ہندوستان اور مسلمان

July 24, 2021

جہالت ہے یا جان بوجھ کر یہ تاثر پیدا کیا گیا لیکن تاریخی سچ یہی ہے اور اس کے سرکاری شواہد بھی موجود ہیں کہ ہندوستان میں پہلے مسلمان سپاہی نہیں بلکہ مسلمان تاجر آئے تھے بلکہ اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی آمد سے پہلے بھی عرب تاجروں کی مالابار، کیرالہ وغیرہ میں آمد و رفت رہتی تھی۔ محمد بن قاسم تو بہت بعد میں سندھ پر حملہ آور ہوا۔ ویسے بھی تاریخ کی ایک بری عادت یہ ہے کہ وہ حملوں، جنگوں، فتوحات، شکستوں پر تو بہت فوکس کرتی ہے لیکن تجارت اور پرامن تحریکوں پر ذرا کم توجہ دیتی ہے۔

جنگجوئی سے بہت پہلے مسلمان تاجر، ملاح، جہاز ران، کیرالا مالابار کے ساحلوں پر آباد ہو چکے تھے جن میں اکثریت مسقط اور ہرمز کے تاجروں کی تھی جو نورِ اسلام کے پھیلنے پر مسلمان ہوتے چلے گئے۔ کے ایم پانیکر اپنی معروف کتاب ’’تاریخ کیرالا‘‘ میں لکھتے ہیں:’’جب اسلام تمام عالم عرب پر چھا گیا تو اس کے اثرات بہت جلد کیرالا میں بھی محسوس کئے گئے۔ ایک قدیم روایت کے مطابق دمل مہاراجہ کیرالا نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا اور مالا بار کے علاقہ میں مقامی آبادی کے قبول اسلام اور عرب تاجروں کی بڑھتی آبادی سے بھی اسلام بہت پہلے ہی پھیلنا شروع ہو گیا تھا اور یہ بات 661ہجری کے ایک مسلم مخطوطے سے بھی ثابت ہوتی ہے جو شمالی ارکاٹ میں آج بھی موجود ہے‘‘۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ جب دہلی ابھی قطب مینار فیم قطب الدین ایبک کے تسلط میں نہیں آیا تھا تو مالابار میں مسلمان اس قدر مستحکم ہو چکے تھے کہ ایک طرف ہندوستان، دوسری طرف مشرقی ایشیا کے درمیان ہر طرح کی بحری تجارت ان کے ہاتھ میں تھی۔ تاریخ کا کیسا جبر ہے کہ صدیوں بعد یورپی طاقتوں نے اس بحری طاقت کے بل بوتے پر ہندوستان میں نقب لگائی، مغلوں کو اکھاڑ پھینکا اور ایک تجارتی کمپنی ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ نے ہی برطانوی راج کی راہ ہموار کی جو یہ سبق دیتی ہے کہ وقت کسی قوم کو ہاتھ پر ہاتھ دھرنے اور ’’ریلیکس‘‘ کرنے کی عیاشی کا اجازت نامہ نہیں دیتا۔ آج بھی موجودہ ہندوستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں مسلمان کم از کم سات سو سال سے نہ رہ رہے ہوں اور ہر اعتبار سے ’’ہندوستانی‘‘ نہ ہوں یعنی ہندوستان کے موجود حکمرانوں کی اپروچ تاریخی طور پر ہی بے بنیاد اور کھوکھلی ہے۔ ’’آر ایس ایس‘‘ کی فکری بنیاد ہی بودی ہے۔

دوسری طرف یہ بات ماننا ہو گی کہ ہندوستانی مزاج اور کردار میں کوئی نہ کوئی ایسی خاصیت ضرور پائی جاتی ہے جس کی بنا پر مقامی لوگ پاکیزگی اور پارسائی کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ معین الدین چشتی مٹھی بھر مسلمانوں کے ساتھ اجمیر میں قیام کر سکے حالانکہ ابھی پرتھوی راج چوہان اور شہاب الدین غوری کے درمیان فیصلہ کن معرکہ کافی دور تھا۔ اسی طرح دوسرے صوفیائے کرام نے بھی لاہور، ملتان، سرہند، دہلی، آگرہ حتیٰ کہ بنگال اور مدراس میں بھی پارسائی وحدانیت کے پرچم بلند کئے اور ہندوئوں کو بھی اپنا معتقد بنا لیا اور یہ بھی یاد رہے کہ ان عظیم روحانی شخصیات نے دنیاوی طاقتوں سے امداد حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔

پانیکر نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابتدائی مسلمان حکمران سیاسی لحاظ سے بھی حقیقت پسند تھے کیونکہ ہندوئوں کے ساتھ مسلمانوں کی شادی کا رواج اکبر بادشاہ سے پہلے بھی موجود تھا۔ مثال کے طور پر خاندان تغلق کا بانی غازی ملک ایک مقامی ہندو جاٹ عورت کا بیٹا تھا اور اس کا بھتیجا فیروز تغلق ایک بھٹی عورت کے بطن سے پیدا ہوا تھا اور اس بات کی بیشمار گواہیاں بھی ریکارڈ پر ہیں کہ مسلمان حکمرانوں نے قابل ہندوئوں کو بڑے بڑے عہدے دیئے۔ خود محمود غزنوی نے ہندو سپاہیوں کے دستے تشکیل دیئے اور انہیں ہندو کمانڈرز کی کمان میں رکھا اور جب محمود غزنوی کے فرزند مسعود غزنوی کو پنجاب میں امن برقرار رکھنے کیلئے اپنے بھائی سے جنگ کرنی پڑی تو اس نے اپنے ہندو جنرل ’’تلک‘‘ پر مکمل بھروسہ کیا۔ مالوہ میں ہندو وزیراعظم مقرر کیا گیا جس کا نام مدنی رائے چندیری تھا۔ بنگال میں حسین شاہ نے پورندلو، روپ اور سنیتین جیسے ہندو افسران کو اعلیٰ ترین عہدے دیئے۔ یہی حال بیجا پور اور گولکنڈہ کے مسلمان حکمرانوں کا بھی تھا اور یہ ٹریفک یکطرفہ ہرگز نہیں تھی۔ اس زمانے کے ہندو حکمران بھی اتنے ہی روشن خیال تھے جنہوں نے مسلمان ہندوستانیوں کو ہندوستانی سمجھا۔ مسلمانوں کو کالی کٹ کے راجائوں نے اعلیٰ ملازمتیں دیں۔ بعد ازاں وجے نگر کے حکمرانوں نے انہیں اپنی مسلح افواج میں منصب دیئے۔ خود رانا سانگا نے مسلمان سپاہ کا دستہ بھرتی کیا جس نے بابر سے باقاعدہ جنگ لڑی تھی۔ رانا سانگا نے مالوہ کے محمود ثانی کو میدان جنگ میں شکست دی لیکن پھر خود ہی تخت شاہی اسے واپس کر دیا۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)