خَلق نہیں، خُلق سنوارئیے

October 17, 2021

فرحی نعیم

دَورِ حاضر میں جہاں اپنی ظاہری شخصیت بنانے سنوارنے اور منفرد نظر آنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، وہیں اپنے اخلاق سنوارنے، عادات و اطوار میں بہتری لانے اور اچھے اوصاف پیدا کرنے کا عنصر کم ہوتا جارہا ہے۔ حالاں کہ خود کو جاذبِ نظر بنانے کا یہ ایک ایسابہترین طریقہ ہے، جو تا عُمر شخصیت ماند نہیں پڑنے دیتا ۔لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں ایسا کوئی ادارہ نہیں، جہاں اپنی شخصیت کو دِل پذیر بنانے کے گُر سکھائے جائیں۔یعنی ساری تگ و دو صرف ظاہری چمک دمک بڑھانےکے لیے ہے،باطن کی بہتری کے لیے کوئی فکرمند نہیں ۔ شاید اس لیے کہ اس میں دگنی محنت درکار ہوتی ہے۔

ایک صاحبِ علم سےکسی نے دریافت کیا’’پُر وقار شخصیت کے لیے کس سمت زیادہ توجّہ دینی چاہیے؟‘‘ جواب ملا’’معاشرے کی طلب و رسد کے اصول سامنے رکھ کر فیصلہ کرو اور غور کرو کہ کس چیز کی طلب زیادہ اور رسد کم ہے۔‘‘ عرض کیا’’رہنمائی فرمائیں کہ شخصیت سازی میں معاشیات کے اس اصول کا اطلاق کیوں کر ہوگا ؟‘‘ ارشاد ہوا’’فی زمانہ تو طلب بُلند اخلاق کی ہے، اپنے اخلاق بہتر کرلیجیے ،دیکھتے ہی دیکھتے لوگ آپ کے گرویدہ ہوجائیں گے۔‘‘

ہمارے تو پورے دین کی عمارت ہی صداقت، امانت اور حُسنِ اخلاق پر تعمیر ہوئی ہے۔ مسلمان کی تو اولین شناخت ہی نرم خوئی اور بُلند اخلاق ہیں۔بُلند اخلاق کے سُنہری اصولوں کے ذریعے ہی تو عرب کے صحراؤں سے نکلنے والا دین دُنیا کے کونے کونے تک پھیل گیا۔ ہم تو نبی کریمﷺکے اُمتّی ہیں، جن کے اخلاق اوراوصاف کی مثالیں دشمن بھی دیتے تھے، جو اپنی نرم رَوی، شیریں کلامی اور عفو ودرگزر میں یکتا تھے، تو پھر کیوں ہماری شخصیات سے وہ سارے اوصاف ناپید ہو گئے۔

ہم آج کیوں اخلاقیات کے پست ترین درجے پر ہیں، کیوں زبان کی کاٹ اور لہجے کی تلخی ہماری پہچان بنتی جارہی ہے؟حالاں کہ یہ دو انچ گوشت کا لوتھڑا، زبان ہی ہے، جو دِلوں کو مسخّر بھی کر سکتی ہے اور ایک دوسرے سے متنفّر بھی۔ تو ایسے ’’با اختیار پرزے‘‘ کو یوں بے مہار چھوڑ دینا ہرگزدانش مندی نہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دوسروں کی نظر میں اصل اہمیت ہمارے چہرے، قد کاٹھ، وضع قطع، نین نقش اور خدوخال کی نہیں، بلکہ ہمارے رویّوں اور معاملات کی ہے۔

ہمارے الفاظ اور برتاؤ دیکھ کر ہی لوگ ہم سے متاثر ہوتے ہیں، لہٰذا خوش لباس وخوش اطوار ہونے کے ساتھ خوش مزاج بھی بنیں، تاکہ خوش گوار احساس کاتاثر تادیر قائم رہے۔ دِلوں کو تسخیر کرنے کا ایک ہی گُر ہے، کہ گڑ کی طرح میٹھے بن جاؤ۔ اچھے اخلاق کے ضمن میں شیریں بیانی کے ساتھ صبر و تحمّل، حوصلے واستقامت اور عفوودرگزر کا ذکر بھی آتا ہے، جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ ان اوصاف کی شمولیت ہی سے یہ دائرہ مکمل ہوتا ہے۔ ہمارے نبیﷺ نے جہاں بے شمار دُعائیں مانگیں، وہاں ایک دُعا، باطن کو ظاہر سے بہتر کرنے کی بھی تھی۔ اور باطن تو ہے ہی گفتار و کردار کی بُلندی ، جو اگر میسّر آجائے، تو اپنا سحر طاری کر کے ہی چھوڑتی ہے۔