ڈائجسٹ ’نامُراد‘

August 01, 2021

عشرت جہاں ، لاہور

’’عاصم…! بھئی کچھ تو کریں۔‘‘’’ ہمم…کرتو رہا ہوں، جانے کی تیاری۔ ذرا جلدی سےجوتے پالش کردو۔‘‘ اخبار میں مگن عاصم نے بے توجہی سے بیوی کی بات سُنتے ہوئے جواب دیا۔ اُس نے بھی جوتے پالش کرکے سامنے رکھ دیئے۔’’سُنیں!کسی سے کچھ قرض ہی لے لیں کہ یہ سنہری موقع نکل گیا، تو ہم بس ہاتھ ہی ملتے رہ جائیں گے۔‘‘ وہ روہانسی ہوکر بولی۔’’ ارسلان کی فیس جمع کروانی ہے ، اس لیےدل اور خواہشات پر قابورکھو۔‘‘’’ اُف… ایک تو یہ فیسیں۔ ہاں، یاد آیا ،آنٹی بھی کرائے کے لیےکہہ رہی تھیں کہ اس بار انہیں کرایہ

جلدی چاہیے، انہیں کچھ کام ہے۔‘‘ اس نے ناشتے کے برتن سمیٹتے ہوئے بتایا۔ ’’اور ویسے بھی وہ کہہ رہی تھیں کہ پچھلی بار دس تاریخ سے ایک ہفتہ اوپر ہوگیا تھا، اس لیے اس مرتبہ انہوں نے پہلے ہی وارن کردیا ہے۔‘‘ ’’ارے یار!کرایہ بھی دے دیں گے، پہلے مجھے ارسلان کی فیس سے توفارغ ہولینے دو، پھر دیکھیں گے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے عاصم باہر نکل گیا۔ عاصم ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا، تن خواہ بھی زیادہ نہیں تھی۔ پھر گھر کا کرایہ، راشن، بجلی، گیس، پانی کے بلز اور بڑھتی منہگائی۔ اُس پر بیگم کے لاکھ منع کرنے کے با وجود بچّوں کا داخلہ منہگے انگریزی میڈیم اسکول میں کروادیاتھا، جس کی وجہ سے ہر ماہ بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ۔ مسائل کا ایک پہاڑ ، ہر ماہ سر کرنا آسان بات نہ تھی۔

رات کے کھانے کے بعد وہ چائے بنا کر عاصم کے پاس جا بیٹھی۔ ’’تو پھرکیا سوچا آپ نے…؟؟‘‘جلد ہی وہ مطلب کی بات پر آگئی۔’’تمہاری سُوئی اب تک وہیں اٹکی ہوئی ہے؟ ‘‘ عاصم نے چائے کا پہلا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔’’پلیز،آپ ابّو جی سے بات کیجیے ناں۔بہت ہی کم قیمت اور آسان اقساط میں مل رہا ہے۔‘‘ اُس نے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’سحرش! تم ایک کام کرو، اپنی امّی سے کہو کہ وہ اپنا گھر بیچ کر ہمیں پیسے دے دیں۔ آخر اُن کا بھی تو کچھ فرض ہے بیٹی کے لیے۔ ‘‘ اس بار عاصم قدرے خفگی سے جل کر بولا۔’’واہ!تو بے چاری میری امّی کہاں جائیں گی؟ اُن کے پاس ایک چھوٹا سا مکان ہی تو ہے۔‘‘ سحرش نے حیرانی سے کہا۔’’کہیں بھی رہ لیں گی۔‘‘ عاصم نے کندھے اُچکاتے ہوئے چائے پی۔

گویا یہ اس کا مسئلہ ہی نہ تھا۔’’آپ ابّو سے کیوں نہیں بات کرتے؟ آپ کے ابّو اور بھائی توکاروباری لوگ ہیں، دن دُگنی، رات چوگنی ترقّی کررہے ہیں۔ ہر ماہ لاکھوں کماتے ہیں، اتنا پیسا ہے ان کےپاس، تو کیا وہ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں گھرنہیں دلوا سکتے ۔چلیں گھر نہ سہی، پلاٹ ہی دلوا دیں یا کچھ رقم قرض ہی دےدیںکہ ہم خود کوئی پراپرٹی خرید لیں ۔ پھر ہم آہستہ آہستہ وہ رقم لَوٹا دیں گے۔‘‘ وہ قدرے اُمید سے بولی۔’’تم نے دائیں بائیں کچھ چُھپا رکھا ہے تو نکال لو۔

گھر خریدنے کا اتنا شوق ہو رہا ہے تو چلو اسی سے خرید لیتے ہیں۔‘‘سحرش کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ’’مَیں نے…؟مَیں کیا چُھپاؤں گی! میرے پاس توجو کچھ تھا، سب ہی آپ کو دے دیا، بَری، جہیز کا زیور، کم تو نہیں تھا۔ پورےسترہ تولے تھا، جو آپ نے کاروبار کے نام پر بر باد کردیا۔ اور اب چند ہزارکی معمولی سی نوکری کررہے ہیں۔ کاش! مَیں نے اپنا زیور آپ کو دیا ہی نہ ہوتا، تو آج وہی بیچ کر گھر خرید لیتی۔‘‘ ’’ہاں تو مجھے کوئی خواب آیا تھا کہ کاروبار میں نقصان ہوگا، مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہےتمہارا احسان لینے کا، زیور کیا دے دیا، ہر وقت طعنے ہی دیتی رہتی ہو۔ اب خواب دیکھنا بند کرواور جاکے اپنا کام کرو۔تم جیسی عورتیں کچن ہی کے لیے بنی ہیں۔‘‘ وہ کرختگی سے بولا، توسحرش بھی کمرے سے باہر آگئی۔’’ کتنا سمجھایا تھا کہ ہمارے پاس بس یہی جمع پونجی ہے۔ کسی نئے تجربے کی بھینٹ مت چڑھا دیجیے گا، مگر میری سُنتا کون ہے۔ آج کو میرے ابّو زندہ ہوتے، تو ہر گز مجھے اس حال میں نہ چھوڑتے۔‘‘وہ یہی سب سوچتے سوچتے رونے لگی۔

اتوار کا دن تھا۔ عاصم نےصبح سویرے ہی خبریں لگا لیںکہ گھر میں اس کی دل چسپی صرف خبروں ہی تک محدود تھی۔ سحرش حسبِ عادت باورچی خانے میں کام کررہی تھی۔ عاصم اور بچّوں نے ہفتے کی رات ہی حلوا، پوری اور چنے کی بھاجی کےناشتےکی فرمائش کر دی تھی، تو وہ رات ہی سے تیاری میں مصروف تھی۔ ابھی وہ پوریاں بیل کر تلنے ہی والی تھی کہ ’’اسکینڈل‘‘ کے لفظ نے اس کی توجّہ اپنی طرف کھینچ لی۔’’ کون سا اسکینڈل؟ کس کا اسکینڈل؟‘‘ اس کا دھیان ٹی وی کی آواز کی طرف ہوگیا۔پاناماپیپرز…آف شور کمپنیز…بیرونِ مُلک جائدادیں اور نہ جانے کیا کیا۔

’’آخر یہ کیابلا ہے ؟‘‘سحرش کے کان کھڑے ہوگئے۔ اینکر کی آواز سماعت تک پہنچ رہی تھی اور ذہن اس دولت کے شمار کی کوشش کررہا تھا ،جو بلین، ٹریلین کے حساب سے بیان کی جارہی تھی۔ لاکھ، دس لاکھ، کروڑ، ارب، کھرب تک اس نے حساب لگانا چاہا ،جس کا اندازہ صفروںکی بڑھتی تعداد سے ہورہا تھا۔’’ اُف خدایا… ان لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ ہم، یعنی عوام ان کے صفر بھی گِننے کے قابل نہیں۔

یہ میرا مُلک بھی تو خوابوں ہی کا ایک گھر ہے، جسے ہوس کے بچاری لُوٹ کھسوٹ رہے ہیں اور ہم جیسے بے مایا لوگ پوری زندگی ایک ایک قدم گھسیٹتے ،خواہشات کی قبر کنارے دمِ آخر تھک ہارکے بیٹھ جاتے ہیں۔ آہ! ہم بے چارے، لوگ۔مجھ جیسی عورتیں واقعی کچن ہی کے لیے بنی ہیں، خواب دیکھنے کے لیے نہیں۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی اور دوبارہ کام میں مصروف ہوگئی۔