طالبان کی لفظی حمایت پہ اکتفا نہ کریں

July 14, 2021

20سالہ خوفناک افغان جنگ کا انجام یہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرے شہر پر طالبان جھنڈا گاڑ رہے ہیں۔ سپر پاور امریکہ کی شکست کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بھی ملّا عمر کے حق میں نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملّا عمر ایک عظیم انقلابی، اسلامی اور جہادی شخصیت ہے، عظمت جس پہ ٹوٹ ٹوٹ کے برس رہی ہے۔ امریکہ سے تو خیر کوئی بالکل بےحمیت شخص ہی ہمدردی رکھ سکتا ہے لیکن متاثرینِ ملّا عمر سے کچھ سنجیدہ سوالات ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ افغانستان میں کسی سپرپاور کو شکست ہوئی ہو۔ 1989میں سوویت یونین کو بھی تاریخی ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ پھر کیا ہوا؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فتح کے بعد مجاہدین ایک دوسرے کو گلے لگاتے۔ اتفاقِ رائے سے اپنا امیر چنتے اور ترقی کی راہ پہ گامزن ہو جاتے۔ تعلیم عام ہوتی، صنعت کاری ہوتی، معیشت قلانچیں بھرتی ہوئی آگے بڑھتی۔ ایمان والوں پہ تو ﷲ کی رحمت ہوتی ہے۔ سود سے پاک مالیاتی ادارے بنائے جاتے اور دنیا کو دکھایا جاتا کہ سود کے بغیر بھی ترقی ممکن ہے۔ افغانستان عالمی طاقتوں کی صف میں شامل ہو جاتا۔ جاپان جیسے ملک اسے حسرت کی نگاہ سے دیکھتے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سوویت یونین کو شکست دینے والے مجاہدین اقتدار کو ٹھوکروں میں اڑا دیتے۔ درویش کہاں اقتدار کی تمنا پالتا ہے۔ ہوا مگر یہ کہ سوویت یونین کی شکست کے بعد اقتدار کی خاطر 22برس تک وہ دیوانوں کی طرح آپس میں لڑتے رہے؛ حالانکہ خانہ کعبہ کے سائے میں انہوں نے ایسا نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ جنگ جاری رہی حتیٰ کہ ملاعمر کی قیادت میں ایک جماعت زیادہ منظم ہو کر اٹھی اور اس نے اپنے تمام مخالفین کو قتل کر دیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ملّاعمر کے افغانستان میں اسمگلنگ کے علاوہ بھی معیشت کن خطوط پر استوار تھی؟

بارہ بارہ سال کے لڑکوں کو ذہنی غسل سے گزار کر خود کش بمبار بنا دیا گیا۔ اس خطے میں سب سے زیادہ خود کش دھماکے ہوئے۔ خواتین، بچوں، بوڑھوں، خانقاہوں اور درسگاہوں کو بم سے اڑا دیا گیا۔ پاکستانی طالبان نے خودکش حملوں کی تربیت افغان طالبان اور القاعدہ سے حاصل کی اور شمالی وزیرستان میں خودکش حملوں کی صنعت قائم کی۔ لڑکوں کو یقین دلایا جاتا کہ بم پھٹتے ہی وہ حوروں کی آغوش میں جا گریں گے۔ انہیں منشیات استعمال کرائی جاتیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن میں ہم جنس پرستی کی شرح بہت بلند ہے، گو کہ مغرب کے برعکس ایسا چھپ کے کیا جاتا ہے۔ پاکستانی اور افغان طالبان کا تعلق ایک ہی مکتبِ فکر سے تھا۔ افغان طالبان ہی پاکستانی طالبان کے رول ماڈل تھے۔ بےپناہ اثر ورسوخ کے باوجود ملّا عمر نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ انہیں پاکستان میں حملوں سے روکا جائے۔

اور تو اورحضرت داتا گنج بخش ؒ کے مزار پر خودکش حملہ ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی طالبان کس طرح افغان طالبان سے مختلف تھے؟ ساری خصلتیں تو ان میں ایک جیسی تھیں۔ اپنی مخالفت کرنے والے کا وہ گلا کاٹ دیتے تھے، خواہ وہ کلمہ پڑھتا ہو، نماز پڑھتا ہو۔ کیا پاکستانی طالبان نماز نہیں پڑھتے تھے؟ تلاوت نہیں کرتے تھے؟ امیر المومنین حضرت علی کرم ﷲ وجہہ سے لے کر طالبان تک تمام خارجی ایک ہی جیسی صفات کے حامل تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ پاکستان کو افغانستان دوئم بنا دیا جائے لیکن بھلا ہو پاک فوج کا، جس نے سینے پر گولیاں کھائیں مگر درندوں کو مار ڈالا۔

ملّاعمر کا افغانستان دنیا بھر میں خودکش حملوں کے لئے ایک تربیتی کیمپ بن گیا۔ 9گیارہ کے بعد جب امریکہ حملے پر تلا تھا تو اسامہ بن لادن کو افغانستان سے رخصت کیا جا سکتا تھا۔ انہیں او آئی سی کے حوالے کیا جا سکتا تھا کہ جنگ ٹال دی جائے۔ ایک شخص آپ کے گھر میں رہ رہا ہے اور پورا محلہ اس کی شکایت کر رہا ہے۔ اگر یہ شکایات غلط بھی ہیں تو آپ فساد کی اس جڑ کو گھر سے رخصت کیوں نہیں کر دیتے؟ آپ اس کی حفاظت کو اسلام کی جنگ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن نے کبھی نہیں سوچا کہ میرے لئے جو لاکھوں بےگناہ قتل ہونے ہیں، میں خود ہی چلا جائوں۔ کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی عورتوں کا سہاگ اجڑا، کتنے تنومند نوجوان معذور ہوئے، انہیں قطعاً کوئی رحم نہیں آیا۔ پھر ایبٹ آباد میں جیسی موت انہیں نصیب ہوئی، وہ سب نے دیکھی۔ بہت سے میرے بھائی کہتے ہیں کہ ایبٹ آباد میں اسامہ تھا ہی نہیں، بچگانہ باتیں! اسامہ بن لادن کی بیوائیں اور بچے پاکستانی عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہے۔ اسامہ وہاں نہ ہوتا تو پاک فوج پوری دنیا میں یہ مقدمہ پیش نہ کرتی؟ یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں، جو ہر سازشی تھیوری پہ ایمان رکھتے ہیں۔

پھر بھی میرے بہت سے بھائی ایمان رکھتے ہیں کہ افغان طالبان نے جہاد کی قوت سے امریکہ کو شکست دی۔ ان سے میرا سوال یہ ہے کہ ویت نام والوں نے بھی امریکہ کو شکست دی۔ وہ تو مسلمان تھے ہی نہیں۔ یہ اسلام کی جنگ نہیں ہے۔ چاکلیٹ اور شراب پہ پلنے اور ڈائپر پہننے والے، کئی ملین ڈالر مالیت رکھنے والے لاڈلے امریکی فوجی دنیا بھر میں اسی تاریخ کے حامل ہیں۔ امریکہ کے حصے میں تو ذلت آنی ہی تھی کہ ہر مغرور عالمی طاقت کے ساتھ خدا ایسا ہی کرتاہے۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمر مگر کہاں سے ہیرو ہو گئے ؟اگر آپ واقعی انہیں ہیرو سمجھتے ہیں تو لفظی حمایت پہ اکتفا نہ کریں۔ افغانستان کی امیگریشن لیں، برقع نہ اوڑھنے اور نماز نہ پڑھنے پر کوڑے کھانے کی پریکٹس کریں، ٹی وی اور موبائل توڑیں اور افغانستان کی طرف نکلیں تاکہ ’’نفاذِ اسلام‘‘ کی برکتوں سے مستفید ہو سکیں۔