قانون کے محافظ ہی جرائم میں ملوث

October 03, 2021

محکمہ پولیس میں ایماندار افسران، کالی بھیڑوں کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں لیکن بااثر شخصیات کے دباؤ کی وجہ سے ناکام ہیں ۔گزشتہ دنوں سابق ایس ایچ او سچل ،ہارون کورائی کوکاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ(سی ٹی ڈی ) نے قتل کے الزام میں گرفتار کیا۔ سابق ایس ایچ او نےاپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کرایک شہری کو اغوا کرکے اسٹیل ٹاؤن کے علاقے میں لے جاکر قتل کیا تھا۔

سی ٹی ڈی پولیس نے گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کر کےان کا ریمانڈ حاصل کر لیا ۔ دوران تفتیش ملزمان نے اہم انکشافات کیے ، جن میں پولیس کے ہاتھوں ’’کنٹریکٹ کلنگ‘‘ یعنی معاوضہ لے کر قتل کی واردات سامنے آئی ہے۔ پیسوں کے عوض قتل کرنے والا خود قانون کا رکھوالا، پولیس انسپکٹر ہارون کورائی ہے جو کئی تھانوں میں ایس ایچ او تعینات رہا ہے۔

سابق ایس ایچ او، ہارون کورائی

کچھ روز قبل اس نے ایس ایچ او پی آئی بی کالونی کے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے، کسٹم انٹیلی جنس کے مخبر، فضل نامی نوجوان کو گھر سے اغوا کرکے قتل کیا ۔مقتول فضل نے چھالیہ کے اسمگلر ،وحید کاکڑ کی کروڑوں روپے کی چھالیہ کسٹم کے ہاتھوں پکڑوائی تھی۔

فضل کے گھر پر جعلی پولیس چھاپے کے دوران، ہارون کورائی کی شریک کار، فوزیہ جو خود کو خاتون پولیس اہلکار ظاہر کررہی تھی اور گن مین اختر کورائی بھی شامل تھا۔ انہیں بھی اس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ چھالیہ کے بڑے ڈیلر عمران مسعود ،اسمگلر وحید کاکڑ اور جعلی میجر عثمان شاہ کو کیس میں ملزم نام زد کیا گیا ہے ۔ ڈی آئی جی، سی ٹی ڈی، عمرشاہد حامد نے واقعہ قتل کے حوالے سے بتایا کہ اس کیس کا مرکزی کردار ،جعلی میجر عثمان شاہ مفرور ہے۔

ڈی آئی جی کے مطابق ،اس کیس کا کبھی بھی سراغ نہیں ملتا اوریہ ٹارگٹ کلنگ کی واردات ہی سمجھی جاتی لیکن طاقت کے نشےمیں چور ،ہارون کورائی سے واردات کے دوران کئی غلطیاں سرزد ہوئیں ۔ جائے وقوع سے تفیتشی ٹیم کو گولیوں کے جو خول ملے ہیں وہ سابق ایس ایچ او کی سرکاری ایس ایم جی کے ہیں ۔

پولیس تفتیش کے مطابق مقتول فضل نے اپنے قتل سے کچھ عرصہ قبل کسٹم انٹیلی جنس کو اطلاع دے کر ملک میں چھالیہ کے سب سے بڑے اسمگلر وحید کاکڑ کی 7کروڑ روپےمالیت کی چھالیہ ضبط کروائی تھی جووحید کاکڑ نے کراچی کے بڑے ڈیلر عمران مسعود کو بھیجی تھی، جبکہ جعلی میجر عثمان شاہ بھی اسمگلنگ کے کاروبار میں اس کا پارٹنر تھا۔

ان تینوں نے کروڑوں روپے کے نقصان پرفضل کو قتل کرانے کا تہیہ کیا اور اس کا ٹاسک ہارون کورائی کو دیاگیا۔ گولیوں کے خول واردات کے حوالے سے اہم ثبوت کی صورت میں ملے اور پھر ملزمان کی ٹیلی فونک گفتگو سے بھی شواہد ملے۔

واضح رہے کہ سی ٹی ڈی پولیس نے ہارون کورائی کو 5روز قبل حراست میں لیا تھا اور تفتیش مکمل کرنے کے بعد گرفتاری ظاہر کی گئی ۔ڈی آئی جی، سی ٹی ڈی، عمر شاہد حامد نے بتایا کہ مفرور ملزمان عثمان شاہ، عمران مسعود اور اسمگلر وحید کاکڑ کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں اور پولیس جلد انہیں گرفتار کرلے گی۔

پولیس کے مطابق ہارون کورائی ماضی میں دیگر جرائم میں بھی ملوث رہا اور اس کے خلاف انکوائریاں بھی ہوئیں۔ کچھ عرصے قبل اس نے مبینہ طور پر گھروں پر چھاپے مارکر دو خواتین کو گرفتار کرلیا جب کہ گھر کی الماریوں میں رکھی 47 لاکھ روپے کی رقم غیر قانونی طور پر اپنے قبضے میں لے لی۔دونوں خواتین کے خلاف منشیات فروشی کا جھوٹا مقدمہ بنا کرانہیں جیل بھجوادیا تھا۔

تفتیش کے دوران ،خواتین کے بیانات سننے کے بعد جب حقائق سامنے آئے تو حکام نےہارون کورائی کو معطل کر کے تحقیقات شروع کرائی تھیں۔اس سے قبل بھی اس کے خلاف مختلف الزامات پر تحقیقات شروع کی گئیں لیکن اثر رسوخ کی وجہ سے وہ نہ صرف تحقیقات رکوانے میں کامیاب ہوگیا بلکہ من پسند تھانوں میں ایس ایچ او کی حیثیت سے تعیناتی بھی کرائی۔ اس کے خلاف نجی ٹارچر سیل میں شہریوں پر تشدد ، زمینوں پر قبضے اور منشیات فروشی سمیت دیگر کئی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات بھی ہیں۔

حکومت سندھ کی جانب سےشہر میں کورونا ویکسی نیشن کارڈز کی چیکنگ کے لیے پولیس کو ہدایات جاری کی گئیں۔ اس سلسلےمیں محکمہ داخلہ نےآئی جی سندھ کو مراسلہ لکھا جس میں ویکسی نیشن کارڈ کی عدم موجودگی پر شہریوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کےلئے کہا گیا۔ آئی جی سندھ نے اس پر فوری عمل کرتے ہوئے پولیس کو کورونا ویکسی نیشن کارڈز کی چیکنگ کا حکم دیا، جس کے بعد پولیس نےاسے پیسے کمانے کا ذریعہ بنالیا۔ سہراب گوٹھ پولیس نے ویکسین نہ لگوانے والے 2 راہگیروں، محمد خالد اور حبیب الرحمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف سرکاری احکامات کی خلاف ورزی اور وبائی امراض ایکٹ 2014 کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

سول سوسائٹی نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک شہری کسی مقدمے میں نامزد ہوجائے تواس کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے کیونکہ سرکاری ملازمت یابیرون ملک تعلیم یا نوکری کے لیے پولیس سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ لینا لازمی ہوتا ہے۔ سی آر آئی سسٹم کی وجہ سے قومی شناختی کارڈ نمبر ڈالتے ہی اس کا سارا ڈیٹا سامنے آجاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ بلیک لسٹ ہوجاتا ہے۔

اس صورت حال پر سماجی تنظیموں کی جانب سے کراچی پولیس چیف، عمران یعقوب منہاس کی توجہ دلائی گئی۔ انہوں نے اس کا ایکشن لیتے ہوئے پولیس اہل کاروں کوہدایت کی کہ ویکسین کارڈ چیک کرنا پولیس کی ذمہ داری نہیں ہے ،پولیس صرف ایس او پیز پر عملدرآمد کر انے کی پابند ہے۔ ہوٹل، شادی ہال، بازار اور دیگر عوامی مقامات پر مجسٹریٹ کے ہمرا ہ جاکرچیکنگ کی جائے۔ ویکسین کارڈ نہ ہونے پر شہریوں کی گرفتاری میں ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

شہر میں اسٹریٹ کرائمز کا جن بھی قابوسے باہر ہوتا جارہا ہے ۔جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں لمحہ فکریہ ہیں۔ گز شتہ دنوں سچل تھانے کی حدود سہراب گوٹھ ،پنجاب بس اڈے پیڑول پمپ کے قریب 2 موٹر سائیکلوں پرسوار ڈاکوئوں نےسواری کے انتظار میں آن لائن موٹر سائیکل رائیڈر 32 سالہ عمران ولد جان محمد کےسر میں گولی مارکر ہلاک کردیا۔

دوسری واردات میں مین یوینورسٹی روڈ موسمیات کے قریب مسلح ملزمان نےڈکیتی مزاحمت کے دوران فائرنگ کرکےباپ کے سامنے اس کےنوجوان بیٹے 21 سالہ عمیر بٹ کو قتل کر دیا، مرحوم باپ کی دوا خریدنے کے لیے دکان کے سامنے رکا تھا ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق رواں سال شہر میں ہونے والی اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں۔

غیرقانونی سیکیورٹی کمپنیاں اور ان سےوابستہ گارڈ سیکیورٹی رسک بن چکے ہیں۔ رینجرز نے پولیس کی معاونت میں ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا ۔ اہم تنصیبات ،بنگلوں اوردفاتر پر تعینات سیکیورٹی گارڈز کا ریکارڈ چیک کیا گیا۔ رینجرز کے ترجمان کے مطابق چیکنگ کے دوران سکیورٹی گارڈزکی کثیر تعدادغیر تربیت یافتہ عملےپر مشتمل پائی گئی۔

کراچی کے 4اضلاع میں مجموعی طور پر 4661 سیکیورٹی گارڈ زکا ریکارڈ چیک کیا گیا۔جن میں سے مشتبہ سیکورٹی گارڈز کی کرائم رپورٹنگ انڈکس سسٹم کے تحت ویری فکیشن بھی کی گئی۔ 337گارڈز کااسلحہ غیر تصدیق شدہ جبکہ159 گارڈز کا اسلحہ غیر لائسنس یافتہ پایا گیا۔ سیکیورٹی کمپنیز سے غیر لائسنس یافتہ اسلحے کا ریکارڈ طلب کر لیا گیا ہے۔