سنیں۔ شیر خوار بچے کو چمکیلے کاغذ میں لپٹا ہوا ایک کھلونا دیں تو وہ کھلونے کی بجائے اس چمکیلے کاغذ سے کھیلنا شروع کر دیتاہے۔ اصل تحفے تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔کبھی کبھی محسوس ہوتاہے کہ یہ کائنات بھی ایک چمکیلا کاغذ ہے۔ اسے دیکھ دیکھ کر ہم خوش ہو رہے ہیں۔ ڈبہ نہیں کھولتے۔