افسانہ نگار، صحافی اور مترجم ’’مسعود اشعر‘‘

July 12, 2021

ایک ایک کرکے لوگ بچھڑتے چلے گئے

یہ کیا ہوا کہ وقفہ ماتم نہیں ملا

اردو کے معروف افسانہ نگار، مترجم اور صحافی محترم مسعود اشعر کی رحلت کی خبر سنی تو ساقی فاروقی کا یہ شعر دیر تک ذہن میں گونجتا رہا ۔ انتظار حسین اور شمیم حنفی سے لے کر مسعود اشعر تک اردو ادب کے کئی چہرے نگاہوں میں گھوم گئے جو کچھ برسوں میں ہم سے بچھڑ گئے تھے ۔ پچھلے کچھ عرصے سے تو یوں لگنے لگا ہے جیسے موت کا اصل نشانہ تو فکشن لکھنے والے ہیں ا س طرف تو اس وار بھی اندھا دھند رہا ہے کہ چھوٹا بڑا نہیں دیکھا جو راہ میں آیا ، یا ذرا کمزور پڑا دکھائی دیا اُچک کر چل دِی ۔ڈاکٹر آصف فرخی، خالدہ حسین، شمس الرحمن فاروقی، مسعود مفتی، ڈاکٹررشید امجد، ڈاکٹر انور سجاد ؛یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اردو فکشن کی کتاب میں اپنے لیے الگ سے باب مختص کر لیے تھے ۔ ہر ایک الگ اسلوب کا حامل اور زبان و ادب کا دامن مالا مال کرنے والا ۔

مسعود اشعر کے پاکستان کے قومی سطح پر بہ طور صحافی اور افسانہ نگار اپنی شناخت بنانے کے پیچھے ان کی طویل جدو جہد ہے ۔ ہمیشہ اجلے لباس میں نظر آنے والے مسعود اشعر کا اپنا کردار بھی بہت اجلا رہا ۔ بتایا جاتا ہے کہ جنرل ضیاالحق کی آمریت کا زمانہ تھا تو وہ امروز ملتان کے ایڈیٹر تھے۔ انہی دنوں کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور ساتھ ہی حکم ہوا کہ خبر اخبارات میں نہ آنے دی جائے۔

مسعود اشعر آمریت کے دل سے دشمن ایسی خبر کو کیسے سنسر کر سکتے تھے جو ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے کا سبب بن سکتی تھی۔ اخبار میں خبر چھپ گئی۔ وہ ملازمت سے برطرف کر دیے گئے۔ فتح محمد ملک نے لکھا ہے کہ مسعود اشعر بیروزگار رہے اور جیل کاٹی مگر آزادی صحافت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

مسعود اَشعر کا شمار اُن اَفسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ستر کی دہائی میں اپنی شناخت بنالی تھی ۔ ’’ آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کی کہانی کا قرینہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگاتھا اور ’’اپنا گھر‘‘ کی اشاعت تک ان کے ہاں موضوعات کا جو تنوع آیا ہے وہ اپنی جگہ بہت اہم ہو جاتا ہے ۔ مسعود اشعر ۱۰ فروری ۱۹۳۱ء کو رام پور اتر پردیش میں پیدا ہوئے اور عین جوانی میں ہی پائوں کی مٹی نے ساتھ چھوڑ دیا۔قیام پاکستان کے بعد پہلے ملتان رہے اور پھر لاہور میں آکر مسعود اشعر نے جو دیکھا اسے اپنے فکشن کا موضوع بنایا۔ تقسیم کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور سلیقہ ہو تو بہت کچھ لکھے جانے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ ’ ’ اپنا گھر ‘‘کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسعود اشعر کے پاس سلیقہ بھی تھا اور حوصلہ بھی ۔ ’’بیسویں صدی کی آخری کہانی ہو ‘‘یا’’میں نے جواب نہیںدیا‘‘ جیسے اَفسانے مربوط کہانی کے لطف کو بحال رکھ کر ذہنی کشادگی کی صورتیں بہم کرتے ہیں۔ رشتوں اور تعلق میں عجب طرح کا بندھن انہوں نے دریافت کیا ہے اور لطف یہ مسعوداشعر کا بیانیہ حد درجہ جادو اثر ہے۔

مسعود اشعر کے افسانوں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ پہلا وہی ، ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ جس سے میں نے انہیں بہ طور ترقی پسند اور روشن خیال افسانہ نگار کے طور پر انہیں پہچاننا شروع کیا تھا۔ پھر’’سارے افسانے‘‘ اور’’اپنا گھر‘‘ اور یہ دو ایسے مجموعے تھے جنہوں نے مسعود اشعر کی شناخت بہ طور افسانہ نگار مستحکم کی ۔ ’’سوال کہانی‘‘ کے نام سے ان کے افسانوں کا مجموعہ کوئی دو برس پہلے آیا تھا۔

سوال کہانی کا انتساب پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی تھی ۔ کتاب میں مختص انتساب کے صفحے پر لکھا تھا’’اپنے نام‘‘۔ ایک ایسا شخص جو دوسروں کے لیے جیتا رہا اور سماجی سطح پر انقلابی تبدیلی کی خواہش رکھتا تھا ، جس کے افسانوں میں بھی روشن خیالی اور ترقی پسندی چھلک چھلک پڑتی تھی ، اس شخص نے اپنے افسانوں کو اپنے نام ہی معنون کیوں کیا؟ یہ سوال میں نے مسعود اشعر سے کیا تھا اور ان کا جواب تھا کہ’’بھئی میں بھی تو سماج کا حصہ ہوں اور سماج کے پاس اپنے وجود کے اندر سے راستہ بنا کر پہنچتا ہوں ۔ اس لیے ان کہانیوں کا وسیلہ تو میرا وجود ہوا ناں! ‘‘

اس کتاب کے افسانوں میں انہوں نے آج کے موضوعات پر بات کی ہے مگر کہیں بھی فنی تقاضوں پر آنچ نہیں آنے دی ۔ مثلاً دیکھئے پہلا ہی افسانہ ، اس میں وہ عورت اور مرد کے درمیان موجود رشتے کی لطیف سطحوں کو بیان کر رہے ہیں اور ایسے ایسے نکات کہانی کے متن میں حصہ بنا رہے ہیں جو کسی اور طرح سے گرفت میں نہیں آسکتے ۔س افسانے سے ایک اقتباس:

’’تم نے اسے پھولوں کا رس چوستے دیکھا ہے؟‘‘ اُس نے پدے کو چھت کے ساتھ ایک ہی جگہ پر اپنے پر پھڑپھڑاتے ہوئے دیکھا ۔’’یہ ہوا میں ایسے معلق ہوتا ہے جیسے ایک ہی جگہ کھڑا ہو۔ صرف اس کے پر پھڑ پھڑاتے رہتے ہیں اور وہ ہوا میں معلق پھولوں کا رس چوستا رہتا ہے۔‘‘وہ نظریں جمائے پدے کو دیکھتا رہا۔‘‘ (کون ڈرتا ہے نارمن میلر سے )

بتاتا چلوں کہ اس افسانے کا آغاز ایک ایسے پدے کے ذکر سے شروع ہوتا ہے جو اتفاقاً ڈرائنگ روم میں آگیا تھا جہاں وہ دونوں میاں بیوی موجود تھے ، پدے کوو اپسی کا راستہ نہیں مل رہا تھا اس کے سامنے شیشے کی صاف شفاف دیوار تھی جس کے باہر سرسبز لان تھا اور وہ بار نکلنے کے لیے بار بار اس طرف جاتا اور اس دیوار سے ٹکراتا تھا۔ یہی پدا افسانے میں مرد کی علامت کی صورت ظاہر ہوتا ہے ۔

آ پ کوئی سا افسانہ اٹھا کر دیکھیں مسعود اشعر آپ کو انسانی رشتوں کی الجھی ہوئی ڈوریں سلجھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اس باب میں کہیں وہ سیدھے سادے بیانیے سے کام لیتے ہیں اور کہیں کرداروں کے بیچ مکالمے سے ۔ کہیں وہ مختلف مناظر کو جوڑ کر ایک خیال تک پہنچتے ہیں اور کہیں خیالات کے الجھائو سے انسانی صورت حال کی کہانی نکال لاتے ہیں۔ اگر وہ ’’نیند نہیں آتی‘‘ جیسی کہانی میں جدید تر زندگی سے فرد کے ذہنی سکون کے اتلاف کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو ’’بسم اللہ کا گنبد‘‘ جیسے افسانے میں ہماری مذہبی تنگ نظری پر چوٹ لگا رہے ہوتے ہیں جس نے زندگی کا دائرہ سکیڑ کر رکھ دیا ہے۔

یہ کتاب میرے سامنے پڑی ہے اور میں نے اس کتاب کے افسانے ایک بار پھر پڑھ لیے ہیں۔ ’’یہ میرا دیس ہے‘‘،’’اُس کا کیا نام تھا؟‘‘،’’انتقام‘‘،’’میں نے جواب نہیں دیا‘‘،’’تانا شاہ کی بیٹی‘‘،’’چھتری‘‘،’’کتنے وطن‘‘،’’سوال کہانی‘‘،ستر سال کی دوری‘‘ آپ افسانے پڑھتے جاتے ہیں اور متن میں گندھی ہوئی فکشن کی دانش اپنا کام کرتی ہے ۔افسوس کہ مسعود اشعر جو کہانی کہنے کا ہنر جانتے تھے اور انہوں نے بہت خوب صورت افسانے دیے بھی مگر ایک افسانہ نگار کے طور پر بہت کم کم زیر بحث آئے ہیں۔

صحافت اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی ایک شناخت مترجم کی بھی ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے پہلے پہل ان کا ترجمہ کیا ہوا ایک ناول’’زخم کا نشان‘‘ پڑھا تھا ۔ یہ ناول اتنی رواں دواں اور پر اثر زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا کہ لگتا تھا جیسے اردو ہی میں لکھا گیا ہو۔ یہ ناول ایک فلسطینی لڑکی سوزن ابوالہوا کا لکھا ہوا تھا۔

ناول نہیں آپ بیتی کہہ لیں کہ سوزن ابوالہوا کو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے عذابوں نے ناول نگار بنا دیا تھا۔ پھر میں تلاش کرکے ان کے ترجمہ کی ہوئی کتابیں پڑھتا رہا اور یہ فہرست بھی طویل ہے۔آپ ان کی ترجمہ کی ہوئی کتب کو دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ وہ ایسی کتب کو ترجمے کے لیے منتخب کرتے تھے جو پڑھنے والوں کی فکر میں مثبت تبدیلی پیدا کر سکے اور ان کے اندر فکری آزادی اور انسانوں سے محبت کی قندیل روشن کر سکے ۔

جب پاکستان بھر میں اردو کانفرنسوں اور ادبی میلوں کا سلسلہ چل نکلا تو ہماری ملاقاتیں تسلسل سے ہونے لگیں۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد، فیصل آباد ؛ جہاں بھی فکشن پر بات کرنا ہوتی اور مجھے بلایا جاتا تو اسٹیج پر جو سینئر گفتگو کرنے والے ہوتے وہ انتظار حسین اور مسعود اشعر ہی ہوتے۔ انتظار حسین اور مسعود اشعر تو ہر کہیں ساتھ ساتھ نظر آتے ۔ ایک ساتھ چلتے ہوئے وہ لگتے بھی بہت اچھے تھے۔ مسعود اشعر چپ چاپ اپنی باری کا انتظار کرتے کبھی کسی کی بات کاٹتے نہ انہیں گفتگو میں پہل کرنے کا ہوکا تھا۔ کبھی انہوں نے دلیل کے بغیر بات نہیں کی ۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ انہوں نے دوسرے فرد کے نقطہ نظر کو سختی سے رد کر دیا ہو ۔ وہ ان نقاط سے بات آغاز کرتے جس پر دوسرا فرد متفق ہوتا یا اسے اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔

کہہ لیجئے فکر کے مشترکہ علاقوں سے وہ آگے بڑھتے اور اپنے خالص نقطہ نظر کے خال و خد واضح کرتے چلے جاتے اور یوں ماحول گفتگو کے لیے ہمیشہ ساز گار رہتا تھا۔ مجھے مسعود اشعر اور انتظار حسین کے ساتھ الحمرا لاہور کے زبان و ثقافت کے فیسٹول ، کراچی لٹریچر فیسٹول، عالمی اردو کانفرنس، اسلام آباد لٹریچر فیسٹول اور دوسرے مواقع پر جن موضوعات پر مکالمے کا موقع ملا وہ بالعموم فکشن کے موضوعات تھے۔ اردو افسانے کی تاریخ سے لے کر اسلوب اور تیکنیک کے تجربات تک جس بھی موضوع پر مسعود اشعر گفتگو کرتے پوری تیاری کے ساتھ کرتے ۔ انتظار حسین نہ رہے توبھی وہ ایسے پروگراموں کا حصہ ہوتے رہے مگر مجھے لگتا ہے کہ جوڑی ٹوٹنے سے وہ اندر سے بھی ٹوٹ گئے تھے۔ جب بھی ملتے انتظار حسین کو یاد کرتے تھے۔

کچھ دِن پہلے کشور ناہید نے بتایا تھا کہ مسعود اشعر حددرجہ ڈپریشن کا شکار ہے۔وبا کے اس عرصے میں ہماری ملاقاتیں ختم ہو کر رہ گئی تھین تاہم ان سے فون پر بات ہو جاتی تھی جس سے مجھے اندازہ ہوتا کہ وہ تنہائی محسوس کرنے لگے تھے ۔ حوصلے والے تھے کہ ان کے کالم ایسے میں بھی، ان کے پسندیدہ موضوعات پر مسلسل اخبارات میں چھپ رہے تھے ۔ سیاسی سماجی موضوعات ان کے افسانوں کا موضوع تھے اور ان کے کالموں کا بھی ۔

بتایا گیا ہے کہ چار جولائی کی شام ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا۔ پانچ جولائی 2021 کی شام ان کی رحلت کی خبر آگئی ۔ نوے برس کی عمر میں وفات پانے والے مسعود اشعر اپنی زندگی کے آخری لمحات تک کاغذ قلم سے رشتہ استوار رکھے رہے اور ایسے افسانے اردو ادب کو دے گئے ہیں کہ وہ زیر بحث آتے رہیں گے۔