سیاسی جماعتوں کا المیہ

August 03, 2021

پاکستان ایک سیاسی عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے ووٹ کی طاقت سے یہ خطۂ ارضی حاصل کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے ایک کرشماتی شخصیت ہونے کے باوجود مسلم لیگ کو وراثتی جماعت نہ بننے دیا، اپنی اولاد یہاں تک فاطمہ جناح جیسی فعال خاتون کو بھی وراثتاً سربراہ نہ بنایا۔ انہوں نے نظریات پر زور دیا یہاں تک کہ ابوالکلام آزاد کو بھی لکھنا پڑا کہ محمد علی جناح کا نقطۂ نظر درست تھا لیکن قائد کے نام پر سیاست کرنے والوں نے ان کے نظریات کے برعکس موروثی سیاست کو فروغ دے کر نظریات کا جنازہ نکال دیا۔1948کے بعد پاکستانی سیاست ایک عرصہ خلا میں معلق رہی۔ یہاں تک کہ سانحہ مشرقی پاکستان وقوع پذیر ہو گیا۔ 1971کے بعد ذوالفقار علی بھٹو، جو فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ میں ایک باصلاحیت وزیر کے طور پر متعارف ہوئے اور پھر ایک قومی سیاسی رہنما کے طور پر ابھرے جنہوں نے مقبولیت کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے، نے امیر کے مقابلے میں غریب کو زبان دینے کا نعرہ بلند کیا، ان کی تقاریر نے بیانیہ کا روپ دھار لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انکا بیانیہ انہی جاگیرداروں کی دہلیز پر قربان ہو گیا جن کے خلاف وہ تحریک لے کر چلے تھے۔ ان کے مظلومانہ قتل نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک نئی زندگی عطا کی اور کئی عشروں تک یہی مظلومیت اس کے ووٹ بینک کا سبب بنی لیکن خراب کارکردگی نے اس قومی جماعت کو ایک صوبے تک محدود کر دیا۔ میاں نواز شریف جو ابتداً جنرل ضیاء الحق کا حسنِ انتخاب تھے، ایک مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ وہ کئی دہائیوں تک پاکستانی سیاست کے بلاشرکت غیرے مالک رہے۔ 2018کے انتخابات کے بعد بعض لوگوں نے ان کی تقریروں سے بیانیہ برآمد کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بیانہ تو ایک سال بھی نہ نکال سکا اور ایک ڈیل کے ذریعے انہیں ملک سے باہر جانا پڑا۔ اس دوران جناب عمران خان نے عوام کے دل جیت لیے اور 23سال کی طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار کا ہما ان کے کاندھے پر آن بیٹھا لیکن جب عمل کرنے کا وقت آیا تو ان کے اردگرد بھی وہی مفاد پرست ٹولہ اکٹھا ہو گیا جو ہر حکمران کے دائیں بائیں نظر آتا تھا۔ تبدیلی تو آگئی لیکن کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا بقول فیضؔ

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

نواز شریف کو امید کا محور قرار دینے والے اور عمران خان کو نجات دہندہ سمجھنے والے دونوں طبقات بری طرح مایوسی کا شکار ہیں۔ اسی طرح مذہبی سیاسی جماعتیں بھی دیگر جماعتوں کی طرح بدنظمی اور شخصیت پرستی کا شکار ہیں اور عوامی مقبولیت کھو بیٹھی ہیں۔ ان تمام طبقات میں ایک قدر مشترک ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے اندرونی نظام میں جمہوریت کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ یہ سیاسی پارٹیاں کم اور لمیٹڈ کمپنیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔ ان جماعتوں میں اعلیٰ عہدوں کیلئے کارکن کی کوئی جگہ نہیں جبکہ اولاد کیلئے سرے سے معیار کی ضرورت نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں میں مرکزی سطح پر انتخابات کے بجائے نامزدگیاں ہوتی ہیں۔ کارکردگی کے بجائے رشتے ناطے غالب آجاتے ہیں۔ میں نے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ مسلم لیگ ن کے اندر قیادت کا اختلاف شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ بھی موروثیت ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ میاں شہباز شریف موجودہ نظام کی سب سے زیادہ تجربہ کار شخصیت ہیں لیکن موروثیت کا شکار شریف فیملی شہباز شریف جیسے شخص کو سائیڈ لائن کر چکی ہے۔ کشمیر الیکشن میں ان کی عدم دلچسپی بلکہ ناراضی اب کوئی راز نہیں رہی۔ یہی غیر سیاسی رویہ کئی شخصیات اور جماعتوں کو نگل چکا ہے۔ میاں شہباز شریف اس کی تازہ مثال ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے ہمسایہ ملک کی سیاسی ترقی سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ وہاں پر کانگریس اور بی جے پی جیسی مضبوط سیاسی جماعت کے ہونے کے باوجود دہلی کے اقتدار پر عام آدمی پارٹی تیسری مرتبہ فتح سے ہم کنار ہوئی اور اروند کجریوال دہلی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ ہمارے ہاں ایسے واقعات وقوع پزیر کیوں نہیں ہوتے؟ ایسا سیاسی کلچر ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ میرے خیال میں اسکی واحد وجہ یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنی جماعت کے اندر تنظیم سازی پر توجہ نہیں دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی معزولی کے وقت کارکنان نے مستثنیات کے علاوہ جس لاتعلقی کا مظاہرہ کیا وہ اسی بےتدبیری کا شاخسانہ تھا، جو سیاسی غلطی ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف نے کی آج وہی غلطی عمران خان کر رہے ہیں۔ امریکہ کی تقلید ویسے تو ہر میدان میں کی جاتی ہے لیکن جماعتی نظام میں انکی پیروی سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ڈیموکریٹس اور ریپلیکنز اپنے جماعتی الیکشن کے ذریعے صدر کے امیدوار منتخب کرتے ہیں اور انہی جماعتوں کی کوکھ سے بش، کلنٹن، اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن جیسی متنوع صلاحیتوں کے حامل صدور سامنے آتے ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے 100برسوں میں کتنے رہنما تبدیل کیے۔ چیئرمین ماؤ کے بعد اس کے بیٹے کے بجائے پارٹی کا منتخب کردہ رہنما منتخب ہوا۔ ہمارے تاحیات قائدین بنی گالہ، بلاول ہاؤس اور رائے ونڈ محلات میں بیٹھ کر غریب کی بات تو کرتے ہیں لیکن کبھی غربت سے اُن کا واسطہ نہیں پڑا۔ مجھے حیرت ہے کہ پاکستانی سیاست میں پیسے کا چلن اتنا زیادہ کیوں ہے؟ دوسرے ممالک کے سیاسی رہنما دولت کے پیچھے اندھے کیوں نہیں ہوتے؟ پیسے کی ہوس پاکستانی رہنماؤں میں ہی کیوں ہے؟ اسلام کا نام لینے والے رہنما اپنے طرز زندگی میں اسلامی تعلیمات سے دور کیوں ہیں؟ بھارت کے صفِ اول کے رہنما سادہ زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے رہنما ایسا کیوں نہیں کر سکتے، اس ہوس نے سیاسی جماعتوں کو یونانی المیہ داستانوں کا ایک کردار بنا دیا ہے۔ سیاسی انحطاط کے اثرات اداروں پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جس پر بات بے بات تنقید سے ہم باز نہیں آتےلیکن وہاں پر ایک صوبیدار کا بیٹا بھی آرمی چیف بن سکتا ہے، اس کے علاوہ کوئی ادارہ ایسا باقی نہیں بچا جہاں پر میرٹ پر کسی کو ترقی کا موقع ملے۔ اگر سیاسی جماعتوں نے ادارہ جاتی کلچر نہ اپنایا تو ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔