ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنادیا

October 11, 2021

حافظ طاہر خلیل

یہ دسمبر 1975 کے آخری ہفتے کا واقعہ ہے یعنی کرسمس کے موقع پر جب ڈاکٹر قدیر خان اپنی بیگم اور دونوں بیٹیوںکے ساتھ پاکستان آئے تھے اس کی تین دن بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات ہوئی اس وقت ملٹری سیکرٹری مرحوم جنرل امتیاز بھی موجود تھے ، بھٹو صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر خان آپ ذرا دیکھیں کہ منیر احمد خان اور ان کے ساتھیوںنے ایٹمی پروگرام پرا یک سال میںکتنی پیش رفت کی ہے ، جب دیکھا تو سخت دھچکا لگاڈاکٹر خان بتا رہے تھے کہ ایک نا سمجھ ،ناتجربہ کار انجینئر کی سربراہی میںآٹھ دس جونیئر لوگ ایک کھنڈر میںایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہے تھے ، میںنے جا کر بھٹو صاحب کو حقیقت بیان کر دی ،بھٹو صاحب فکر مند ہوئے اور سوچ میںپڑگئے اور پوچھا کہ ڈاکٹر خان آپ کا کیا پروگرام ہے ؟

جواب میںکہا کہ ہم 15 جنوری کو واپس ہالینڈ چلے جائیں گے ، بھٹو صاحب نے فوراًکہا کہ ڈاکٹر خان آپ واپس نہ جائیں یہ کام آپ کے بغیر نہ ہو گا، ڈاکٹر خان ہکا بکا رہ گئے اور کہا ،سر!ہم چھٹی پر آئے ہیںصرف گرمیوں کے چند کپڑے ساتھ لائے ہیںمیری اعلیٰ نوکری ہے ،بچیاںوہاںتعلیم حاصل کر رہی ہیں،کتابیںاور لٹریچروغیرہ دفتر میںہیں،ہندوستان کے ایٹمی دھماکہ 18 مئی 1974 کے بعد بھٹو پاکستان کے وجود کے بارے میںفکر مند تھے ۔ ڈاکٹر خان نے ان سے کہا کہ میںبیگم سے بات کر کے جواب دوںگا۔

ڈاکٹر خان UGCکے گیسٹہائوس گئے جہاںمنیر احمد خان نے انہیںٹھہرایا تھا ، بیگم کو ملاقات کی تفصیل بتائی اور پھر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست کے بارے میں کہا ،جیسا کہ توقع تھی وہ گھبرائیںاور کہا کہ یہ ناممکن ہے تمہارے پاس اتنی اعلیٰ ملازمت ہے اور بچیاںوہاںزیر تعلیم ہیںہمارا سب کچھ وہاں ہے ہم یہاںنہیںرک سکتے ، مگر میں فیصلہ کر چکا تھا اور اس فیصلے سے جب بھٹو کو آگاہ کیا گیا تو بھٹو صاحب نے میٹنگ بلالی اور خوش آمدید کہنے کے بعد مجھ سے کہا کہ بتائو کیا چاہیے ؟ میںنے کہا کہ فوج کی کورآف انجینئر ز کی ایک ٹیم چاہیے ،جنرل ضیا ءالحق جو اس وقت آرمی چیف تھے اور میٹنگ میں شریک تھے ، نے کہا وہ یہ کام کر دیں گے ۔

وزیر اعظم بھٹو نے کہا کہ میںبورڈکو اپنے اختیار ات تفویض کرتا ہوں اور بورڈکو انہیں استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہوں ۔بورڈکے ممبران ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بھر پور مدد کریں اور کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ ملے اور حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ان تینوںمحبان وطن ،قابل آفیسروںنے میری مدد کی وہ اس ملک کی تاریخکا روشن باب ہے ، اے جی این قاضی سیکرٹری جنرل خزانہ تھے ، آغا شاہی سیکرٹری جنرل خارجہ تھے اور غلام اسحاق خان سیکرٹری جنرل دفاع تھے، اس سے بڑا بورڈنہیںبن سکتا تھا یہ پاکستان پر بہت بڑا احسان تھا، اے کیو خان بتا رہے تھے کہ 31 جولائی 1976 میںبھٹو نے ملک میںیورینیم کی افزودگی کیلئے ایک اہم پراجیکٹکے قیام کی منظوری دی۔

اس کا قیام اے جی این قاضی ،غلام اسحٰق خان ، آغا شاہی اور جنرل امتیاز علی اور میرے مشورے پر عمل میںآیا اور اسے ایک خود مختار ادارہ کی حیثیت دے دی گئی ۔اس ادارہ کا نام انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز رکھا گیا اور مجھے اس کا سربراہ مقرر کیا گیا،بھارت نے 18 مئی 1974 کو ایٹمی دھماکہ کر کے دنیا کا ایٹمی توازن درہم برہم کر دیا، ہندوستان کو اپنی سلامتی کے بارے میںکسی قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا اس نے روس کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا ہوا تھا، 31 جولائی 1976ء میںحکومت نے تاریخی فیصلہ کیا کہ ہم یورینیم افزوددگی کی ٹیکنالوجی میںمہارت حاصل کریں اور اپنے ایٹمی ری ایکٹروںکے ایندھن کی دستیابی میں خود کفیل ہو جائیں ، مجھے متعلقہ ٹیکنالوجی کا نہایت وسیع اور قیمتی تجربہ تھا، میںنے یہ چیلنج کھلے دل سے قبول کیا اور کام کرنا شروع کر دیا ۔

میںنے پورے ملک سے چند نہایت محنتی ،قابل اور محب وطن سائنسدانوں اور انجینئرز کا انتخاب کیا اور ہم اس پراجیکٹکو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنانے میںتن من دھن سے لگ گئے ،آپ تصور کر سکتے ہیںکہ یہ آسان کام نہ تھا، میرے ساتھیوں نے کبھی سینٹری فیوج اور اس کی مدد سے یورینیم کی افزود گی کا نام تک نہ سنا تھا حالانکہ ان میںسے کئی ایک باہر سے ڈاکٹر یٹکی ڈگریاں رکھتے تھے ، نیوکلیئر سائیکل میںیورینیم کی افزودگی کو مشکل ترین سمجھا جاتا ہے، میرے رفقا ءکار اور میرے لئے یہ ایک بڑا چیلنج تھا، ہم قدرت کے نئے قوانین تلاش نہیںکر رہے تھے بلکہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ اور مشکل انجینئر نگ مسئلہ سے مقابلہ تھا، میں نے بھی پراجیکٹکی بہتری کی خاطر کوئی اقدام اٹھانے میںقطعی کسی ہچکچاہٹو خوف کا اظہار نہیں کیا، پاکستان پر بہت سخت دبائو ڈالا گیا، امریکہ نے معاشی امداد بند کر دی اور مغربی ممالک نے چھوٹی سے چھوٹی چیزوں مثلاًربر کے رنگز پر تک پابندی لگا دی ،مارجننگ اسٹیل اور مقناطیسی چھلے (Maraging Steel & Magnetic Rings)برآمد نہیں ہونے دیئے لیکن ہم نے بہادری سے ان پابندیوںکا مقابلہ کیا یورینیم کی افزودگی نیو کلیئر سائیکل میںسب سے مشکل ترین کام یا مرحلہ ہوتا ہے ۔

سنٹری فیوج ٹیکنالوجی میںمیٹا لرجی ، میکنیکل انجینئرنگ ، کیمیکل انجینئرنگ ،الیکٹرونکس ،پروسیس ٹیکنالو جی ، کمپیوٹر سافٹویئر (کنڑول اور آٹو مشین )، نیو کلیئر فزکس، ویکیوم ٹیکنالوجی وغیرہ جیسے علوم میںبہت مہارت کی ضرورت ہے ، ہم نے نہ صرف اس ٹیکنالوجی میںمہارت حاصل کر لی بلکہ ایک نہایت اعلیٰ پلانٹلگا کر یہ ثابت کر دیا کہ ہم ایک غیور ، ذہین اور لائق قوم ہیں،ایٹمی پروگرام مکمل طور پر پاکستانیوںکی کاوشوں کا پھل ہے اور یہ ایک غریب اور ترقی پذیر مگر غیور ملک کے انجینئر وں اور ہنر مندوں کے اس مصمم ارادے کی عکاسی کرتا ہے جو پاکستان نے غیر ملکی دباؤ اور بلیک میلنگ کو مسترد کرتے ہوئے کیا تھا۔

یہ نہ صرف میرے لئے باعثفخر و تسکین کی بات ہے بلکہ میرے رفقا کا راور پوری قوم کیلئے باعثفخر ہے ،پاکستان کے یورینیم کی افزودگی کے کامیاب پروگرام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر پاکستانی قوم مصمم ارادے اور سنجیدگی سے کوئی ہدف حاصل کرنا چاہئے تو وہ توقع سے پہلے یہ حاصل کر سکتی ہے ، جو کچھ ہم نے سات سالوں میں نہایت قلیل رقم خرچ کر کے حاصل کیا وہ دوسروں کی نگاہ میں پچاس سال میںبھی حاصل کرنا ناممکن تھا لہٰذا پاکستان اب بھی دنیا کو یہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ قومی مفاد اور وقار کیلئے ہر چیلنج قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

کام کے سلسلے میں میری وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو ، اے جی این قاضی سیکرٹری جنرل فنانس ، غلام اسحٰق خان سیکرٹری جنرل ڈیفنس اور آغا شاہی سیکرٹری جنرل خارجہ سے باقاعدگی سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ ماحول ہمیشہ نہایت ہی اچھا اور دوستانہ ہوتا تھا ،پہلی ہی میٹنگ میں چند منٹ بعد غلام اسحٰق خان نے بھٹو صاحب کی جانب دیکھا اور پوچھا سر! اجازت ہے اور دونوں انگلیاں اٹھا کر سگریٹپینے کی اجازت چاہی ، بھٹو صاحب نے مسکرا کہا ہاں! خان صاحب ، ساتھ ہی خود بھی سگار نکال کر سلگا لیا تاکہ خان صاحب سکون سے سگریٹنوشی کر سکیں ، اس کے بعد میںنے ہمیشہ ان تینوں کی بھٹو صاحب سے لا تعداد ملاقاتیں دیکھیںاور کبھی بھی یہ تاثر نہ پایا کہ ان میںکسی قسم کی ہچکچاہٹیا تنائو موجود ہے۔

ڈاکٹر خان کہہ رہے تھے کہ جو قومیں اپنی تاریخ ساز شخصیات اور واقعات کو یاد نہیںرکھتیں جلد یا بدیر تاریخ بھی ان کو فراموش کر دیتی ہے ،ہمارا وجود ،ہماری شناخت 14 اگست 1947 ءسے ہے ، جس دن ہم دنیا کے نقشہ پر ایک آزا د ملک کی حیثیت سے رونما ہوئے ، 14 اگست 1947 کو مسلمانان ہند نے قائد اعظم کی قیادت و سربراہی میںپاکستان بنایا اور بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کے غلط فیصلوںکی وجہ سے 16 دسمبر 1971 کو ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے اور اس کے بعد ہم اپنے آپ کو غیر محفوظسمجھنے لگے ، مگر 28 مئی 1998ءکے تاریخ ساز دن ہم نے ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا اور جس طرح 14 اگست ایک یاد گار اور ناقابل فراموش دن ہے اسی طرح 28 مئی بھی ہمارے لئے اہمیت کا حامل ہے۔

ڈاکٹر قدیر خان بتار ہے تھے کہ پاکستان کے مزید ٹکڑے کرنے کے مذموم خواب بھارت دیکھ رہا تھا ایٹمی پاکستان یہ ایک ناممکن منزل تھی جس کو ہم نے ممکن بنا دیا ، ڈاکٹر اے کیو خان کے مطابق 28مئی 1998ءکو پاکستان نے چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کر کے ایٹمی کلب میںشمولیت اختیار کر لی تھی ۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس سے پوری پاکستانی قوم اور دنیا ئے اسلام کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔

اگرچہ مغربی ممالک کو شک تھا کہ ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت ہے اور ہم جب چاہیں دھماکہ کر سکتے ہیںلیکن کہاوت ہے کہ جب تک دیکھ نہ لو یقین نہیں آتا، 1984 میںہم نےایٹمی صلاحیت حاصل کر لی تھی اور میں نے 10 دسمبر 1984ءکو صدر جنرل ضیا ءالحق کو تحریری طو ر پر اس سے آگاہ کر دیا تھا ، ایٹمی دھماکوں سے پیشتر اپریل 1998 ءکو کے آر ایل نے لمبی مار والے بیلسٹک میزائل غوری کا کامیاب تجربہ کیا تھا اور بار ہ سو(1200)کلو میٹر دور ہدف کو صیحح نشانہ بنا دیا تھا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیا ءالحق ،غلام اسحٰق خان ، آغا شاہی ،جنرل امتیاز ، بینظیر بھٹو، میاںنواز شریف ،جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل عبدالوحید کاکڑنے نہایت کلیدی رول ادا کیا تھا۔

ایٹمی دھماکوں اور میزائل کی تیاری میںکے آرایل کے کلیدی رول پر تمام سابقہ وزرائے اعظم ،صدور مملکت اور افواج پاکستان کے سربراہوںنے تحریری بیان دیئے ۔ ماضی کے حوالے سے ڈاکٹر خان نے بتایا کہ جولائی 1977 ء میںمارشل لا ء لگنے کے بعد غلام اسحٰق خان صاحب ڈی فیکٹو وزیر اعظم بن گئے اور پروگرام ان کی نگرانی میںآگیا، وہ ہرماہ میٹنگ کرتے تھے اور کام کا جائزہ لیتے تھے ۔

ایٹمی دھماکے کا جب وقت آیا تو ایٹمی دھماکوںکے فوراًبعد ہی صدر مملکت رفیق تارڑ، وزیر اعظم نواز شریف ،آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت ، نیول چیف ایڈمرل فصیح بخاری ، ایئر چیف مارشل پرویز مہدی اور لاتعداد لوگوںنے مبارکباد کے پیغامات بھیجنے ،صدرمملکت رفیق تارڑنے اپنے ایک خط میں لکھا ،اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سےہم نے 28 مئی کو اپنی ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ کر دیا ، پوری قوم نے دل وجان سے اپنے سائنسدانوں کے اس کارنامہ کی تعریف کی ،میںآپ کو اور آپ کی ٹیم کو اپنی جانب سے اور پوری قوم کی جانب سے ہماری تاریخ کی اس عظیم ترین کامیابی پر دلی مبارکباد دیتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ آپ کو مزید کامیابیوںاور خوشیوںاور اعزازات سے نواز ے ، (آمین)وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خط میںلکھا کہ آپ کی اور آپ کی ٹیم کی انتھک کوششوں سے تمام رکاوٹوں پر قابو پالیا گیا اور ہمارا دیرینہ خواب کہ پاکستان محفوظہو جائے پورا ہو گیا ، حکومت اور پوری قوم کی جانب سے میںآپ کو اور آپ کی ٹیم کو دلی مبارکبادپیش کرتا ہوں اور تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے بہترین کام انجام دے دیا، اللہ تعالیٰ آپ کو مستقبل میںبھی کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔

ایئر چیف مارشل پرویز مہدی نے لکھا ۔ 28 مئی 1998 ءہماری تاریخ میںایک ناقابل فراموش دن رہے گا ۔ میںاس کیلئے آپ کے مصمم ارادے اور جدوجہد کو جو آپ نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میںکی، ’’سلام کرتا ہوں ‘‘ میں آپ کی قابل و محب وطن ٹیم کو بھی دلی مبارکباد دیتا ہوںکہ وہ قوم کی توقعات پر پورے اترے ،چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل فصیح بخاری نے لکھا میںاپنی جانب سے اور پاکستان نیوی کے تمام اسٹاف کی جانب سے ہماری تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ،غوری میزائل کی کامیاب لانچنگ اور کامیاب ایٹمی دھماکوں ، پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

آپ کی مسلسل اور مصمم جد و جہد و کوششیں اس قومی فریضہ کے انجام دینے میںنہایت قابل تحسین ہیں،چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت نے لکھا ،بلاشبہ یہ کارنامہ ہماری قوم کا آپ کی او رآپ کی ٹیم کی صلاحیتو ں پر یقین اور اعتماد کا اظہار ہے ، آپ کی کامیابیاںپوری قوم کیلئے باعث قوت وقار ہیں ، آغا شاہی نے لکھا ، پاکستان کا ایٹمی قوت بننے کی صلاحیت حاصل کرنے کے دعویدار بالکل صیحح طور پر ڈاکٹر کیو خان ہیں ، جنہوںنے اس ناممکن مشن کو ممکن بنا دیا اور حاصل کر لیا ۔ یہاں ایک اور اہم واقعہ کا ذکر ضروری ہے کہ 28 مئی 1998 ءکو ایٹمی دھماکوں کے چند ہفتوںبعد سعودی عرب کے وزیر دفاع پرنس سلطان ابن سعود اور ان کے صاحبزادے جنرل خالدبن سلطان ابن سعودوزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو مبارکباد دینے پاکستان آئے تو انہو ں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میںبے حد دلچسپی لی۔

ڈاکٹر خان نے یاد دلایا کہ 27 فروری 2001 کو ایوان صدر میںڈاکٹر اشفاق اور میری ریٹائرمنٹپر الواعی ڈنر ہوا، اس ڈنر میںوزرا ءاعلیٰ سول و فوجی حکام اور سائنسدان شامل تھے جنرل پرویز مشرف نے یاد گار تقریر کی اور کہا کہ آج ہم یہاںاپنے قومی ہیروز کو خراج تحسین اور کہا کہ میری یاداشت مئی 1974کے اس دن کی طرف لوٹجاتی ہیںجب بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور جنوبی ایشیاکی سلامتی کے منظر کو بدلتے ہوئے پاکستان کیلئے انتہائی نامساعد صورت حال پیدا کر دی تھی۔ 1971 ء میںپاکستان کے دو لخت ہونے کے فوراًبعد اس واقعہ نے ہمارے عدم تحفظاور جراحت پزیر ہونے کے احساس کو مزید گہرا کر دیا تھا ۔ہمارے روایتی عدم توازن میں ایک اور سبب کا اضافہ ہو گیا تھا اور وہ یہ کہ پاکستان کو اپنی حفاظت کے بارے میںلاحق تشویش کئی گنا بڑھ گئی تھی ۔ اس موقع پر عالمی برادری نے روایتی علامتی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی تھی ۔پاکستان کو تن تنہا ہی بھارت کی ایٹمی بلیک میلنگ اور دھمکیوںکاسامنا کرنا تھا اور دوسری طرف پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیاروںکے پروگرام کا نام تک نہ تھا ۔

ایسی صورت میںہم سب پاکستانیوںکو صرف خدا ہی آسرا تھا، ہم حقیقی معنوں میںمدد کیلئے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے ، ہم نے ہمت نہ ہاری اور ہمارا عزم قائم رہا۔ آخر کا راللہ تعالیٰ نے قوم کی دعائیںسن لیں، ہماری حالت پر رحم آگیا اور ایک معجزہ رونما ہوا، پردہ غائب سے ایک بلند قامت اور غیر معمولی صلاحیتوںکے حامل نابغہ کا ظہور ہو ااور یہ نابغہ روز گار ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے ۔ایسے نابغہ جنہوںنےتن تنہا قوم کو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال کر دیا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دوبار ’’ نشان امتیاز ‘‘ حاصل کرنا ان کے منفر د پاکستانی ہونے کا ثبوت ہے اور وہ واحد پاکستانی ہیںجنہیںیہ اعزاز دو بارہ دیا گیا۔