ایثار و محبت کی پیکر مادرِ ملت

July 24, 2021

قائداعظمؒ محمد علی جناحؒ کی عظیم ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ پروقار شخصیت ، اعلیٰ درجہ کی ذہانت ، اور ٹھوس نظریات و افکار کی حامل خاتون تھیں۔ گردشِ ایام نے کتنی ہی داستانوں کو جنم دیا اور کئی قصہ پارینہ ہوئیں لیکن کچھ داستانیں لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہ ہونے کے باعث اذہان و قلوب سے محو نہیں ہو پاتیں ایسی ہی ایک داستان کا تعلق ایک بہن کی ایک بھائی کے لئے وفا و ایثارپر مبنی لازوال داستان سے ہے ۔

محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ایامِ نوجوانی سے پیرانہ سالی تک قائداعظمؒ محمد علی جناحؒ کی خدمت، ان کے نظریات و افکار کی ترویج ، مسلمانانِ برصغیر خصوصاً خواتین کی بیداری اور سیاسی شعور کے فروغ کے لئے زندگی وقف کیے رکھی۔ مسلمانوں کی سیاسی زندگی نے کئی مواقع پر پلٹے کھائے، ایک ایسے نازک موقع پر جب قوم ایک سچے اور ہمدرد رہبر کی تلاش میں تھی ، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے عظیم بھائی کی ہمت بندھائی اور ہر مشکل وقت میں قائداعظمؒ کی معاون ومونس ثابت ہوئیں۔ ایک موقع پر قائداعظمؒ نے اپنی بہن کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا:’’فاطمہ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں، انہوں نے میری دیکھ بھال کے علاوہ ہر تحریک میں ثابت قدمی اور وفاداری سے ساتھ دیا۔ انہوں نے خواتینِ پاکستان کی رہنمائی میں میری بھرپور مدد کی‘‘۔محترمہ فاطمہ جناحؒ 31جولائی 1893کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ سات آٹھ برس کی ہوں گی جب والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس غم کو بانٹنے کا حق بڑے بھائی نے خوب ادا کیا۔ جب ذرا دل کا بوجھ ہلکا ہوا اور کیفیتِ غم تھمی تو قائداعظمؒ جو ان دنوں بمبئی میں پریکٹس کرتے تھے، نے ان کو اسکول میں داخل کروا دیا۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناحؒ نے 1922میں کلکتہ کے احمد ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔فارغ التحصیل ہونے کے بعد کلینک شروع کردیا، انہی دنوں آپ کی بھاوج مریم جناحؒ طویل علالت کے بعد چل بسیں جس کا قائداعظمؒ کو بہت صدمہ ہوا۔ اس جانگسل سانحے سے نکلنے میں مدد دینے کے لئے محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے کلینک کو خیر باد کہا اور مستقل طور پر بھائی کے ساتھ رہنے لگیں۔ وہ قائد کی نہ صرف نگہبان بلکہ سیاسی مشیر بھی تھیں۔

فروری 1941میں مسلمان طالبات کی ایک فیڈریشن جس کا نام شروع میں آل انڈیا مسلم ویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن رکھا گیا ، آپ ہی کی کوششوں سے قیام میں آئی جس کا پہلا اجلاس محترمہ فاطمہ جناحؒ کی سرپرستی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی منتظم بیگم شائستہ اکرام اللہ تھیں۔ اس سے قبل آل انڈیا مسلم ویمنز کانفرنس مسلمان خواتین میں بیداری کے سلسلے میں میدانِ عمل میں آ چکی تھی ،اس کانفرنس کو بھی محترمہ کی سر پرستی حاصل تھی۔ اس دور میں بیگم مولانا محمد علی جوہر ، بیگم جہاں آراشاہ نواز، بیگم نواب اسماعیل خان جیسی نامورمسلمان خواتین نے مادرِ ملت کی ہمراہی میں مسلم سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔محترمہ نوزائیدہ مملکت پاکستان میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے لئے ایک بے مثال مملکت بنانا چاہتی تھیں۔

مادرِ ملت نے خود اس کمیٹی کے امور کی نگرانی کی۔ 1948میں محترمہ فاطمہ جناحؒ اور مسز سروجنی نائیڈو نے مشترکہ طور پر فسادات کے دوران اغوا ہونے والی خواتین کی بازیابی کے لئے عملی کوششیں کیں۔ قائداعظمؒ نے ایک موقع پر اپنے ملٹری سیکرٹری کرنل برینی کو اپنی عظیم بہن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’میںاپنی بہن کی سالہا سال کی پر خلوص خدمات اور مسلمان خواتین کی آزادی کے لئے انتھک جدوجہد کی بنا پران کا انتہائی مقروض ہوں‘‘۔قائد کی علالت کے دوران محترمہ فاطمہ جناحؒ نے دن رات ان کی دیکھ بھال کی، بہن بھائی کے ایسے لا زوال پیارکی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ بھائی کی جدائی کے بعد قوم کا سارا بار آپ کے ناتواں کاندھوں پر آگیا ۔ لاغر و نحیف جسم اور بوڑھی آنکھوں میں امید و حوصلہ کی رتی بھرکمی نہ آئی بلکہ آپ مرتے دم تک ملک و قوم کو قائداعظمؒ کے اقوالِ زرّیں پر عمل پیراکروانے کی پیہم کوششیںکرتی رہیں۔ آپ کے نزدیک نظریہ ٔپاکستان کا تحفظ پاکستان کے تحفظ کے مترادف ہے اور یہ مقصد اسلامی جمہوری اصولوں کے فروغ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کی انہی بے لوث خدمات کے پیش نظر قوم نے انہیں 1950کی دہائی کی ابتدا میں خاتونِ پاکستان کے خطاب سے نوازا ۔بین الاسلامی معاملات پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔ یومِ فلسطین کے موقع پر آپ نے دولتِ مشترکہ کے ممالک پر زور دیا کہ وہ اسلامی ممالک کے متعلق پاکستانیوں کے جذبات کا احترام کریں۔ 1964کے صدارتی انتخابات کے موقع پروہ حزبِ اختلاف کے پلیٹ فارم سے صدارتی امیدوار تھیں، اگرچہ روایتی دھاندلی کی بنا پر وہ اس انتخاب میں فتح یاب نہ ہو سکیں لیکن یہ ضرور ہوا کہ انہوں نے پاکستانی عوام کو ایک آمر کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ عطا کر دیا۔ انہوں نے ملک میں مارشل لائی نظام حکومت کو دلیری سے چیلنج کرتے ہوئے جمہوریت کی شمع از سرِ نو روشن کی اور ملک میں پارلیمانی نظام لانے کا نعرہ بلند کیا۔ ملک و قوم کے لئے بےلوث اور انتھک جدوجہد کرنے والی اس عظیم ہستی کا انتقال 9جولائی 1967کو ہوا، محترمہ فاطمہ جناحؒ کے عزم ولولے، ایثار اور جدوجہد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ حقیقی معنوں میں اپنے بھائی کی پشتیبان اور مادرِملت تھیں۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)