سید مودودیؒ کا کارنامہ

September 24, 2021

تحریر:محمد صادق کھوکھر۔۔۔ لیسٹر
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جب ہوش سنبھالا۔ مسلم معاشرہ اس وقت ابتری کا شکار تھا۔ ایک طرف سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی غلامی اور دوسری طرف عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں، گویا مسلمانوں کو ہر لحاظ سے کچلا جا رہا تھا، نت نئے فتنے پیدا ہورہے تھے۔ ان حالات میں کچھ دانشور یہ سمجھنے لگے کہ جس طرح یورپی اقوام نے مذہب سے جھٹکارا حاصل کر کے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح مسلمان بھی مغرب کی نقالی کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں، لہذا انہوں نے دین و دنیا کی تفریق کا نعرہ بلند کیا اور لوگوں کو باور کرانا شروع کیا کہ دین انسان کا ذاتی معاملہ ہے اس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ خاص طور پر انہوں نے دین اور سیاست کے تعلق کی شدید مخالفت کی، بدقسمتی سے دینی طبقے نے بھی اسی تصور حیات میں عافیت سمجھی۔ انہوں نے اس غلط تصورِ زندگی کو چیلنج نہ کیا۔ بلکہ عملا" اس نظرئیے کو تقویت دی۔ سید مودودیؒ نے دین و دنیا کی تفریق کے علمبرداروں کو للکارا اور بتایا کہ اسلام صرف پوجا پاٹ کا نام نہیں، یہ محض رسومات کا نام نہیں، یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ایک طرزِ زندگی ہے، انہوں نے مسلمانوں پرزور دیتے ہوئے کہا اسلام زندگی کا ایک جز نہیں۔ بلکہ پوری زندگی قران و سنت کے مطابق بسر کرنے کا نام ہے۔ اٹھو باطل طرزِ زندگی کو بدل کر قانون و سیاست، معاشرت اور معیشت بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اپنے رب کے احکام نافذ کرنے کی جدو جہد کرو اور زندگی کے ہر شعبے کو اسلام کے مطابق ڈھال دو، یہ اس دور کی تنہا آواز تھی۔ جوتجدید و احیائے دین کے لیے صدیوں بعد گونجی، انہوں نے اسلام کے مختلف پہلوؤں کو قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کرنا شروع کر دیا تو ان پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہوگی، ایک طرف لبرل اور سیکولر طبقہ تھا جو دنیاوی معاملات میں مذہبی مداخلت کے خلاف تھا۔ دوسری طرف کچھ مذہبی گروہ تھے جو ذاتی اور گروہی عصبیت کا شکار تھے، انہوں نے سید مودودیؒ کے خلاف مخالفت کا طوفان اٹھا دیا تھا، اس مخالفت میں منکرینِ حدیث اور قادیانی حضرات بھی پیش پیش تھے، سید مرحوم نے ان تمام طبقات کا مسکت جواب دیتے ہوئے واضح کہ خود ساختہ انسانی نظریات کچھ عرصہ بعد اپنی قدر و قیمت کھو دیتے ہیں کیوں کہ انسانی سوچ محدود ہوتی ہے، اس لیے جب تک خالقِ کائنات کی بتائی ہوئی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوں گے، ظلمت کی اتھاہ گہرائیوں میں بھٹکتے رہیں گے، مسائلِ حاضرہ کے حل کے لیے واحد راستہ قرآنِ حکیم ہے، قرآن حکیم جو حل پیش کرتا ہے اس میں نہ صرف عدل اور توازن ہوتا ہے۔ بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی ایک فطری ربط اور مطابقت ہوتی ہے جوانسان کو نفسیاتی الجھنوں سے بچاتی ہے، مذید یہ کہ قرآنی تعلیمات کو کوئی زوال نہیں، یہ ہر زمانے میں قابلِ عمل ہوتی ہیں، ایک طرف انہوں نےدینی طبقے کو قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد پر ابھارا، دوسری طرف انہوں نے غیر اسلامی نظریات کے بودھے پن کو واضح کرتے ہوئے اس کی خرابیوں کی طرف توجہ دلائی اور ان نظریات کا تقابل اسلام سے کر کے بتایا کہ آخر اسلام ہی کیوں انسانی زندگی کی صحیح راہ متعین کر کے انسانیت کو امن و سکون اور سلامتی کا راستہ دکھاتا ہے؟ خاص طور پر انہوں نے کیپٹلزم، سوشلزم، فاشزم، قوم پرستی، ڈارونزم پر کھل کر لکھا، انہوں نے تقسیمِ ہند سے پہلے 1946 میں کہہ دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب کیمونزم خود ماسکو میں اپنےبچاؤ کے لیے پریشان ہوگا اور سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لرزہ براندام ہوگی، یہ بات انہوں نے اس وقت کہی تھی۔ جب سوشلزم کی حمایت کرنا اور بائیں بازو کا حامی کہلانا ایک مقبول ترین فیشن تھا، پھرایک وقت وہ آیا جب دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ماسکو اور برلن سمیت دیگر مقامات پر مارکس اور لینن کے مجسمے مسمار کیے جانے لگے، اسی طرح کچھ عرصہ بعد 2008 میں کریڈٹ کرنچ نے کیپٹلزم کی اصلیت بھی واضح کر دی۔ جسے سنبھالا دینے کے لیے غریب عوام کے ٹیکسوں سے بنکوں کی مدد کی گی تھی، اسی لیے سرمایہ دارانہ ممالک کے ظلم و ستم کے خلاف بھی اب دنیا بھر میں فضا تیار ہو رہی ہے، وہ قرآن پاک کو بڑی اہمیت دیتے تھے، اسے شاہِ کلید قرار دیتے ہوئے کہتے تھے کہ میں نے مغربی نظریات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد جب قرآن کو سمجھنا شروع کیا تو مجھے دنیا کے بڑے بڑے مفکرین بونے نظر آنے لگے کیونکہ جن مسائل کے حل کے لیے انہوں نے اپنی عمریں صرف کر دیں تھیں، ان کا حل قرآن نے ایک دو جملوں میں ہی بتا دیا ہے، سید مودودیؒ کے افکار کے اثرات دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مثلا" جب سید مودودی نے سود کے خلاف آواز بلند کی تھی تو اسے دیوانے کی بڑ کہا گیا، آج برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں اسلامی معاشیات کے کورسز کرائے جا رہے۔ دنیا بھر میں سود سے پاک بنکاری بھی رواج پا رہی ہے جو لوگ دین و سیاست کی جدائی کے علمبردار تھے۔ آج وہی عناصر دینی جماعتیں بنا کر اسلامی سیاست کی بات کرتے ہیں، یہ اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں سوشلزم کی بنیاد پر منتخب ہونے والے بھی مجبور ہوئے کہ دستور میں قرآن و سنت کی بالا دستی کو تسلیم کریں، اب سیکولرازم، سوشلزم اور لبرل ازم کی وکالت کرنے والے صرف چند ایک دکھائی دیتے ہیں اور وہ بھی سنبھل کر بات کرتے ہیں۔ فتنہ انکار حدیث دم توڑ چکا ہے، نوجوانوں میں اسلام کے بارے میں معذرت خواہی ختم ہو رہی ہے، دنیا بھر میں اقامتِ دین کی جدو جہد میں مختلف تنظیمیں مصروفِ کار ہیں۔ آج سید مودودیؒ اس دنیا میں نہیں لیکن ان کی کتب دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوکر پھیل رہی ہیں، دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں طلبہ ان پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے اہلِ مغرب مخالفت کے باوجود سید مودودیؒ کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا مسلمان مفکر قرار دیتے ہیں۔