میں مایوس ہوں

September 05, 2021

میری یہ سوچ مزید پختہ ہو چلی ہے کہ اسٹیٹس کو کے شکار پاکستانی معاشرے اور ریاست کو ایک شفاف اور تہذیب یافتہ معاشرے کی طرف مراجعت کیلئے کم و بیش پانچ صدیوں کا مزید وقت درکار ہوگا کیونکہ یہ ملک ہزار سال تک دودھ پینے والے ’’تھینک لیس‘‘ مجنوؤں کا گڑھ بن چکا ہے جو اس دھرتی کیلئے ’’رومیو جولیٹ کے بروٹس‘‘ ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے یہ انسان نما لوگ کسی قسم کے قاعدے قانون یا مہذب انسانی دُنیا میں رائج ویلیوز سے لاپروا ٹڈی دَل کی طرح یہاں سے وہاں بھاگ دوڑ رہے ہیں، جنہیں راستے کا پتا ہے اور نہ منزل کی خبر، چنانچہ کم و بیش دو اڑھائی ہزار موقع پرست سیاسی لوگ اور تقریباً اسی تعداد میں نوکر شاہی اور دیگر اداروں کے لوگ ملک خُدا داد کی شہ رگ کو دبائے ہوئے اسے گدِھوں کی طرح نوچ رہے ہیں لیکن آفرین ہے ’راوی‘ پر جو بڑی ڈھٹائی سے چین ہی چین لکھ رہا ہے! تہذیب و تمدن کی روایات رکھنے کے دعویدار اس معاشرے کے اربابِ بست و کشاد ابھی تک فقط یہ طے نہیں کر پائے کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کی اپنی کوئی ذاتی تہذیب ہے بھی یا نہیں اور جن ثقافتی اقدار کو بنیاد بنا کر یہ لوگ دندناتے پھرتے ہیں ان کی معاشرے میں کوئی جھلک عملی طور پر نظر آتی بھی ہے یا نہیں۔ مقننہ، انتظامیہ، سیاست، صحافت، پولیس اور نوکر شاہی کے زیر دست سب ہی اداروں کی اساس تو جھوٹ اور کرپشن پر استوار ہے، اس لئے زیادہ سے زیادہ دولت و رشوت اور ہر طرح کی کرپشن میں ڈوبے ادارے کسی قانون و آئین کی حدود کو تسلیم نہیں کرتے۔ حالت یہ ہے کہ اپنی حیثیت اور عہدے کے مطابق لوٹ مار کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، ملک کا صاحبِ ثروت طبقہ خود کو ماورائے قانون سمجھتے ہوئے ہر وہ قانون اور حدود و قیود توڑ رہا ہے جو ایک جدید و مہذب معاشرے کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔

تعویذ گنڈے اور پیر پرستی کے شکار ہمارے اس معاشرے میں اب دو ہی طبقے ’سانس لیتے‘ دکھائی دیتے ہیں، ایک غریب اور دوسرا بہت امیر۔ مڈل کلاس طبقہ جو کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتا ہے قصداً یکسر غائب کر دیا گیا ہے، حرام کی دولت جادو کی طرح سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ ملک کی سول سوسائٹی جو معاشرے میں روح کی طرح ہوتی ہے یہ بھی آزاد نہیں بلکہ کسی نہ کسی کی ڈالی ہوئی ’’لگام‘‘ کی جنبش پر حرکت کرتی ہے ورنہ دم سادھے ہر قسم کی معاشی ناہمواریوں کا تماشا دیکھتی ہے۔ وکلا، صحافی، ڈاکٹر، ٹرانسپورٹر، رکشا ٹیکسی ڈرائیور، ریلوے ، ہوائی اڈوں اور ایئر لائنز کے ملازم غرضیکہ سب کا اپنا اپنا مافیا ہے جو اپنے اپنے مفادات کیلئے ہمہ وقت سڑکوں پر آنے کیلئے تیار رہتا ہے اور سیاست دان اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے کسی بھی قیمت پر کسی ملکی یا غیرملکی طاقت سے سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار ہیں جس کا جتنا ’قد‘ ہے اورجس کا ’ہاتھ‘ جہاں تک جاتا ہے وہ ملکی دولت کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے اور غیرملکی بینکوں میں کھربوں ڈالر سرمایہ اکٹھا کر کے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے، اِس بندر بانٹ میں سول ہو یا ملٹری بیوروکریسی، میڈیا، سیاستدان اور کھرب پتی بزنس اونرز، سب ہی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں چنانچہ ایسے میں پوچھے کون، آئینہ کون دکھائے اور احتساب کون کرے؟

ملک کا نظامِ تعلیم بھی تباہی و تنزلی کی آخری حدود کراس کر چکا ہے، کسی ذمہ دار کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم کیسا ہو؟ ملک کا وزیراعظم انگریزی کا ’دشمن‘ہے حالانکہ ہر قسم کے جدید علوم اسی زبان میں ہیں۔ انواع و اقسام کا نظامِ تعلیم ہماری پروان چڑھتی نسل کو صریحاً کنفیوژ کر رہا ہے، سرکاری اسکول سسٹم ویسے ہی تعلیمی ضروریات کو پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں اور پرائیویٹ اسکول مافیا کی شکل اختیار کرکے بےکس و مجبور عوام کی جیبوں پر سرعام ڈاکہ ڈال رہے ہیں، والدین کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی جیبیں خالی کریں کیونکہ گورنمنٹ اسکول اوّل تو تعداد میں ناکافی ہیں اور بڑھتی ہوئی آبادی کا ساتھ نہیں دے سکتے لیکن اگر یہ اسکول موجود بھی ہیں تو یہاں اساتذہ ناپید اور پڑھائی بالکل نہیں ہوتی۔ یہی حال حکومتی کالجز کا بھی ہے،اسی لئے ہمارے اس کھچڑی زدہ نظامِ تعلیم رکھنے والے ملک کی تعلیم کا بیرونی دنیا میں معیار یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلیمی ادارے پاکستان کے تعلیمی اداروں کی ڈگری قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ میری مایوسی کی ایک اور وجہ باہمی رشتہ داریوں اور دوست احباب کے منفی رویے بھی ہیں، یہاں شفافیت اور کھلے دل سے کوئی بھی میل ملاپ نہیں رکھتا، نفسا نفسی کے معاشرے میں کسی سے دعا سلام بھی بالحاظ عہدہ اور معاشی وزن کو ملحوظ رکھ کر ہی کی جاتی ہے اس قسم کے ’تھینک لیس‘ ابن الوقتوں سے جس قدر چاہے انسیت کی جائے اخوت کی بجائے کدورت ہی حصے میں آتی ہے۔ خاندانی شرافت، ادب و آداب، سوری اور تھینکس جیسے الفاظ معاشرے کے کینوس سے جیسے حذف کئے جا چکے ہیں ہر شخص آپ کی جیب پر نظر رکھے ہوئے کسی ’خاص‘ موقع کا منتظر ہے۔ قبضہ مافیا پولیس عدلیہ اور ملک کے ہر انتظامی شعبہ سے زیادہ طاقتور ہے اور اسے لگام دینے والے یہ ادارے اپنا حصہ بٹور کراس مافیا کی ان دیکھی طاقت بن رہے ہیں۔ آپا دھاپی اور لوٹ کھسوٹ کا ایک الاؤ ہے جو اس دھرتی کے ماضی کی تمام تر تہذیبی و تمدنی روایات و اچھائیوں کو جلا کر راکھ کر رہا ہے لیکن افسوس کہ ’ہمارا نیرو‘ بانسری بجا رہا ہے! میری مایوسی کا ایک سبب مذہبی انتہا پسندی بھی ہے، صاف دیکھا جا سکتاہے کہ ملک کا محنت کش طبقہ محنت شاقہ کے بعد بھی نان و نفقے کے حصول میں کامیاب نہیں لیکن دوسری طرف مذہبی انتہا پسندوں کی گردن و توند فربہ ہوتی جا رہی ہے۔ خیبر سے کراچی تک پورا ملک تجاوزات اور بے وجہ کے لایعنی تکلیف دہ شور کی زد میں ہے، وفاقی ہو یاصوبائی حکومتیں یہ سب اپنے اقتدار کی مضبوطی اور اپنے مصاحبین کے اللے تللّوں میں مگن ہیں ۔ مایوسی تو یہ بھی ہے کہ روتے بلکتے اور روز مرتے جیتے افراد کے ملک میں 90فیصد عوام کیلئے صرف اندھے گونگے بہرے اور بے حس حکمران اور گھُپ اندھیرے کمرے میں ایک قدم آگے اور کبھی دو قدم پیچھے ٹامک ٹوئیاں مارتا ہوا نظام ہے لہٰذا مایوسی کو شادمانی میں بدلنے کیلئے بقول حبیب جالب۔ جینے کا حق سامراج نے چھین لیا اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو، زلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو ورنہ اگر کچھ نہیں کر سکتے تو بس دُعا کرو!