خدارا! اب بس کریں

September 23, 2021

پیٹرولیم مصنوعات میں حالیہ ا ضافے سے ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے، اس نے غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔عوام چیخ اٹھے ہیں،پوری قوم بلبلا رہی ہے کہ خدارا اشیاء خورونوش کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے ،لیکن افسوس کہ حکمران اس پر توجہ دینے کے بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ پوری دنیامیں پاکستان سب سے سستا ملک ہے۔ان کا یہ بیان غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔ملک میں گزشتہ دو برس کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 2کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ عالمی تناظر میں روزانہ 2ڈالر سے کم آمدنی والا شخص اس فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔پاکستان میں 80فیصد ملازمت و مزدوری پیشہ افراد یومیہ 2ڈالر سے کم کماتے ہیں۔ مغربی ممالک میں یہ شرح اوسطاً 10ڈالر ہے۔ گزشتہ 15ماہ کے دوران ملک میں پٹرولیم کی قیمتوں میں 159اور عالمی منڈی میں 88.75فیصد اضافہ ہواہے۔ پاکستانی کرنسی کے لحاظ سے اس عرصے میں اندرون ملک پٹرول کی قیمتیں 56.70روپے فی لیٹر تک بڑھی ہیں، جبکہ بجلی و گیس کے نرخ اس کے علاوہ ہیں جو تیزی سے اضافے کی طرف جارہے ہیں۔یہ اعداد و شمار ملک میں مہنگائی کی بنیادی وجوہات جاننے کیلئے کافی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ملک میں مہنگائی مزید 1.31فیصد بڑھی ہے ،ماہانہ سطح پر یہ 5فیصد بنتی ہے۔ آٹا، چینی، گھی، گوشت، انڈے، بیکری کا سامان، واشنگ سوپ اور پائوڈر وہ اشیا ہیں جو ہر امیر غریب کی ضرورت ہیں،مگران کی آسمانوں سے باتیں کرتی قیمتیں اب مڈل کلاس کی دسترس سے بھی باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے حالات میں دودھ، گوشت، سبزی، پھل میں سے کوئی غذا یا پروٹین ایسی نہیں جو کم آمدنی والے خاندانوں کو میسر آسکے۔ غرض یہ کہ مہنگائی نے ملک میں قیامت ڈھا رکھی ہے، غربت کی چکی میں پستے عوام دہائیاں دے رہے ہیں، خودکشیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، لوگ نانِ جویں کو ترس گئے ہیں، مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ الٹا یہ دلائل دیے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں تمام اشیاء پوری دنیا سے سستی ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تین سال پہلے ستمبر 2018ء میں جو چینی 65 روپے فی کلو تھی، اب 115روپے فی کلو ہو چکی ہے۔ خوردنی گھی جو تین سال پہلے 195 روپے فی کلو تھا، وہ اب 350فی کلوتک جا پہنچا ہے۔ 20کلو آٹے کا تھیلا جو تین سال پہلے 9سو روپے کا تھا، وہ اب 14سو روپے کا ہو گیا ہے۔ بڑا گوشت جو تین سال پہلے 4 سو روپے کلو تھا، وہ اب 8 سو روپے فی کلو ہو چکا ہے۔ چھوٹا گوشت 960سے بڑھ کر 1500تک جا پہنچا ہے۔ برائلر مرغی 160 سے 340 تک ہو چکی ہے۔ دودھ کی قیمتوں میں 45روپے فی لیٹر اضافہ ہوا۔ فی درجن انڈے 115سے بڑھ کر 190 تک ہو گئے ہیں۔ اشیاء خور و نوش میں سے یہ صرف چند چیزوں کا ذکر کیا ہے کہ گزشتہ تین سال میں تقریباً د گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جتنی اشیاء ہیں، خواہ وہ کھانے پینے سے تعلق رکھتی ہوں یا پھر دیگر استعمال کی ہوں، سب کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ غربت اور مہنگائی کا جن جبڑے کھول کر سفید پوشوں کو کچا چبانا چاہتا ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے اتنی خودکشیاں ہورہی ہیں جتنی شاید گزشتہ نصف صدی میں بھی نہ ہوئی ہوں گی۔ غریب آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ملکی معیشت ترقی کررہی ہے یا نہیں؟ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے یا کمی؟ درآمدات بڑھ رہی ہیں یا برآمدات؟ عوام کو تو اس سے غرض ہے کہ آٹا، دال، چاول، چینی اور دیگر اشیائے ضرورت کی چیزیں ان کی پہنچ میں ہوں۔ غریب کے لئے تو دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانا اور دوسرے ان کی قیمت اس کی دسترس میں ہونا۔

صد افسوس کہ اس وقت یہ دونوں مفقود اور عنقا ہیں۔ جہاں تک اس بیان کا تعلق ہے کہ ’’پاکستان تمام ممالک کی نسبت بہت سستا ہے‘‘ یہ درست ہے، اس میں صداقت ہے کہ پاکستان کا شمار سستے ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ہم نے یورپ کے 18مختلف ممالک کا سفر کیاہے، وہاں پر گھوم پھر کر جائزہ لیا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ یورپی ممالک میں غربت نہیں ہے۔ یہ تمام ممالک دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بے روزگار ہے یا اس کی آمدنی کم ہے تو اس کی جملہ ضروریات کو حکومتِ وقت پورا کرتی ہے۔ وہاں ہر شخص کو ہر قسم کی سہولتیں یکساں طور پر حاصل ہیں۔ تعلیم، علاج معالجہ، رہائش اور خوراک تو حکومتی ذمہ داریوں میں شامل ہے، وہاں پر کسی شخص کو اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کےلئے اپنے گردے نہیں بیچنے پڑتے۔ بھوک کی وجہ سے خودکشیاں نہیں ہوتیں۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محرومی نہیں ہوتی۔ رقم نہ ہونے کی بنا پر کسی کا علاج نہیں رکتا۔ عملاً وہ ویلفیئر اسٹیٹ کہلاتی ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا نام لیا جاتا ہے ریاستِ مدینہ تو ویلفیئر اسٹیٹ تھی۔ غریب عوام کی جملہ بنیادی ضروریات بیت المال سے پوری کی جاتی تھیں، لیکن یہاں تو غریب عوام کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں ہے۔ بس کریں جناب بس کریں۔ بلند آہنگ دعوؤں اور خوشنما بیانات کی دنیا سے نکل کر حقیقت کا سامنا کریں۔ چند ایسے عملی اقدامات کریں کہ کم از کم مزید مہنگائی نہ ہو۔ غموں اور دکھوں کی مارے غریب عوام کو مزید نہ ماریں۔ یہ ملک و قوم پر احسانِ عظیم ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)