اخبار فروش۔ ﷲ کے دوست ہیں

August 05, 2021

یہ میرے اسکول کے زمانے کی بات ہے۔ تب میں اپنے والدین کے ساتھ ملتان میں رہتا تھا۔ روزنامہ ’’امروز‘‘ ملتان سے چھپتا تھا۔ اس لئے صبح سویرے اخبار فروش گھر میں ڈال جایا کرتا تھا۔ ’’جنگ‘‘ اُن دنوں کراچی سے ہوائی جہاز کے ذریعے دوپہر کے وقت ملتان پہنچا کرتا تھا۔ والد گرامی ’’جنگ‘‘ کے تب بھی شیدائی تھے اور آج بھی ہیں۔ پاک گیٹ کے باہر قادری بک اسٹال تھا، جہاں سے وہ ’’جنگ‘‘ خرید کر گھر لایا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ’’جنگ‘‘ اخبار لینے کے لئے میں چلا جایا کرتا تھا۔ اگرچہ تب میں بہت چھوٹا تھا لیکن یہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا تھا کہ بہت سے لوگ بک اسٹال پر کھڑے کھڑے اخبار کا صفحہ اول و آخر پڑھتے اور چلتے بنتے۔ کئی لوگ پورا اخبار کھنگال ڈالتے تھے، پھر وہاں کھڑے ہو کر خبروں پر تبصرہ بھی کرتے لیکن اخبار نہیں خریدتے تھے۔ بک اسٹال کے مالک کے صبر و تحمل کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے مفت میں اخبار پڑھنے والے کسی شخص کو کبھی منع نہیں کیا۔ نہ کبھی کسی کو اخبار خریدنے پر مجبور کیا۔ میرے ذہن میں اکثر یہ سوال اٹھتا کہ بک اسٹال کا مالک ان مفت خوروں کو منع کیوں نہیں کرتا؟ اسے اپنے کاروبار کی فکر کیوں نہیں؟ وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ اگر لوگ مفت میں سارا اخبار پڑھ لیں گے تو پھر اس کے پاس پڑے اخبار کون خریدے گا؟ کتنا توکل، صبر اور تحمل تھا اس بک اسٹال کے مالک میں، ﷲ ﷲ! انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دن والد صاحب نے مجھے اخبار خریدنے کے لئے بھیجا۔ جمعہ کا دن تھا۔ اس لئے والد صاحب نے تین الگ الگ اخبار لانے کی ہدایت کی تھی۔ میں نے بک اسٹال سے اخبار خریدے اور اپنی بائیسکل کے ہینڈل میں اڑس لئے۔ گھر کی طرف واپس آتے ہوئے خونی برج کے قریب میرا ایک اسکول فیلو مجھے مل گیا، میں نے بائیسکل روکی تو میرے دوست نے (پنجابی زبان میں) مجھے سے پوچھا: ’’یار !تم یہ کام بھی کرتے ہو؟‘‘ اس کے لہجے میں تحقیر صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ یہ اخبار پڑھنے کے لئے لایا ہوں تو اسے یقین نہیں آیا۔ وہ یہی سمجھا کہ میں حقیقت اس سے چھپا رہا ہوں۔ اگلے روز میں اسکول پہنچا تو وہاں شور مچا ہوا تھا کہ ناصر بشیر اخبار بیجتا ہے۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہے۔ میں 1990میں لاہور آیا تو راج گڑھ کی ایک پتلی سی گلی میں ایک چھوٹے سے ’’بھوت بنگلے‘‘ میں رہتا تھا۔ تب میں ایک اخبار کے نیوز روم میں سب ایڈیٹر تھا۔ رات کی شفٹ میں ڈیوٹی کرتا تھا۔ اس گلی میں سارے مکان مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے تھے۔ میں صبح سویرے ڈیوٹی سے واپس آتا تو مسیحی برادری کی خواتین اور مرد اپنی ڈیوٹی پر جا رہے ہوتے تھے۔ وہ روز مجھے دیکھتے لیکن کبھی کوئی بات نہ کرتے۔ آخر ایک دن ایک مسیحی عورت نے مجھ سے پوچھ لیا: ’’وے! توں کم کی کرنا ایں؟‘‘ (تم کام کیا کرتے ہو؟) میں نے بتایا کہ اخبار میں سب ایڈیٹر ہوں تو یوں بولی جیسے ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی ہے: ’’ہلا! اخبار سُٹ دا ایں‘‘۔ (اچھا: اخبار ڈالتے ہو) اس کی بات سن کر میں جی ہی جی میں ہنسا لیکن اس کے لہجے میں بھی میرے اسکول فیلو جیسی تحقیر تھی۔

کیا اخبار فروشی کوئی کم تر پیشہ ہے؟ نہیں! جناب! پیشہ کوئی بھی کم تر نہیں۔ حلال روزی کمانے والا ہر آدمی اللہ کا دوست ہے۔ آج کے زمانے میں، جب حلال حرام کا فرق مٹ کر رہ گیا ہے، اخبار فروش وہ آدمی ہے جس کی حلال روزی میں، حرام کی ذرہ برابر بھی آمیزش نہیں۔ اخبار فروش چاہے بھی تو اپنی حلال روزی کو حرام نہیں کر سکتا۔ میں جب بھی کسی اخبار فروش کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ آج کا سب سے نیک آدمی یہی ہے۔ باعمل صوفیائے کرام کی ساری خوبیاں مجھے اخبار فروش میں نظر آتی ہیں۔ اخبار فروش ہمارے گھروں میں اخبار ڈالنے کے لئے صبح سویرے اس وقت جاگتا ہے جب ہم خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے جاگنے سے پہلے، اخبار ہمارے گھر میں ڈال جاتا ہے۔ بارش ہو، آندھی طوفان ہو، لاک ڈاؤن لگا ہو، وہ ہر حال میں ہمارے گھر میں اخبار ڈال کر جاتا ہے۔

نئے سرمایہ دارانہ نظام کی خاص بات یہ ہے کہ صنعت کار، دکان دار اور تاجر روپے پہلے وصول کرتے ہیں اور خریدی گئی چیز بعد میں فراہم کرتے ہیں۔ اخبار فروش پورے تیس یا اکتیس دن آپ کے گھر اخبار پہنچاتا ہے اور بل کا تقاضا پھر بھی نہیں کرتا۔ آپ کا جب دل چاہتا ہے اس کا بل ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی دکان پر خود جا کر کوئی چیز خریدیں تو اس کی اصل قیمت وصول کی جاتی ہے اور اگر ڈیلیوری گھر پر چاہتے ہیں تو زائد قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اخبار فروش جس قیمت پر اخبار، اپنی دکان پر بیچتا ہے، اسی قیمت پر آپ کے گھر میں پہنچاتا ہے۔ وہ کبھی آپ سے ڈیلیوری چارجز کی مد میں زیادہ رقم کا تقاضا نہیں کرتا۔ لاری اڈے، ریلوے اسٹیشن، ایئر پورٹ اور اسپتال میں آپ کو ہر چیز زائد قیمت پر خریدنا پڑتی ہے لیکن اخبار فروش ان مقامات پر بھی اصل قیمت ہی مانگتا ہے۔ اخبار فروش کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی اپنے گاہک کو باسی مال فراہم نہیں کرتا، روز کا مال روز بیچتا ہے۔ اخبار فروش اپنے گاہک کو ہمیشہ پورا ’’مال‘‘ دیتا ہے۔ کسی دن اخبار کے صفحے زیادہ ہوں تو زیادہ بوجھ اٹھانے کا بہانہ بنا کر زیادہ پیسے نہیں مانگتا۔ اخبار فروش کبھی ذخیرہ اندوزی بھی نہیں کرتا۔ لوگ اس کی دکان یا اسٹال پر کھڑے ہو کر سارا اخبار مفت میں پڑھ لیتے ہیں۔ مجال ہے کہ اس کی پیشانی پر بل پڑ جائیں۔

مجھے یقین ہے کہ ہر اخبار فروش، ﷲ کا دوست ہے۔ وہ اپنے بچوں کو ہمیشہ حلال رزق کھلاتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اخبار فروش ہی کی وجہ سے صحافیوں کا روزگار لگا ہوا ہے۔ آج جب ہزاروں، لاکھوں لوگ انٹرنیٹ پر تازہ اخبار پڑھنے کے عادی ہو گئے ہیں، اخبار فروش کی آمدن میں خاصی کمی واقع ہو گئی ہے تب بھی اخبار فروش نے توکل، صبر، تحمل، دیانت داری اور محنت سے منہ نہیں پھیرا۔ وہ پہلے ہی کی طرح اپنا کام خدمت سمجھ کر کیے جا رہا ہے۔