طالبان کی کامیابیوں پر اے این پی اور جے یو آئی میں اختلافات

July 15, 2021

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی بڑی تیزی سے جاری ہے افغانستان کا 85 فیصد سے زیادہ حصہ طالبان کے کنٹرول میں آچکا ہے۔ طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اورتابڑتوڑ حملوں سے افغان فوجی حوصلہ ہارتے جا رہے ہیں اور ہزاروں فوجی طالبان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ہتھیار ڈال کر پڑوسی ممالک فرار ہو گئے ہیں۔ افغانستان کے85فیصد س زائد حصہ کنٹرول حاصل کرنے سے طالبان کے حوصلے مزید بڑھتے جا رہے ہیں اور طالبان کی طرف سے نئے جذبہ کے ساتھ کامیابی سے پیش قدمی کا سلسلہ جاری ہے۔

افغانستان سے ہزاروں لوگوں کے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاک افغان سرحد کو بند کر کے نگرانی کا سلسلہ سخت کر دیا گیا ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والوں میں دہشت گرد بھی پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں اور دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردی کی وارداتیں کر سکتے ہیں۔ طالبان کی شاندار کامیابیوں پر پاکستان میں وطن دوست قوتوں کی طرف سے خوشی کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ افغانستان کو امریکہ کی غلامی سے آزاد کروانے کی جنگ لڑنے والے طالبان دہشت گرد نہیں بلکہ وطن پرست ہیں۔ پختون فطرتاً آزادی پسند ہیں۔

پختونوں کی طرف سے ماضی میں بھی غلامی قبول نہیں کی گئی اور پختون اب بھی غلامی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔افغانستان میںطالبان کی شاندار کامیابیوں پر خیبر پختونخوامیں اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان سیاسی محاذ آرائی بڑھتی جا رہی ہے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی طرف سے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ طالبان کی کامیابیوں پر جشن منانے والے پختونوں کے دشمن ہیں۔

ایمل ولی خان کےالزامات پر جمعیت علمائے اسلام کے رہنمائوں کی طرف سے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وطن کی آزادی کے لئے جنگ لڑنے والے طالبان پختونوں کو امریکہ کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے جنگ لڑرہے ہیں۔ ایمل ولی خان طالبان کی مخالفت کر کے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

جے یو آئی کے رہنمائوں نے کہا کہ باچا خان نے علمائے دیوبند سے مل کر ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے جدوجہد کی جبکہ خان عبدالولی خان کی طرف سے1970کے انتخابات کے بعد جمعیت علمائے اسلام سے اتحاد کر کے صوبے میں مولانا مفتی محمود کی سربراہی میں صوبائی حکومت بنائی گئی جب ذوالفقار علی بھٹو کی طر ف سے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو جمعیت علمائے اسلام کے وزیراعلیٰ مولانا مفتی محمود نے وزارت اعلیٰ کو ٹھوکر مار کر یہ ثابت کر دیا کہ جے یو آئی اقتدار کی بھوکی نہیں۔

خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں سے گھروں س زبردستی اٹھانے جانے والے قبائل کی بازیابی اور قبائلی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے خلاف قبائل کی طرف سے احتجاج بڑھتا جا رہا ہے۔جانی خیل قبیلہ کے قبائلیوں کے شدید احتجاج کے بعد مہمند اور خیبر کے قبائل کی طرف سے بھی احتجاج شروع کر دیا گیا جبری لاپتہ ہونے والوں کے لواحقین ایک ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں جبکہ پشاور میں صوبائی اسمبلی ہال کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا گیا ہے۔احتجاج کرنے والوں میں ڈاکٹر، علمائے کرام اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شامل ہیں احتجاجی کیمپ میں تنظیم خدمت خلق خیبر پختونخوا کے صوبائی چیئرمین یوسف خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں گذشتہ دس سا ل سے قبائلیوں طلبا و نوجوانوں کو چھاپے مار کر گھروں سے زبردستی اٹھانے اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ لاپتہ ہونے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی تلاش کے لئے دس سال سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اگر لاپتہ ہونے والے قبائلیوں کو فوری طور پر بازیاب نہ کروایا گیا تو وزیراعظم ہائوس کے سامنے اور بنی گالہ میں احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔

پشاور میں دس جولائی 2018 کو خود کش حملہ میں شہید ہونے والے اے این پی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی شہید امن شہید بیرسٹر ہارون احمد بلور کی دس جولائی کو تیسری برسی نہایت ہی عقیدت و احترام سے منائی گئی ۔ برسی کے موقع پر پشاور کی شاہرائوں اور بازاروں کو اسفندیار ولی خان ایمل ولی خان ، الحاج غلام احمد بلور، شہید شبیر احمد بلور، شہید بشیر احمد بلور اور شہید ابن شہید بیرسٹر ہارون احمد بلور کی بڑی بڑی تصاویر سے سجایا گیا۔

برسی کے سلسلے میں شہدا کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کے لئے صبح قرآن خوانی ہوئی جس کے بعد اے این پی کے بزرگ سیاستدان و سابق وفاقی وزیر الحاج غلام احمد بلور کی سربراہی میں شہید بشیر احمد بلور، شہید امن شہید بیرسٹر ہارون احمد بلور اور شبیر احمد بلور کی قبروں پر پھولوں کی چادریںچڑھائی گئیں۔