چڑیا کے بغیر چڑیا گھر؟

September 23, 2021

کتنی حیران کن بات ہے کہ چڑیا گھر میں چڑیا نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود اسے چڑیا گھر کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اُسے زو (ZOO)کہتے ہیں تو ہم اردو والے اسے جانور خانہ کیوں نہیں کہتے؟

بات دراصل یہ ہے کہ بےچاری بے ضرر چڑیا کے نام پر جنگل کے خطرناک جانوروں کو پُرسکون ماحول دیا جاتا ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے کا بجٹ ایک ننھی سی چڑیا کے نام پر جاری ہوتا ہے اور جنگل کے خطرناک درندوں کی ’’آئو بھگت‘‘ پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ درندے ہیں جن کی بھوک کئی من تازہ گوشت کھا کر مٹتی ہے۔ ساگ پات پر ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ چڑیا ایک ننھا سا وجود رکھتی ہے۔ اسے بھوک مٹانے کے لئے کسی بھاری بھرکم بجٹ کی ضرورت نہیں۔ دانے دنکے پر گزارا کر لیتی ہے۔ جہاں دل چاہے، چلی جاتی ہے۔ کھاتی ہے، پیتی ہے۔ انسانوں کو اس سے کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوتا البتہ یہ انسانوں سے ضرور ڈرتی ہے کیونکہ وہ اسے کبھی کبھی اپنے دام میں قید کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود چڑیا انسانوں کے آس پاس رہتی ہے۔ انہیں اپنی چھب دکھلاتی ہے۔ ان کے چھوٹے بڑے صحنوں میں خوب چہچہاتی ہے۔ کبھی اِدھر سے اُدھر اڑتی ہے کبھی پھدکتی پھرتی ہے۔ ہم انسانوں نے چڑیا کو دوچار دانوں اور پانی کی چند بوندوں کے احسان تلے یوں دبایا ہوا ہے کہ یہ بے چاری کسی اور مخلوق کی طرف دیکھتی ہی نہیں۔ ہم انسان اس کے باوجود اسے اپنے گھروں میں پڑے چھوٹے چھوٹے پنجروں میں بند کر دیتے ہیں اور آزادی کے نعرے لگاتے ہیں۔ اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے ہم جان تک دینے کو تیار ہو جاتے ہیں اور ننھی سی چڑیا کو قید کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم برڈ لورز (BIRD LOVERS)میں شامل ہو گئے ہیں۔

اگر چڑیا کے منہ میں ہمارے جیسی زبان اور سر میں ہمارے جیسا دماغ ہوتا تو ہم سے یہ سوال ضرور پوچھتی ’’تم نے میرے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر کے چڑیا گھر کیوں بنا رکھے ہیں؟ تم میرے نام پر شیروں، چیتوں، بھیڑیوں اور ریچھوں کو لاکھوں روپے کا گوشت کیوں کھلاتے ہو؟ حالانکہ یہ سب وہ جانور ہیں جو ہمیشہ سے تمہارے جانی دشمن رہے ہیں۔ گھات لگا کر تم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ درندے نیک اور بد میں کوئی تمیز کرتے ہیں نہ عورت مرد کا لحاظ کرتے ہیں۔ انہیں تو اپنا پیٹ بھرنے سے غرض ہوتی ہے حتیٰ کہ یہ درندے کبھی کبھی ان لوگوں کو بھی نہیں چھوڑتے جو ان کی دیکھ بھال پر مامور ہوتے ہیں، ان کے سامنے تازہ گوشت کے لوتھڑے رکھتے ہیں، انہیں پینے کا صاف پانی فراہم کرتے ہیں۔ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔ مجھے تم اچھے لگتے ہو اور تمہیں میں اچھی لگتی ہوں۔ سورج کی ٹھنڈی میٹھی کرنوں میں بھیگی ہوئی تمہاری صبحوں کو حسین بناتی ہوں۔ گیت گاتی ہوں۔ تم نیند میں ڈوبے ہوئوں کو جگاتی ہوں۔ اتنا چہچہاتی ہوں کہ سورج بھی ہڑبڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھتا ہے اور دنیا کو آنکھیں دکھاتا ہے‘‘۔ ہم انسان واقعی بہت ظلم کرتے ہیں۔ ظالموں سے ڈرتے ہیں اور ان کے شر سے خوف زدہ ہو کر ان کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ درندوں کا گوشت ہم کبھی نہیں کھاتے۔ چرندوں اور پرندوں کو کھانے کے لئے ہمارے دندانِ آز ہمیشہ تیز اور تیار رہتے ہیں۔

جس طرح ہمارے چڑیا گھروں میں چڑیا نہیں ہوتی اسی طرح ہماری جمہوریت میں جمہور نہیں ہوتے۔ عام آدمی کے ذریعے، عام آدمی کے لئے، عام آدمی کے ووٹ سے بننے والی جمہوری اسمبلیوں میں ایک بھی عام آدمی نہیں ہوتا۔ عام آدمی کے نام پر ہم بڑے بڑے جاگیرداروں، صنعتکاروں، تاجروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور بیورو کریٹوں کو اسمبلیوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ جس طرح چڑیا گھر میں چڑیا کے نام پر بھاری بھرکم بجٹ جاری ہوتا ہے اسی طرح ان اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے بڑوں کے لئے، عام آدمی کے نام پر اربوں روپے کی گرانٹس جاری ہوتی ہیں۔ اسمبلی میں آتے ہی ان لوگوں کے دن پھر جاتے ہیں۔ بھرے ہوئے پیٹ مزید بھر جاتے ہیں۔ تجوریاں چھوٹی پڑ جاتی ہیں۔ عام آدمی کا کیا ہے؟ وہ تو چڑیا کی طرح ذرا سے ’’دانے دنکے‘‘ پر گزارا کر لیتا ہے۔ مل گیا تو کھا لیا، نہ ملا تو دم سادھ کر سو جاتا ہے۔ چڑیا گھر والے ہمیں چڑیا کے نام پر بے وقوف بناتے ہیں اور جمہوریت کے علم بردار، جمہور کے نام پر ہمیں چونا لگاتے ہیں۔ چڑیا کے منہ میں زبان ہے نہ سر میں دماغ۔ ہم جمہور منہ میں زبان بھی رکھتے ہیں اور سر میں دماغ بھی لیکن وہ بات ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتی جو ننھی سی چڑیا کی سمجھ میں آگئی ہےْننھی سی چڑیا درندوں سے بالکل خوفزدہ نہیں ہوتی۔ یہ چڑیا گھر کے اندر بند درندوں کے قریب چلی جاتی ہے ان سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے۔ وہ اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پہ پُھر سے اڑ جاتی ہے اور ان کی ہنسی اڑاتی ہے۔

کیا عام آدمی میں چڑیا کی سی بھی جرأت نہیں؟ کیا ہم جمہور کے نام پر بنائی گئی اسمبلیوں میں کبھی نہیں جا سکیں گے؟ آخر میں میری ایک غزل کے یہ اشعار پڑھ لیجئے؎

سمندروں کے مخالف چلو تو مانتے ہیں

یہاں کے لوگ عجب ہیں، مرو تو مانتے ہیں

قطار والوں کو پہچانتا نہیں کوئی

ذرا قطار سے ہٹ کر چلو، تو مانتے ہیں