آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نااہلی مدت کا تعین پارلیمنٹ ہی قانون سازی کے ذریعے کر سکتی ہے،
اب سوال نااہلی کی مدت کے تعین کا ہے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ آئین میں 62 ون ایف کے تحت مدت کا تعین نہیں، نااہلی کی مدت کا معاملہ پارلیمنٹ کو حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نااہلی کا داغ بعض اوقات کسی کے مرنے کے بعد بھی رہتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب تک پارلیمان قانون سازی نہیں کرتی تو ڈکلیئریشن موجود رہے گا۔ آئین میں نااہلی ڈکلیئریشن کو ری وزٹ یعنی (ختم) کرنے کا میکنزم بھی نہیں ہے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 'اگر کوئی کسی جرم میں سزا پائے تو وہ بھی داغ ہوتا ہے۔
اس سے قبل کیس کی 12 فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے غیر حاضری پر اٹارنی جنرل کو 20 ہزار روپے جرمانہ کیا تھا۔ اس موقع پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ جرمانہ اٹارنی جنرل اپنی جیب سے اداکریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ یہ کیس صرف نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے معاملے تک ہی محدود نہیں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عوامی نمائندوں کی نااہلی کی مدت کی تشریح کا بھی معاملہ ہے۔