کیا اسلامی ریاست کے قیام کا وقت آگیا؟

September 23, 2021

اسلامی نظام کے نعرے تو کئی دہائیوں سے بلند ہوتے رہے ہیں۔لیکن اب واقعۃً ایک ایسا فیصلہ کن موڑ آگیا ہے جہاں اسلامی نظامِ حکومت کا سنجیدگی سے تجربہ کیا جاسکتا ہے۔

کمیونزم ناکام ہوچکا۔ مگر طبقاتی تضادات اسی طرح موجود ہیں۔ مغربی جمہوریت چاہے وہ صدارتی ہو یا پارلیمانی۔ وہ بھی اکثریت کے لئے مایوس کن ہورہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تابوت میں آخری کیل کووڈ 19 نے ٹھونک دی ہے ۔کینبرا سے لے کر واشنگٹن تک ایک بے یقینی اور بے چینی ہے۔ خطرہ محسوس ہورہاہے کہ سسٹم انسان کو راحت پہنچانے میں نتیجہ خیز نہیں رہا ہے۔ یہ بھی زیر بحث ہے کہ کیا انتخابی نظام ووٹرز کو درست نمائندے منتخب کرنے میں مدد نہیں کررہا ہے۔

امریکہ اور چالیس سے زیادہ ترقی یافتہ، روشن خیال یورپی جمہوریتوں نے افغانستان میں ایک جمہوری مملکت کے قیام کی کوشش کی۔یہاں ان کے صرف فوجی ہی نہیں تھے بلکہ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، اٹلی، جرمنی، نیوزی لینڈ، بلغاریہ، پولینڈ، اسپین، رومانیہ، فن لینڈ، فرانس، ہنگری، ناروے، بلجیم، پرتگال، سویڈن، یونان، آسٹریا اور البانیہ کے ماہرین تعلیم۔ قانون دان، سماجیات، عمرانیات، فلسفے کے اساتذہ بھی آکر کئی کئی ہفتے کئی کئی دن قیام کرتے تھے۔ افغانستان کے بہت سے اسکالرز ان ملکوں میں جاکر جدید علوم حاصل کرتے رہے۔ سب کی کوشش یہ تھی کہ ایک جدید، حقوق آشنا، پیش بیں، مبنی بر علم افغانستان قائم کرسکیں۔ مگر یہ ساری کوششیں بے سود رہیں۔ اس کے اسباب پر تحقیق تو یورپ امریکہ میں ہوتی رہے گی۔ لیکن انسانوں کی اکثریت کے لئے قابلِ قبول، مساوات پر مبنی معاشرہ قائم کرنے والے نظام کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔

کیا یہ خلا، یہ تجسس، اسلامی اسکالرز کو دعوت نہیں دے رہا ہے کہ اسے اسلامی نظام حکومت سے پُر کیا جائے۔افغانستان میں یورپی مغربی ذہانت، فلسفے، حکمت۔ دستوری شعور ناکام ہوئے ہیں۔ اب پھر ان سے یہی توقع کرنا کہ وہ کوئی اور ایسا جامع نظام تلاش کرلیں گے، جو قیادت کے خلا کو پُر کرسکے، محض ایک خام خیالی ہے۔ بلکہ افغانستان میں واقعی ایک آگے بڑھتی ریاست اور جدید علوم کی بنیاد رکھنے والی مملکت قائم کرنے کی آرزو رکھنے والے افغان آئینی ماہرین، پروفیسرز، اسکالر اس وقت سخت خطرے میں ہیں۔

اب ذمہ داری ہے۔ سب سے پہلے تو طالبان رہنمائوں کی۔ جو اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی حکمرانی کی بنیاد اسلامی شریعہ ہوگی۔ تمام قوانین میں بنیادی اصول یہ ہوگا کہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہوں۔ اب فیصلہ کن امر یہ ہوگا کہ شریعت کی حدود کیا ہیں۔ شریعہ کا دائرہ کار کیا طالبان حکمران طے کریں گے۔ اور کیا یہ شریعہ صرف افغانستان تک محدود ہوگی۔ کیا طالبان اس دَور کے تقاضے اور بھٹکتی انسانیت کی آواز پر کان دھرتے ہوئے یہ کوشش نہیں کریں گے کہ وہ دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم ملکوں سے اسکالرز کو کابل میں جمع کریں۔ اور ایک ایسا نظام حکمرانی باہمی مشاورت سے تشکیل دیں۔ جو صرف اسلامی ملکوں میں ہی نہیں غیر مسلم ملکوں میں بھی انسانیت کی اعلیٰ اقدار کو تحفظ دے سکے۔اسلامی بینکاری کو غیر مسلم بھی اپنارہے ہیں۔ اسلامی ریاست میں اگر جدید و قدیم علوم کا امتزاج، مستحکم معیشت، قانون کی حکمرانی کا تصوّر دیا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں مساوات قائم کی جاسکتی ہے۔ تو غیر مسلم ممالک بھی اسی طرز حکومت کو اپنانے میں تامل نہیں کریں گے۔ مگر یہ اسلامی نظامِ حکمرانی ایسا ہو جسے پہلے مسلم ممالک قبول کریں۔ اور اپنے ہاں اس کے عملی نمونے پیش کریں۔

پہلے اسلامی ملکوں کے حکمرانوں نے مسلم اسکالرز کی سفارشات کو قبول نہیں کیا۔ ایسے میں اسلامی نظام کے خواہشمند نوجوان عسکری اسلام کی طرف راغب ہوتے رہے۔ القاعدہ، طالبان، انصار الاسلام، لشکر طیبہ، اسلامک خراسان اسٹیٹ، داعش اور نہ جانے کون کون سی جہادی تنظیموں نے اسلامی ریاست کے قیام کے لئے مسلح راستہ اختیار کیا۔ جسے خود مسلمانوں کی اکثریت نے بھی پسند نہیں کیا۔ اور ان تنظیموں کا نشانہ بھی زیادہ تر عام مسلمان ہی بنتے رہے۔ یہ عسکری پُر تشدد تجربہ ہم مسلمان کرچکے۔ اب اسلامی نظام کی آرزو رکھنے والوں کی حمایت اگر اسلامی فکری تنظیموں کے ذریعے حاصل کی جائے بلکہ جہادی تنظیمیں، اسلامی اسکالرز، مسلم سیاستدان، مسلم ماہرین تعلیم اور اسلامی تاریخ پر تحقیق کرنے والے سب مل کر کوئی راہ دکھاسکتے ہیں۔

انڈونیشیا سے بوسنیا تک مسلمانوں کی خواہش ہوگی کہ طالبان، اسلامی ملکوں کی تنظیم اور دولت مند اسلامی ریاستیں کابل میں ملت اسلامیہ کے قانون دانوں، آئینی ماہرین، اسکالرز، جدید اسلام کے محققین اور خواتین اسکالرز کو جمع کریں۔ اب تک مختلف ملکوں مختلف زمانوں میں زیر عمل لائے گئے ریاستی نظاموں کی ناکامیوں کے اسباب کا جائزہ لیں۔ خامیوں کی نشاندہی کریں۔ نظریات خام تھے یا ان پر عمل مخلصانہ نہیں ہوا۔ مسلمان کئی صدیوں سے یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ ہمارے پاس مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ ہمارا دین ہر دور، ہر علاقے، ہر صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا سکھاتا ہے تو مختلف ممالک اور مسالک کے علماء اور جدید اسکالرز آج کے حالات میں انسان کو آگے لے کر چلنے ولا اسلام کا عمرانی، آئینی، قانونی،فقہی، زرعی، صنعتی، مالیاتی، اقتصادی، تعلیمی، طبّی، انفرا اسٹرکچر، مواصلاتی اور دفاعی نظام مرتب کریں۔ اکیسویں صدی میں انسان کائنات کو جہاں تک مسخر کرچکا ہے اور اب نئی کائناتوں میں جانا چاہتا ہے۔ سمندر کی تہوں میں تحقیق کررہا ہے۔ ان تمام نئے علوم ، سائنسی تجربات انسانی نفسیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک مبسوط، باضابطہ، باقاعدہ نظام حکمرانی مرتب کیا جائے۔ اظہار کی آزادی، برداشت اور تحمل پر مبنی جامع اسلامی معاشرے کے خطوط کیا ہوسکتے ہیں۔ ملائشیا اسلامی پارٹی نے تو 37صفحات پر مشتمل ایک اسلامی ریاست دستاویز بھی تیار کر رکھی ہے۔ جس میں ایسی ریاست کے تصوّر۔ اسلامی حکومت کے بنیادی اصول۔ خصوصیات شامل کی گئی ہیں۔ امید ظاہر کی ہے کہ ایک تکثیری معاشرے کو اسلامی نظام حکومت سے خوشحال اور تمام مسائل کا حل مل سکتا ہے۔ ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ طالبان ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ کسی اجتہاد سے اجتناب اور قدیم حنفی و قبائلی تعبیر دین کو معراج باور کرتے ہیں۔ وہ اس کے لئے تو تیار ہیں کہ ابلاغیات، مالیات اور ٹیکنالوجی میں جو چاہے تعاون کرے۔ مگر فکر و خیال کے گیٹ پر بڑا سا تالا لگاکر اس کی حفاظت کو ہی درست سمجھتے ہیں۔

معلوم نہیں یہ رائے کس حد تک درست ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلامی اسکالرز کو یہ اجتماعی کوشش کرلینی چاہئے۔ ایسا موزوں وقت پہلے تاریخ میں نہیں آیا ہوگا۔ ایسا اجتماع اسلام آباد میں منعقد کرکے اسلام آباد اپنے نام کی لاج رکھ سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس سلسلے میں بہت کام کر چکی ہے۔ اس سے استفادہ کیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)