اسلام میں والدین کا مقام و مرتبہ اور اُن سے حُسنِ سلوک کی اہمیت

September 24, 2021

مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو‘ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کی حد کو پہنچ جائیں تو تم انہیں اُف بھی نہ کہو اور نہ ان پر خفا ہو ‘ اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب‘ عزت اور نرم لہجے میں بات چیت کرو‘ اور ان کے لئے اطاعت کا بازو محبت سے بچھا دو اور کہو اے پروردگار تو ان کی کمزوری میں ان پر ایسا ہی رحم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے مہربانی سے پالا پوسا ہے۔ (سورۂ بنی اسرائیل)

اسلام دین فطرت ہے اور اس میں خالق و مخلوق سب کے حقوق و فرائض متعین کردیئے گئے ہیں۔اللہ رب العالمین نے جہاں اپنے بندوں پر یہ فرض کر دیا کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور کسی بھی شے کو اس کی ذات یا صفات میں شریک نہ کریں تو اپنے اوپر بھی بندوں کا یہ حق رکھ لیا کہ جب میرے بندے توحید خالص اختیار کریں گے تو میں رب العالمین بھی اپنے آپ پر یہ لازم کر لیتا ہوں کہ ایسے بندوں کو جہنم کے عذاب سے بچا لوں۔

اللہ رب العالمین کی عظمتوں اور رحمتوں کے قربان جائیے کہ اس نے اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کا بھی کس قدر اہتمام فرمایا‘ اور ہمارے لئے کس قدر رہنما اصول متعین فرمادیئے کہ جب اللہ تعالیٰ باوجود مالک و مختار ہونے کے اپنے بندوں کے حقوق کا اس قدر خیال رکھتا ہے تو پھر بندوں کے بندوں پر حقوق کس قدر لازم و ملزوم ہوں گے۔

گویا معاشرے کے تمام طبقات ایک دوسرے کے ساتھ حقوق و فرائض کے جزو لاینفک میں اس طرح جوڑ دیئے گئے ہیں کہ دنیا کی تمام مخلوقات امن و سکون سے رہ سکیں اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو اور عدل و انصاف کا بول بالاہو۔ اسلام نے ہر ایک کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا، تاکہ کسی قسم کا بگاڑ پیدا نہ ہو۔ سب سے بڑا حق اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیاجائے۔ اس کے بعد جیسا کہ آیت مبارکہ سے ظاہر ہے کہ والدین کے حقوق ہیں۔

جن کی پاس داری کرنا اولاد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اگر مسئلے کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ میں فیصلہ کن انداز میں جہاں اپنے حقوق بندگی کا حکم دیا‘ اس کے پہلو بہ پہلو والدین کے حقوق کا اعلان فرمایا۔ گویا اللہ تعالیٰ کی بندگی کے بعد اگر کوئی فرض ہے تو وہ والدین کی اطاعت و فرماںبرداری ہے۔

ان آیات مبارکہ میں کتنے نصیحت آموز الفاظ استعمال کئے گئے کہ حقوق والدین کا کوئی گوشہ بھی تشنہ نہیں چھوڑا گیا کہ جس سے سرمو انحراف کا کوئی جواز نکلتا ہو۔ چنانچہ اولاد کو حکم دیا گیا کہ جب تمہارے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی حد کو پہنچ جائے توتم انہیں اونھ یا اُف تک نہ کہو۔ یعنی کہ اپنے رویے یا الفاظ سے کسی طرح کی بیزاری کا اظہار بھی نہ کرو۔ چونکہ بڑھاپے میں انسان دو طرح کی تکالیف میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔

اول بیماری و کمزوری، دوم چڑچڑا پن۔ جب انسان کے اعضاء کمزور ہو جاتے ہیں اور وہ نحیف و ناتواںہو جاتاہے جس کی وجہ سے وہ زمین پر کسی قسم کی بھاگ دوڑ کرنے کے قابل نہیں رہتا اور طرح طرح کی بیماریوں میںمبتلا ہوجاتا ہے تو نتیجتاً اس کے مزاج میں تلخی اور چڑچڑا پن آجاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار ڈانٹ ڈپٹ اور بے جا روک ٹوک یا غصے کی صورت میں کرتارہتا ہے ۔ تو ایسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے حکم دیا گیا کہ کہیں ان کی ایسی حالت دیکھ کر بے زاری کا اظہار مت کر دینا اور جیسا کہ آگے فرمایا کہ نہ انہیں جھڑکو اور نہ خفا ہو اور نہ ہی اف تک کہو، یعنی ناگواری کا ہلکا سا شائبہ بھی ظاہر نہیں ہونا چاہیے کہ کیا مصیبت ہے ابا جان، تو ہر وقت آسمان سر پر اٹھائے رکھتے ہیں یا اماں کو سوائے بک بک کرنے کے کوئی اور کام ہی نہیں ہے یا اسی قسم کے کوئی اور الفاظ ان کے سامنے ادا کرنا بھی منع کر دیئے گئے ۔ مبادا کہیں ان کی دل آزاری ہو اور تمہارے نامناسب رویے سے ان کے دل دماغ پر منفی اثر ہو اور ان کی موت واقع ہو جائے‘ جو خود تمہارے لئے بدبختی کا ذریعہ ثابت ہو جائے۔

اس مقام پر اگر غور کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ اُف ہی کیوں استعمال کیا‘ کوئی اور لفظ بھی استعمال ہو سکتا تھا تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ والدین چراغ سحری ہوتے ہیں اور وہ بڑھاپے کی حدود تک پہنچ کر اپنی طبعی زندگی گزار چکے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی بس اب اور جب پر ہی ہوتی ہے۔

جس طرح چراغ سحر تمام رات جل کر اپنی روشنی سے ہماری تاریک رات کو منور کرتا رہا اور اب جبکہ صبح قریب ہے ،لیکن چراغ کا تیل خاتمے کی جانب رواں دواں ہوتا ہے اور آپ اسے نہ بھی بجھائیں تو وہ خود چند لمحوں بعد دوچار مرتبہ بھڑک کر بجھ جاتا ہے اور جب چراغ میں دم نہیں رہتا اور روشنی کو تیل کی سپلائی بند ہو جاتی ہے تو معمولی سی پھونک بھی اس روشنی کو گل کرنے کے لئے کافی ثابت ہوتی ہے۔

اس لئے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ لفظ اُف کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ تمثیل ظاہر کرتی ہے کہ جس طرح ہلکی سی پھونک چراغ سحری کی موت بن جاتی ہے تو لفظ اُف جس کی ادائیگی میںہلکی سی پھونک نکلتی ہے ،وہ بھی ماں باپ کی موت کا باعث بن سکتی ہے ۔ لہٰذا اس ادنیٰ سی گستاخی و بے ادبی کو بھی مالک کائنات نے پسند نہیں فرمایا کہ تمہاری معمولی سے سخت بول کی وجہ سے تمہارے ماں باپ موت کی وادیوں میں چلے جائیں اور تم اپنی تمام تر خدمتوں اور فرماں برداریوں کے باوجود ایک معمولی سی غلطی کی وجہ سے والدین کی موت کا باعث بن کر اللہ کی بارگاہ میں راندئہ درگاہ ہو جاؤ۔

لہٰذا بوڑھے والدین کی ہر طر ح سے خدمت بجا لاؤ اور بڑھاپے کی وجہ سے ان پرطاری بدمزاجی وغیرہ کو خندہ پیشانی سے برداشت کرو اور اگر کبھی انتہائی رنج بھی پہنچے تو ان کے سامنے تنک کر جواب نہ د و،بلکہ ان سے علیحدگی میں کہیں بیٹھ کر اپنا غم غلط کر لو اور انہیں سخت سست کہنے کی بجائے ان سے ادب عزت اور نرم لہجے میں بات کر واور ان کے لئے اپنی اطاعت کا بازو محبت سے بچھا دو یعنی ان کی اطاعت و فرماں برداری طوعاً و کرہاً مت کرو بلکہ محبت و شفقت کے ساتھ ان کی خدمت بجا لائو۔ نیز ان تمام تر محبتوں اور شفقتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میں دعا بھی کرتے رہو کہ اے پروردگار ،تو ان کی کمزوری میں ان پر ایساہی رحم فرما، جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے مہربانی سے پالا پوسا ہے۔

گویا ا س مقا م پر اللہ تعالیٰ اولاد کو احساس دلا رہا ہے کہ جب تم پید اہوئے تھے تو کمزور و ناتواں تھے ‘ نہ تم چل پھر سکتے تھے‘ نہ بول سکتے تھے ‘ اور نہ ہی کسی قسم کی قوت و توانائی کے حامل تھے ‘ بلکہ تم کچھ بھی نہیں تھے ۔جب اللہ نے تمہیں وجود بخشا اور تمہاری ماں نے تکلیف پر تکلیف سہہ کر جنم دیا ۔یہاں تک کہ تم تندرست و توانا جوان رعنا بن گئے اور تمہارے ماں باپ بڑھاپے کو پہنچ گئے تو جو نیک بخت اولاد ہوتی ہے، وہ والدین کی خدمت کر کے نہ صرف ان کی دعائیں حاصل کرتی ہیں، بلکہ اللہ کی رضا بھی انہیں حاصل ہوتی ہے ۔اور وہ ان کے گناہوں کو اس نیکی کے بدلے معاف کر دیتا ہے اور اپنی خوشنودی کی لازوال نعمت انہیں عطا فرماتاہے۔

سروردوعالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے!ترجمہ! اللہ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی)

ایک دوسرے مقام پر والدین کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا! ترجمہ! سیدنا ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایا تیری جنت اور دوزخ وہی دونوں ہیں(ابن ماجہ)

یعنی ماں باپ کا اولاد پر بہت حق ہے ۔ ان کے ساتھ نیکی کرنا اور دکھ نہ پہنچانا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا دخول بہشت کا ذریعہ ہے ۔ تو انہیں تکلیف پہنچانا‘رنج و غم دینا اور نافرمانی و بدسلوکی کرنا ‘دوزخ میں جانے کا موجب ہے ۔ اس لئے فرمایا کہ تیری جنت و دوزخ وہی دونوں ہیں۔ گویا انسان انہیں راضی رکھ کر رب کی رضا حاصل کر سکتا ہے اور جنت کا حصول اس کا مقدر ٹہرے گا۔ جبکہ انہیں ناراض کر کے انسان رب کی ناراضی مول لے لیتاہے ‘ جس کے نتیجے میں جہنم کا حق دار بن جاتا ہے۔