ہم نے کیا سکھایا…؟؟؟

July 26, 2021

رابطہ۔۔۔۔مریم فیصل
جب کسی کی موت کی خبر آتی ہے تب بہت افسوس ہوتا ہے لیکن اس وقت تکلیف اوربھی بڑھ جاتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والا ناگہانی موت مرا ہے یعنی اسے نفرت تعصب یا بدلے کے غصے میں جل کر اس دنیا سے رخصت کر دیا گیا، یہ بہت تکلیف دہ بات ہے کہ اپنا کوئی ایسا پیارا ہم سے زبردستی رخصت کر دیا جائے جس کا کوئی قصور بھی نا ہو ،تواتر سے ایسی خبریں مادر وطن سے سننے میں آرہی ہیں جن میں نوجوان بچے بچیاں جذبات میں بہہ کر قتل جیسے قبیح فعل پر اتر گئے ہیں ، مائرہ کا کیس دیکھیں یا نور کا ، دونوں میں حالات ایک ہی جیسے لگ رہے ہیں کہ شادی سے انکار پر بچیوں کو ماردیا گیا، بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ ان دونوں کیسوں کے بارے میں مجھے اتنی ہی معلومات ہیں جتنی میڈیا کے ذریعے بتائی گئی ہیں لیکن ان دونوں کیسوں کو موضوع بنانے کا مقصد یہ سمجھنا اور پڑھنے والوں کو یہ سمجھانا ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو کیسی تربیت دے رہے ہیں ، کیونکہ معاشرے میں جب ایسے واقعات تواتر سے ہونے لگے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ غلطیاں بڑوں سے ہی ہو رہی ہیں جبھی ہمارے مستقبل کے یہ معمار ترقی کرنے کے راستے ڈھونڈنے کے بجائے یہ تلاش کرنے میں لگ گئے ہیں کہ کیسے ان لوگوں کو سبق سکھایا جائے جو ان کے مطابق عمل نہیں کر رہے، جیسے اگر ایک لڑکے کو کوئی لڑکی پسند ہے لیکن وہ لڑکی اسے پسند نہیں کرتی تو یہ لڑکے کے لئے انا کا مسئلہ ہے کہ کیسے کوئی لڑکی اسے ریجیکٹ کر سکتی ہے ،اب وہ بجائے آگے بڑ ھ جانے کے، کرے گا یہ کہ اسے بہانے سے کہیں بلائے گا اور اسے منانے کی کوششیں کرے گا جب وہ لڑکی نہیں مانے گی تو اس کا انجام برا ہوگا یعنی اسے اس دنیا سے رخصت کردیا جائے گا، اب اس تمام کارروائی کا نتیجہ اس لڑکے کے لئے بھی برا ہوگا کیونکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں چھپا توکچھ نہیں فورا ہی ایسے واقعات سامنے آجاتے ہیں ، اس لئے لڑکے کی زندگی بھی جیل میں ہی گزرے گی تو اس میں فائدہ کس کا ہوا ، کسی کا بھی نہیں، ان ماں باپ کی بیٹی بھی بے موت ماری گئی جسے وہ تعلیم یافتہ بناکر اس دنیاکا کامیاب فرد دیکھنا چاہتے تھے اور وہ بیٹا بھی باقی زندگی مجرم بن کر گزارے گا جس کے لئے ہر ماں باپ کا خواب ہوتا ہے کہ ہمارا بیٹا ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنے گا الٹا وہ بد نامی کا باعث بن گیا، یہ تمام واقعات صرف خبریں نہیں بلکہ تمام والدین کے لئے آنکھیں اور دماغ کھولنے کاذریعہ ہیں کہ ہم بطور والدین جن بچوں کو دنیا کی تمام آسائشیں اور آزادیاں دے رہے ہیں کیا وہ ان سب کا صحیح استعمال کر رہے ہیں اور کہیں ہم انھیں یہ سکھانا تو نہیں بھول گئے کہ پسند نا پسند یہ سب کا ذاتی فیصلہ ہے ضروری نہیں جو ہمیں پسند ہو ہم بھی اس کی ترجیحات میں شامل ہوں ، بچپن میں بچے جس کھلونے کے لئے ضد کرتا ہے ہم اسے دلا دیتے ہیں کہ ضد کرتا رہے گااس سے بہتر ہے دلا دو لیکن ایسے والدین بھی ہیں جو ضد کرنے پر بھی بچوں کی خواہش پوری نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آج ضد پوری کی تو آگے چل کر وہ اس سے بڑی خواہش کرے گا جو اگر پوری نہیں کی تب وہ اپنی بات منوانے کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتا ہے شاید یہ رویہ ہی درست ہے کہ آج روک لو کل خودہی سنبھل جائے گا ۔ ہمیں بطور والدین اپنے بچے بچیوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی تاکہ ایسے کسی واقعہ کا شکار ہونے سے ہمارے بچے محفوظ رہیں ۔