• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان چین سے بحری جہاز اور 8 آبدوزیں خریدے گا

پاکستان اپنے دوست ملک چین سے بحری جہاز اور 8 آبدوزیں خریدے گا، بحری جہاز کے لئے ایک سودے پر دستخط بھی ہوگئے ہیں۔

چینی سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق چین پاکستان کو ہتھیار برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے، بیجنگ کے اسلحے کی تجارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اسلام آباد بھی 8 آبدوزیں خریدنے کا منصوبہ بنارہا ہے ۔

اخبار نے فوجی ماہرین کے حوالے سے کہا کہ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ فوجی ہتھیاروں کی تحقیق اور ترقی میں چینی اہلیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے بلکہ جدیدترین ہتھیاروں کی تیار ی اور پیداوار میں ترقی کررہا ہے۔

بحریہ کے ایک ماہر لی جی کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ چین حالیہ برسوں کے دوران عالمی اسلحے کی صنعت کا ایک بڑا تیار کنندہ بن کر سا منے آیا ہے اور وہ چھوٹے ہتھیاروں سے ترقی کر کے اب جدید ترین ہتھیار کررہا ہے کیونکہ چین میں ہتھیاروں کی برآمد کے سلسلے میں سخت قوانین لاگو کئے ہیں ۔

گزشتہ 5 برسوں کے دوران چینی ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے اور اسی عرصے کے دوران چین کا ہتھیاروں کی عالمی تجارت میں 6اعشارئی2فیصد کا حصہ بڑھ کر 7اعشاریہ4فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

امریکی جریدے نیشنل انٹریسٹ نےبھی چینی ہتھیاروں کی جرمنی ،فرانس اور برطانیہ تک برآمد کے حوالے سے رپورٹ شائع کی تھی اور لکھا تھاکہ چین اب دنیا کو ہتھیار برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکا دنیا بھر میں کم از کم 100ممالک کو اسلحہ فروخت کرتا ہے، اس کے فوجی اسلحہ کے مقابلے میں چینی اسلحہ قیمت میں بھی کم ہے اور بعد از فروخت سروس فراہم کرنے میں بھی چینی زیادہ سہولت دیتے ہیں، اس لئے اسلحہ کی فروخت میں اس کی ساکھ بہتر ہے۔

دفاعی ماہر لی نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے بھارت کو ایف 16طیارے فروخت کئے جو قیمت میں بھی زیادہ تھے اور وہ زائد المیعاد بھی تھے، چین پاکستان کو جو جدید ترین ہتھیار اور آبدوزیں فروخت کررہا ہے وہ ایک اچھی مثال ہے، یہ آبدوزیں چین نے خود ڈیزائن کی ہیں، چینی ہتھیاروں کی کارکردگی بھی امریکی اور روسی ہتھیاروں کے مقابلے میں بہتر رہی ہے۔

چین 3 اصولوں پر ہتھیار برآمد کرتا ہے جن کا مقصد اپنے خریدار کی قانونی دفاعی اہلیت کو بہتر بنانے میں مدد دینا، عالمی اورعلاقائی امن و سلامتی کو بہتر بنانا اور خریدار کی اندرونی پالیسیوں میں عدم مداخلت ہے۔

تازہ ترین