پی ایس پی کی اجارہ داری

July 26, 2021

وفاقی سول سروس کے دو گروپس جن میں پاکستان ایڈمنسٹر یٹوسروس اور پولیس سروس آف پاکستان شامل ہیں مختلف محکموں پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے مختلف اداروں کے کیڈرز مضبوط نہیں ہو سکے۔ صحیح بات پوچھیں تو صوبوں کے ساتھ ساتھ وفاق کے بھی کئی اہم ترین محکمے آج کل پولیس سروس آف پاکستان کی آماجگاہ بنے دکھائی دے رہے ہیں۔ فیڈرل سروسز نے جس طرح صوبوں میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے یہی صورتحال وفاق میں بھی ہے۔ اب آپ ایف آئی اے کو ہی دیکھ لیں یہاں آپ کو پولیس سروس آف پاکستان ہی ہر طرف چھائی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ 1974 میں پارلیمنٹ کے ایکٹکے ذریعے معرضِ وجود میں آیا۔ ایف آئی اے باقاعدہ ایک سروس بنی جس کے اپنے قوانین، قوائد اور ایس او پیز ہیں۔ اس سروس میں بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد امیدوار براہِ راست گریڈ 17 میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہوتے ہیں جس طرح اسسٹنٹ کمشنر اور پولیس میں اے ایس پی بھرتی ہوتے ہیں۔ آج تک میں نے نہیں سنا کہ ایف آئی اے سروس کا گریڈ 17میں بھرتی ہونے والا افسر گریڈ 22 میں بطور ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوا ہو بلکہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایف آئی اے کے تقرری، تعیناتی اور تبدیلی کے APT RULES میں تو باقاعدہ تحریر ہے کہ اس وفاقی تحقیقاتی ادارے کا سربراہ پولیس سروس آف پاکستان سے ہو گا۔ صوبوں میں جس طرحپاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا ہی چیف سیکرٹری لگایا جاتا ہے اسی طرح ایف آئی اے میں بھی پی ایس پی ہی کمانڈ کر سکتا ہے۔ جس طرح صوبوں میں پروفیشنل مینجمنٹ سروس نے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کی ہے وفاق کے کسی ادارے نے ایسے نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مقابلے کا امتحان پاس کر کے براہِ راست گریڈ 17 میں بھرتی ہونے والا اسسٹنٹ ڈائریکٹر اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ پولیس کے گریڈ 17 میں بھرتی ہونے والے اے ایس پی کی طرح گریڈ 22 تک ترقی حاصل کر کے اپنے محکمے کی کمان سنبھال سکے؟ اٹھارہویں ترمیم کے بعد پولیسنگ اب صوبائی معاملہ ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا؟ پولیس ریفارمز کیلئے موجودہ حکومت نے جو بیڑا اٹھایا تھا اس کا کیا ہوا؟ سچ بات یہ ہے کہ جہاں جس کا بس چلتا ہے وہ دھونس چلاتا ہے۔ صوبائی پولیس سروس تمام صوبوں میں موجود ہے لیکن کوئی بھی صوبائی پبلک سروس کمیشن کا امتحان دےکر اے ایس پی ریکروٹ نہیں ہو سکتا۔ یہاں صرف گریڈ 16 میں ڈائریکٹ پولیس انسپکٹر بھرتی ہو سکتا ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں صرف 4تا 5صوبائی پولیس سروس کے افسر آئی جی بنے باقی پولیس سروس آف پاکستان نے ہی کمان سنبھالے رکھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انٹیلی جنس بیورو، ایف آئی اے اور صوبائی پولیس کے سربراہان پی ایس پیز ہی کیوں ہوتے ہیں؟ انٹیلی جنس بیورو میں تو پھر بھی کبھی کوئی دوسری سروس کا افسر سربراہ بنایا گیا لیکن زیادہ تر پولیس سروس آف پاکستان سے ہی افسر سربراہ بنائے گئے۔ وجہ صاف ہے کہ پی ایس پیز کی وفاقی سطح پر سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اجارہ داری ہے۔ سسٹم ان کے ہاتھ میں ہے اس لئے وہ ایسے قوانین بننے ہی نہیں دیتے جس سے کوئی دوسری سروس Growکرے اور ان کی اجارہ داری ختم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے اور آئی بی جیسے اہم ترین ملکی اداروں کی اپنی سروسز اس حد تک ترقی نہیں کر سکیں جس سے وہ اپنے اداروں کی باگ ڈور سنبھال سکیں۔ سول سروسز آف پاکستان کے سی ایس ایس فورم کے اعداد و شمار کے مطابق پولیس سروس آف پاکستان کی مختلف وفاقی اور صوبائی اداروں میں رول 4 اور 7کے تحتCore Strength ہے لیکن زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ کوٹے سے کہیں زیادہ پی ایس پیز وفاق اور صوبوں میں تعینات ہیں۔ فیڈریشن کے اداروں میں اسلام آباد پولیس بھی آتی ہے جس میں آئی جی، ایس ایس پی، ایس پی اور اے آئی جی کی پوسٹوں پر صرف پی ایس پی ہی تعینات ہوتے ہیں۔ اسی طرح بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں ایک آئی جی بطور ڈائریکٹر جنرل، 2ڈی آئی جی بطور ڈائریکٹر،ایک ایس پی عہدے کا افسر بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ، فیڈرل کنٹرول روم میں 1ڈی آئی جی عہدے کا افسر بطور ڈائریکٹر سیکورٹی، 6ایس پی بطور ڈپٹی ڈائریکٹر، سپیشل سکیورٹی سیل میں 1ڈی آئی جی بطور ڈائریکٹر 4ایس پی بطور ڈپٹی ڈائریکٹر، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) میں سربراہ (ڈی آئی بی) صوبوں میں 4جوائنٹ ڈائریکٹر 13ڈپٹی ڈائریکٹر اور 35 اسسٹنٹ ڈائریکٹر پولیس سروسز آف پاکستان کا کوٹہ ہے۔ اسی طرح ایف آئی اے میں ڈائریکٹر جنرل، ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، 8ڈائریکٹرز اور 25ڈپٹی ڈائریکٹر، پاکستان ریلوے پولیس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) ایک ڈی آئی جی اور اے آئی جی، پاکستان نارکوٹکس کنٹرول بورڈ میں چیئرمین، 5ڈائریکٹر، 5ڈپٹی ڈائریکٹر، سٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز ڈویژن میں کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایڈیشنل آئی جی) ایک ڈپٹی کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری 9 ڈسٹرکٹ آفیسرز فرنٹیئر کانسٹیبلری، پاکستان موٹر وے پولیس میں ایک آئی جی اور 2 ایس پیز سمیت 143 سینئر پوسٹیں بھی پولیس سروس آف پاکستان کی کیڈر پوسٹیں اور کوٹہ میں شمار ہوتی ہیں۔ پنجاب پولیس میں سینئر پوسٹوں جن میں آئی جی، ایڈیشنل آئی جی، کمانڈنٹ پولیس کالج سہالہ اور سی سی پی او لاہور بھی پولیس سروس آف پاکستان سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ ڈی آئی جی عہدے کے راولپنڈی، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالہ کے سی سی پی او اور سی پی اوز، سپیشل برانچ میں صوبائی سربراہ (ایڈیشنل آئی جی)، ایس ایس پی عہدے کے لاہور میں 6 راولپنڈی اور فیصل آباد میں ایک ایک افسران اور 29اضلاع کے ڈی پی اوز بھی پولیس سروس آف پاکستان کے کوٹے میں آتے ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی چاہئے کہ وہ پولیس سروس آف پاکستان کے علاوہ بھی ایف آئی اے اور پنجاب پولیس کے محکموں کے سربراہان کی اپنی سروس بناتے تاکہ دیگر سروسز میں محرومیوں کو ختم کیا جا سکے۔