تشدد، جنسی ہراسگی اور متعلقہ ادارے

September 22, 2021

پاکستان میں ہر شعبۂ حیات میں عورت کے لئے مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔ آج کی پُراعتماد عورت اپنی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کرکے اپنی کاوشوں سے تعمیر و ترقی کی نئی راہیں دریافت کرنے میں مردوں کے شانہ بشانہ ہمہ تن مصروف ہے مگر گھر سے باہر کے اس سفر میں اسے ایک طبقے کی جانب سے شدید پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ ماضی میں ایسے عوامل کے باعث عورتوں کے اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے خواب چکنا چور ہو جاتے تھے۔ جہاں ہماری ریاست عورت کی معاشی خود مختاری کے اسباب بناتی ہے وہیں اس کے وقار کی حفاظت، جنسی استحصال سے تحفظ کو یقینی بنانا بھی فرض ہو جاتا ہے، پاکستان میں عورتوں کے جنسی استحصال کو روکنے کے لئے کئی سخت قوانین موجود ہیں، اس کے باوجود پچھلے کچھ مہینوں میں ریپ اور تشدد کی بڑھتی شرح سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

گریٹر اقبال پارک اور چنگ چی رکشہ میں خواتین سے وحشیانہ بدسلوکی جیسے واقعات نے پوری دنیا میں ہماری تربیت، تشخص۔ تہذیب اور تحفظ کے دعوئوں کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ عورت اپنی ہی زمین پر اتنے قوانین کی چھتری تلے بھی غیرمحفوظ کیوں؟ جب کہ تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے مطابق جنسی ہراسگی، تشدد اور استحصال کے مرتکب افراد کو سخت سزا دی جاسکتی ہے۔ جس میں 10سے 25سال قید اور جرمانہ ہو سکتی ہے۔

علاوہ ازیں معنی خیز فحش اور تضحیک آمیز جملے کسنا، آوازیں دینا اور پیچھا کرنا، جس سے خاتون ہراسگی یا خوف کا شکارہو، کی سزا تین سال قید اور 5لاکھ روپے تک جرمانہ ہے مگر اکثریت ان معاملات کو پولیس تک لے جانے سے کتراتی ہے۔ ماضی میں کچھ ایسے واقعات ہوتے رہے کہ باہر جو عزت بچ جاتی تھی وہ تحفظ کی علامت اداروں کے اندر پامال ہو جاتی تھی۔ پھر بدنامی کا یہ خوف بھی کہ لوگ عورت کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ وہ اکیلی باہر کیوں نکلی وغیرہ وغیرہ۔ ان وجوہات کی بنا پر مجرم بےخوف ہوتا گیا اور جرم بڑھتا گیا۔

خواتین کے ساتھ جنسی ہراسگی کے افسوسناک واقعات کے حوالے سے حال ہی میں تعینات ہونے والے آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان سے تو رابطہ نہ ہو سکا مگر کمانڈر ایڈیشنل آئی جی غلام محمود ڈوگر سے گفتگو کر کے اطمینان ہوا۔ غلام محمود ڈوگر نے بتایا کہ خواتین کو کسی بھی ناگہانی صورتحال سے محفوظ رکھنے اور پولیس کی فوری مدد کے حصول کے لئے کیپٹل سٹی پولیس ہیڈ کوارٹرز میں قائم ہیلپ لائن 1242کو جنسی ہراسگی اور تشدد کی شکایات کے اندراج اور داد رسی کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے جہاں متاثرہ خواتین بلا خوف و خطر ایسی کسی بھی شکایت کا اندراج کروا سکتی ہیں تاکہ انہیں فوری قانونی مدد اور انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

لاہور پولیس سوشل میڈیا سمیت مختلف ذرائع ابلاغ کے وسیلے سے خواتین کو آگاہی فراہم کی رہی ہے تاکہ وہ اپنے تحفظ اور پولیس کی بروقت مدد کے حصول کے لئے ’’وویمن سیفٹی ایپ‘‘ کو اپنے سمارٹ فونز میں ڈاون لوڈ کرکے کسی بھی ناگہانی صورتحال میں پولیس کی فوری مدد حاصل کر سکتی ہیں۔ لاہور میں ’’اینٹی وویمن ہراسمنٹ اینڈ وائلنس سیل‘‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جہاں تعینات خاتون کسٹم سپورٹ آفیسرز جنسی استحصال اور تشدد سے متاثرہ خواتین کی داد رسی اور قانونی رہنمائی کے لئے ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ لاہور پولیس پبلک سروس ڈیلیوری اور کمیونٹی پولیسنگ کے شعبوں میں بہتری لانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہی ہے۔ پولیس کے تمام ونگز کی خواتین افسران، لیڈی ٹریفک وارڈنز اور کانسٹیبلز پر مشتمل وویمن سیفٹی اینڈ ایمپاورمنٹ فلیگ مارچ، وویمن سیفٹی آگہی واکس اور سیمینارز کا انعقاد، گرلز کالجز، یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں طالبات، اساتذہ، شہر کی معروف مارکیٹوں، تفریحی مقامات اور پارکوں میں خواتین کو جنسی ہراسگی کی صورت میں حفاظتی تدابیر اختیار کرنے بارے رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔

لاہور پولیس تو خواتین سے متعلقہ جنسی جرائم اور ہراسگی کے واقعات کے تدارک کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ اب خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے مجرمانہ اقدام سے محفوظ رہنے اور فوری پولیس مدد یقینی بنانے کے لئے وویمن سیفٹی ایپ اپنے موبائل میں لازمی ڈائون لوڈ کریں اور اسے استعمال کا طریقہ بھی سیکھیں۔ یہ بہت خوش آئند کاوش ہے جس کی بھرپور تحسین اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہم تحفظ کے اس عمل کو صرف پولیس تک محدود نہ کریں کیونکہ گھروں کی چاردیواریوں میں قید چیخیں تو پولیس ازخود نہیں سن سکتی۔ اس لئے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے جنسی ہراسگی کے واقعات کے خلاف مل کر آواز اٹھانی چاہئے تاکہ ایسے واقعات کا سدِباب ہو سکے۔ ویسے اس طرح کی ایپ بچوں اور مردوں، مطلب ہر فرد کے لئے بھی ہونی چاہئے کیونکہ جرائم پیشہ افراد سے سب کو ہی خطرہ ہو سکتا ہے۔ رب کرے تحفظ کا یہ اقدام پورے ملک کی پولیس اپنائے اور ہم سب ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کو ممکن بنا سکیں جہاں معصوم بچے، بچیاں اور عورتیں بلا خوف و خطر آزادی سے جی سکیں۔