• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان ، خواتین کا صحافت کی جانب بڑھتا رجحان

Balochistan The Growing Trend Of Women In Journalism
رپورٹ: آستر مہک
بلوچستان میں ملک کےدیگر حصوں کی نسبت مجموعی شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔خاص طور پر خواتین میں خواندگی کی شرح ایک اندازے کے مطابق انتہائی مایوس کن یعنی 26فیصد ہےمگر اس ساری صورتحال میں یہ بات اچھی ہے کہ اب وقت کےساتھ خواتین میں شرح خواندگی کےامکانات زیادہ ہوتے نظرآرہے ہیں۔

نہ صرف پرائمری بلکہ مڈل،ہائی اور کالج و یونیورسٹی کی سطح پر بھی بچیوں میں شرح خواندگی بڑھ رہی ہے۔ایسا اس وجہ سے بھی ہے کہ صوبے میں تعلیمی اداروں میں اضافہ ہورہاہے اور اس کاسہرا سرداربہادرخان ویمن یونیورسٹی کوبھی جاتاہے جہاں آج سے آٹھ دس سال پہلےطالبات کی تعداد دویاتین ہزار تھی وہاں اب یہی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

یہی نہیں بلکہ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی،مینجمنٹ سائنسزاور بلوچستان یونیورسٹی میں بھی طالبات کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ طالبات تعلیم کےحصول میں کسی ایک شعبے تک محدود نہیںبلکہ یہ تقریباً ہرشعبے میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

انہی میں ایک شعبہ ہے ماس کمیونی کیشن یعنی صحافت اورابلاغیات کا۔صوبے کی تینوں بڑی یونیورسٹیوں میں طالبات اس شعبہ میں علم حاصل کررہی ہیںاور ان کی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں 1987میں ماس کمیونیکیشن کی طالبات کی تعداد صرف دو تھی اس سال یہ تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔اس سے طالبات کےماس کمیونی کشن کےشعبہ میں دلچسپی کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔

طالبات اس شعبے میں علم حاصل کرنےکےبعد فیلڈ میں بطور ورکنگ جرنلسٹ کام کررہی ہیںتاہم پرنٹ میڈیاسے زیادہ ان کی دلچسپی الیکٹرانک میڈیا کی جانب ہے۔

اس وقت بھی کوئٹہ میں مختلف ٹی وی چینلز میں چار سے پانچ لیڈی رپورٹرز کام کررہی ہیں۔بطور صحافی ان کا ٹیلنٹ کسی سے ڈھکاچھپا نہیںبلکہ یہ کہنابھی درست ہوگا کہ ان کی کارکردگی کسی چینل میں کام کرنےوالے مرد رپورٹرز سے کم نہیں،،وہ بہترانداز میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

فیلڈ میں کام کرنےوالی لیڈی رپورٹرز کا کہنا ہے کہ اگرچہ صحافت ان کے لئے ایک چیلنجنگ کام ہے مگر اس کےباوجود وہ چاہتی ہیں کہ اس چیلنج کو پوراکریں اور اپنی کارکردگی سےاس شعبے میں اپنالوہامنوائیںتاکہ کسی کو یہ کہنےکاموقع نہ ملے کہ خواتین کسی سے پیچھے ہیں اور وہ کام نہیں کرسکتیں۔

اس حوالے سے ایک اچھی مثال موجودہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی مس راحیلہ حمید درانی کی بھی ہے جنہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشن میں ایم اے کرنےکےبعد بطور صحافی فیلڈ میں کام کیا اور بعد میں وہ سیاست میں آگئیں۔

تاہم اب بھی وہ بنیادی طور پر اپنے صحافی ہونےپر فخر کرتی ہیں،اسی بناء پر خواتین یہ کہہ سکتی ہیں کہ اگر انہیں بھرپور مواقع فراہم کئے جائیں تو وہ ہرشعبے میں اپنالوہامنواسکتی ہیں ۔
تازہ ترین