’’جو بائیڈن بھاڑ میں جائے‘‘ الیکشن میں عوام صدر کو بھیج بھی دینگے!

September 16, 2021

کراچی (نیوز ڈیسک) اقتدار میں آئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا، امریکی صدر جو بائیڈن کی مقبولیت ایسے گر رہی ہے جیسے آسمان سے ٹوٹا ستارہ، غلطی ان کی اپنی ہی ہے، متنازع اقدامات کیوں کیے! دیگر اقدامات کے ساتھ ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے ویکسین کو لازمی قرار دیدیا ہے۔ یہ صورتحال ڈیموکریٹک پارٹی کیخلاف ہے اور حالات اُس طرف جا رہے ہیں جہاں ریپبلکنز کو دوبارہ ابھر کر سامنے آنے میں مدد ملے گی۔ ایسی خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی ہیں جن سے لگتا ہے کہ جو لوگ میڈیا میں اچھی اچھی خبریں آنے کی وجہ سے سوئے ہوئے تھے وہ اب جاگ رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو جگانے کیلئے جو چیخ و پکار ہو رہی ہے وہ ایسے مقامات پر ہو رہی ہے جہاں پہلے ایسا کچھ ہونے کی توقع ہی نہیں تھی۔ گئے دنوں کی بات ہے کہ جب رومی سلطنت میں حکمران عوام کو اصل مسائل سے بے خبر رکھنے کیلئے انہیں کھانے اور روٹی کی تگ و دو میں مصروف رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاً ان کیلئے سرکس کا اہتمام کرتے تھے، اس طرح حکمران عوام کے دل اور دماغ جیت لیتے تھے کہ انہیں کھانا بھی ملتا رہتا تھا اور سرکس بھی، گلیڈی ایٹر کے میچز ہوتے تھے جہاں خون اور مہ بہتا چھلکتا نظر آتا تھا اور عوام بد مست اپنے مسائل سے بے خبر ہو کر لطف اندوز ہوتے نظر آتے تھے۔ آج کے دور میں دیکھیں تو امریکا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ امریکی معاشرہ فٹ بال کا دلدادہ رہا ہے، لیکن اب ایسے میچز کے انعقاد کے باوجود ڈیموکریٹس کیلئے میدانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ کالج کے فٹ بال شائقین کیلئے ایک نیا شغل پیدا ہوگیا ہے، وہ نہ صرف مخالف ٹیم پر فحش فقرے کستے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ اب تو یہ لوگ امریکی صدر کو بھی گالیاں نکالتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ شائقین سے بھرے فٹ بال اسٹیڈیمز صدر جو بائیڈن کیلئے گالیوں کے شور سے گونجتے ہیں جس سے ڈیموکریٹک پارٹی کو یہ پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ ’’لگتا ہے کورونا کی وجہ سے لگایا جانے والا لاک ڈائون جلد ختم کر دیا ہے۔‘‘ صرف فٹ بال اسٹیڈیمز ہی نہیں، لوگوں نے ایسے ایسے مقامات پر جو بائیڈن کیخلاف علامات او سائن بورڈ لگانا شروع کر دیے ہیں جہاں سے ان کا قافلہ گزرتا ہے۔ لگتا ہے کہ ان گالیوں اور علامات کو دیکھ کر ملک کے صدر کے دل کو اس قدر ٹھیس پہنچی ہے کہ انہوں نے 9/11 کی تقریب میں اس بارے میں بات بھی کی۔ جو بائیڈن کا کہنا تھا: ’’میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جو لگ مر چکے ہیں وہ کیا سوچ رہے ہوتے، کیا اُن کو لگتا کہ جب آپ گلیوں میں سے گزریں تو یہ جو سب ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہے اور جو یہ علامات نظر آتی ہیں ’’ایف وغیرہ وغیرہ‘‘ بنایا ہوتا ہے وہ سب ٹھیک ہے؟‘‘ گالیوں، فقروں اور علامات سے پریشان ہونے کی بجائے جو بائیڈن نے کچھ اقدامات ایسے بھی کیے ہیں جن سے امریکی عوام مزید ناراض نظر آتے ہیں۔ ان میں افغانستان سے فوری اور ہنگامی انخلاء، اتحادیوں اور اپنے ہی شہریوں کو افغانستان میں بے یارو مددگار چھوڑنا وغیرہ شامل ہیں۔ صرف یہی نہیں، بھاری مقدار میں قیمتی عسکری ساز و سامان بھی چھوڑ دیا گیا جسے استعمال کرتے ہوئے شاید ایک نئی فوج تشکیل دینے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ چھوڑا گیا عسکری ساز و سامان دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جائے گا یا نہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر ڈیموکریٹک پارٹی والے ایک دوسرے کے کانوں میں کھس پھس کر رہے ہیں تو وہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے کابل میں پھنسے ہم جنس پرست امریکی شہریوں کے حوالے سے وزیر خارجہ بلنکن نے حال ہی میں ایوان کی سماعت کے دوران بیان ضرور داغ دیا ہے۔ سونے پہ سہاگا، بائیڈن صاحب نے ملک میں ویکسین کو سب کیلئے لازمی قرار دیدیا ہے جبکہ لاکھوں عوام سمجھتے ہیں کہ انہیں ویکسین کی ضرورت نہیں یا وہ لگوانا ہی نہیں چاہتے۔ بائیڈن نے خود جنوری میں یہی کہا تھا کہ وہ زبردستی نہیں کریں گے۔ لیکن کر دی زبردستی۔ جھوٹ پہ جھوٹ کی ایک اور حد یہ بھی ہے کہ اب بائیڈن نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ بیماری کا قصور وار ہی ایسے لوگوں کو قرار دیا جا رہا ہے جو ویکسین نہیں لگوا رہے۔ اپنے حالیہ خطاب میں بائیڈن نے دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا صبر ختم ہوتا جا رہا ہے اور آپ کا (ویکسین سے) انکار نقصان کا سبب بن رہا ہے، جو لوگ ویکسین نہیں لگوائیں گے وہ بہت بڑا نقصان کریں گے اور کر بھی رہے ہیں۔ کارپوریٹ کلچر والے ملک امریکا میں اگر کسی نے یہ سمجھ لیا تھا کہ بائیڈن کی یہ دھمکی کارگر ثابت ہوگی تو اسے اچھا تعلقات عامہ کا ماہر نوکری پر رکھ لینا چاہئے۔ ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 58.6؍ فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ صدر کے پاس آئینی اختیارات نہیں ہے کہ وہ نجی کاروباری اداروں کو مجبور کریں کہ وہ اپنے ملازمین کو ویکسین کا پابند بنائیں، صرف 29.7؍ فیصد عوام سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں بائیڈن کے پاس اختیار ہے جبکہ 11.7؍ فیصد کو علم نہیں۔ مختصراً یوں کہا جائے کہ بائیڈن ایسے موقع پر غیر مقبول فیصلے کر رہے ہیں جب مڈ ٹرم الیکشن تیزی سے قریب آ رہے ہیں۔ اے بی سی نیوز پول کے مطابق، اگست کے سروے کے نتائج میں بائیڈن کی غیر مقبولیت کی شرح 51 فیصد رہی، اپریل میں یہ شرح 42؍ تھی۔ 1993ء میں جب بل کلنٹن صدر بنے تو ان کی مقبولیت کی شرح 58؍ فیصد تھی لیکن 1994ء تک ڈیموکریٹس کی مقبولیت کم ہو کر 41؍ فیصد ہوگئی جس کے بعد ریپبلکنز نے کانگریس کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ایسا ہی واقعہ اوباما کے دور میں پیش آیا جب پہلے سیاہ فام شخص کے صدر بننے کی وجہ سے ماحول گرم تھا اور سب ہی اس کامیابی کو اہم اور خوشگوار سمجھ رہے تھے۔ لیکن ایک سال بعد ہی، جب سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا تو اوباما کی مقبولیت گر کر 44؍ فیصد ہوگئی، ایک مرتبہ پھر ریپبلکنز نے کانگریس میں زیادہ نشتیں جیت کر اکثریت حاصل کرلی۔ اگرچہ وبا کب ختم ہوگی یہ بات سبھی امریکیوں کیلئے ایک باعث تشویش بات ہے لیکن اس سے زیادہ تشویش انہیں اس بات پر ہے کہ وبا کا خاتمہ غیر ضروری دبائو ڈالے بغیر ہو اور انہیں اپنی آزادی اور ملازمت کے کھونے کا خوف نہ ہو۔ امریکا میں پہلے ایسا نہیں ہوا اور یہ امریکا کا طریقہ بھی نہیں۔ یہ بات ڈیموکریٹس کو سمجھنا ہوگی کہ ایسے غیر مقبول اقدامات کی وجہ سے آئندہ الیکشن میں اُنہیں کیا قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔